ووٹروں کو بتایا گیا کہ پاکستان اور کشمیریوں کو سبق سکھانے کیلئے ایک سخت شبیہہ والے حکمران کی ضرورت ہے۔ ان حملوں کے فوراً بعد بھارت کی ایما ء پر امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جیش محمد کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کروانے پر ایک قرار داد پیش کی، جس کومنظور کیا گیا۔ پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار مزید نیچے کی گئی۔ پلوامہ حملوں کے بعد تومشیر امریکی قومی سلامتی جان بولٹن نے تو یہ تک کہہ دیا کہ اپنے دفاع کی خاطر اور جوابی کارروائی کیلئے اگر بھارت بارڈر کراس کرتا ہے، تو وہ اسکی حمایت کریگا۔ یہ ماضی کی اس پا لیسی کے با لکل برعکس تھا، جب ایسے مواقع پر امریکہ کشیدگی کو ہو ا دینے کے بجائے کم کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ ہاں ، جب پاکستان نے جوابی کارروائی کرکے ادھم پور میں موجود آرمی کی شمالی کمانڈ کے بالکل پیچھے بم گرائے اور بھارت کا طیارہ گرا کر اسکے پائلٹ ابھی نندن ورتھمان کو گرفتار کیا، تو امریکہ نے مداخلت کرواکے اسکو فوراً رہا کرواکے انتخابات سے قبل مودی کے لیے راستی ہموار کیا، شدید دبائوکوکم کروانے میں مدد دی۔ انسانی سانحہ کو موقع میں تبدیل کرنے کا فن وزیراعظم مودی کیلئے نیا نہیں ہے۔2002ء میں پہلی بار بطور وزیر اعلیٰ گجرات میں اسمبلی انتخابات کا سامنا کرنے سے قبل جب دو نامعلوم افراد نے سوامی نارائن فرقہ کی عبادت گاہ اکثر دھام پر احمد آباد میں دھاوا بول کر 32 افراد کو ہلاک کیا، تو انہوں نے انتخابی مہم میں اسکا بھر پور استعمال کرکے پوری ریاست پر ایک جنون طا ری کرکے اس کیلئے پاکستان کے اسوقت کے صدر پرویز مشرف کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا کس نے اور کس کی ایما پر یہ حملہ کیا گیا تھا۔ جب ہر طرف سے اس کیس کی تفتیش کے حوالے سے لعن و طعن ہو رہی تھی، تو گجرات پولیس کی کرائم برانچ نے ایک سال بعد جمعیت علما ء ہند کے ایک سرکردہ کارکن مفتی عبدا لقیوم منصوری اور دیگر پانچ افراد کو گرفتار کرکے اس کیس کو حل کرنے کا دعویٰ کیا۔ ان کو نچلی عدالت نے موت کی سزا بھی سنائی جس کو گجرات ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ مگر 2014ء میں سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کو رد کرکے 11 سال بعد سبھی افراد کو باعزت بری کرنے کے احکامات صادر کئے۔مفتی صاحب نے اپنی کتاب میں دردناک واقعات کی تفصیل دی ہے، کہ کس طرح ان کو اکشر دھام مندر کے دہشت گردانہ واقعہ میں فریم کیا گیا۔ سخت جسمانی اور روحانی تشدد کے بعد ان کو بتایا گیا کہ وہ باہمی مشورہ اور بات چیت سے اس واقعہ میں اپنا کردار طے کریں، بلکہ مختلف مقدمات میں سے انتخاب کا بھی حق دیا گیا، کہ وہ گو دھرا ٹرین سانحہ، سابق ریاستی وزیر داخلہ ہرین پانڈیا کے قتل، یا اکشر دھام میں سے کسی ایک کیس کا انتخاب کریں ، جس میں انہیں فریم کیا جائے۔ نہ ہی نچلی عدالت اور نہ ہی ہائی کورٹ نے یہ جاننے کی کوشش کی ، کہ جب خود پولیس کے بقول حملہ آوروں کی لاشیں خون اور کیچڑ میں لت پت تھیں، اور ان کے بدن گولیوں سے چھلنی تھے اور ان حملہ آوروںکے جسموں میں 46 گولیوں کے نشانات تھے، تووہ خطوط کیونکر صاف و شفاف تھے ، جو ان حملہ آورں کی جیبوں سے برآمد ہو گئے تھے، اور جن کے بقول مفتی صاحب اس حملہ کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ ۔ مفتی صاحب کے بقول ان سے یہ خطوط تین دن تک پولیس کسٹڈی میں لکھوائے گئے تھے۔ اسی طرح 2001ء میں پارلیمنٹ حملہ کے ملزم افضل گورو نے کورٹ کو بتایا کہ حملہ کرنے والے چار افراد کو وہ پولیس کے ڈپٹی سپریڈنٹ دیوندر سنