آبِ زر سے لکھے جانے والے اقوال میں سرفہرست یہ قول بھی ہے کہ ’’خاموشی عالم کے لئے زیور اور جاہل کے لئے پردہ ہے، زیور تو تھا ہی نہیں لب ہلتے ہی پردہ بھی اٹھ گیا، اعلیٰ دماغوں کی بہترین منصوبہ بندی کا اولین شاہکار کی رونمائی ’’فیصل واوڈا’’ کے نام سے ہوئی۔ فیصل واوڈا سے عمران خاں کو جو سیاسی فوائد ملے، نیک نامی کمائی اس سے اب آپ لطف اندوز ہوں پہلے قومی اسمبلی پھر سینٹ کی سیٹ کی سچائی اور نیک نامی کی بھینٹ چڑھ گئی اسے پورس کا ہاتھی بھی کہہ نہیں سکتے جس نے اپنی ہی صفیں الٹ دی تھیں۔ پورس کے پاس لومڑ تھے ۔ان کا کوئی محاورہ بن جاتا ،جو اپنے مالک کی پالتو مرغیوں پر ہاتھ صاف کر گئے ہوتے۔ مشکل یہ آن پڑی ہے فی زمانہ بڑے لوگ ملتے ہیں ہم مشہور یا اعلیٰ عہدیداروں کو بڑا ماننے لگتے ہیں، ایسے بڑوں کے شاہکار فیصل واوڈا ہوتے ہیں، حد ان بڑے لوگوں کی اعلیٰ منصوبہ بندی اور وقت کا انتخاب ہے، اس مہارت سے کرتے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں’’ہینڈ گرنیڈ‘‘ دے دیا جائے تو اس کی پن نکل جانے کے بعد اپنے ہاتھ میں پھٹتا ہے ‘ سو سو جتن کئے لیکن تحریک انصاف کا کوئی نامی ہاتھ نہیں لگا تو بدنامی ہی سہی نام کے ساتھ تحریک انصاف تو جڑا ہوا ہے، اسی کو منتخب جانو نام نہاد بڑے لوگوں کی مردم شناسی تو سب نے دیکھی اور برسر عام دیکھی۔ بہترین منصوبہ بندی کا حال یہ ہے پی آئی ڈی جیسے سرکاری ادارے کی طرف سے دعوت نامہ جاری ہوا، نقاب پوشوں نے سارے کی سارے ٹی وی چینل کو پابند کیا، پاکستان ٹیلی ویژن نے اہتمام سے دکھایا۔خبر نویسوں نے وقت سے پہلے ہی ٹوئٹر پر خوش خبریاں نشر کیں، بس پریس کانفرنس کا اہتمام ’’سرکار‘‘ کرے اسے سنتا کون ہے؟ دیکھتا کون ہے؟ نشرنہ ابھی شروع ہوا تھا کہ سوشل میڈیا نے اس کی ’’بھد ‘‘ اڑا دی۔ حکومت اور سہولت کار جنہوں نے یہ پاپڑ بیلے وہ اہتمام سے دیکھتے اور لایعنی ہرزہ سرائی اور لفاظی سے متاثر ہوئے، حد یہ کہ نواز شریف کو لندن میں جبراً ساری لایعنی سننا پڑی، اس لئے کہ منصوبہ سازوں نے اہتمام کر رکھا تھا کہ اس پریس کانفرنس کے بعد وہ گھر سے باہر نکلیں گے وہاں بے چارے ’’راتب خور‘‘ منتظر ہونگے، پہلے سے تیار شدہ سوالات کے ساتھ اور نواز شریف کا تبصرہ عمران خاں کی برسوں کی تقاریر کو چٹکیوں میں اڑا دے گا آہ۔بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ منصوبہ سازوں کی منصوبہ بندی میں مردم شناسی کے بعد وقت کے انتخاب کی بھی داد دیجیے۔9بجے سے دس بجے تک پورا ایک گھنٹہ جو ملک بھر کے سارے ٹی وی چینل پر خبروں کے لئے مخصوص ہے، عمراں خاں جیسا مقبول لیڈر اور وزیر اعظم سا بااختیار بھی اس وقت تقریر یا پریس کانفرنس سے احتراز کرتا ہے لیکن تحریک انصاف کے بدترین کے لئے ایسا اہتمام۔اللہ اللہ لوٹنے کی جائے ہے۔9بج کر 20منٹ سے ’’تانجاک کاشغر‘‘اگلی صبح اخبار نویسوں اور ٹیلی ویژن کے میزبانوں کے شہیدکی نماز جنازہ ادا کی جانے والی ہے۔ارشد شریف شہید کے گھر کے باہر جوق در جوق‘ صف در صف ساگواروں کا ہجوم ہے۔ذرائع ابلا غ کے ہر ادارے نے شہید کے لئے خاص پروگرام ترتیب دے رکھے ہیں جو آج کے پرائم ٹائم میں نشر ہونا تھے مگر حکومت کے جبر اور نقاب پوشوں کے خوف سے اور تو اور ارشد شریف شہید سے خاص اور گہرا تعلق رکھنے والے اداروں کو بھی جبری مشقت جھیلنا پڑی، وہ بھی مجبور تھے اس ناگواری کو گوارا کریں۔مردم شناسی ‘ وقت کا انتخاب کی ایک جھلک آپ نے دیکھی‘ بہترین منصوبہ بندی یہ رہی کہ توپ خانے میں بچ رہنے والا آخری گولہ بھی جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی چلا دیا۔ بقول شاعر سوچی پئے آں ہن کی کریے‘ ہم پاکستانیوں کے پاس دنیا کے سامنے اپنے فخر کا اظہار کرنے کے لئے بچا ہی کیا ہے‘ ایک افواج پاکستان کے سوا جو دنیا کی بہترین فوج کے مقابلے میں ہم پیش کر سکتے دنیا بھر کے ماہرین اور دفاعی تجزیہ کار ہماری فوج بری ہو ‘ بحری یا فضائی ان کی پیشہ وارانہ مہارت بہادری اور جانشاری کا لوہا مانتے ہیں۔پاکستانی اپنی افواج سے محبت کرتے اور ان کی کہی پر کان دھرتے چلے آئے ہیں۔9اپریل 2022ء تک ہر پاکستانی آئی ایس پی آر کے ڈی جی کی طرف سے سنی بات کو پتھر کی لکیر خیال کرتے رہے اب وہ بات نہیں رہی مگر کیوں؟ یہ ہمارے غور و فکر کی محتاج ہے خصوصاً ادارے کو اپنا احتساب خود کرنا ہو گا گزشتہ تین دن صرف تین دن کے واقعات نے ہر سوچ سمجھ رکھنے والے پاکستانی کو فکر مند کر دیا ہے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کا پریس کانفرنس کے سامنے نمودار ہونا کس قدر پرکشش حوصلہ افزا اور توجہ طلب ہو سکتا تھا پھر ہوا کیوں نہیں؟ اس سارے پروگرام میں قوم کے لئے کون سی خوش خبری تھی ؟ کیا پیغام تھا؟ کون سی نئی بات تھی؟ جس طرح ان کی کہی کو ان کہی ہو گئی یہ ان کے لئے فکری مندی کا سبب ہونا چاہیے یہ پریس کانفرنس اپنی قوم کے دو بڑے اور اعلیٰ ترین عہدیداروں کی باتیں تھیں ان سے بڑا‘ اعلیٰ اور اہم منصب دار اور کوئی نہیں جس کی کہی باتوں کو توجہ سے سنا جائے لیکن یہ اہم ترین پریس کانفرنسیں ’’فیصل واوڈا‘‘ جیسے آدمی کی باتوں کی توسیح extentionبن کے رہ گئی ۔یوں لگ رہا تھا کہ اس کی اہمیت ارشد شریف شہید کی نماز جنازہ کے وقت ٹیلی ویژن سکرین پر قبضہ جمائے رکھنے کے لئے استعمال کیا گیا‘ اس کو تقویت اس بات سے بھی ملی کہ دو اہم ترین عسکری عہدیداروں کے بعد وزراء کی پوری جماعت نمودار ہوئی اور سکرین ان ناجائز اور جابرانہ قبضے میں چلی گئی‘ لاکھوں سوگوار‘ آنسوئوں ‘ سسکیوں میں اپنے شہید کی نماز جنازہ ادا کر رہے تھے۔ سارے ذرائع ابلاغ اس سوگوار مگر روح پرور منظر کو عوام کے سامنے رکھنا چاہتے تھے۔کئی دن پہلے سے اعلان کر دیا گیا تھا کہ جمعرات کی دوپہر نماز ظہر کے بعد ٹھیک دو بجے نماز جنازہ ادا کی جائے گی تو ٹھیک دو بجے عین نماز جنازہ کے وقت اس پریس کانفرنس کا انعقاد آخر کس عبقری کے ذہن کی اختراع تھا؟ عمران خاں کے دھرنے کے آغاز سے ٹھیک چوبیس گھنٹے پہلے ان باتوں کا تذکرہ کر کے ’’دھمکانے‘‘ کی کوشش کی گئی جن کا ذکر گزشتہ کئی ہفتوں سے وہ ترک کر چکا تھا ہمارے ذہنوں میں میر صادق ‘ میر جعفر ‘ نیوٹرل‘ جانور کی اصطلاحوں کے لئے مختلف نام تھے لیکن کھینچ تان کے سب کو ایک شخص سے منسوب کر دیا ‘ ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘ آخر اس ساری محنت‘ کوشش اور کئے کا فائدہ کیا ہوا؟ کیا قوم نے اس پر کان دھرے؟ عمران نے دھرنا ختم کر دیا؟ عوام میں اس کے ساتھ مارچ میں شرکت نہیں کی؟ جب یہ لاحاصل تھا تو آخری گولہ کسی بھلے وقت کے بچا کے کیوں نہیں رکھا گیا؟ ان سے معتبر کون بچا ہے جسے درمیان میں ثالث بنایا جا سکتا تھا؟ آخر قرعہ چیف جسٹس کے نام نکلے گا۔ ٭٭٭٭٭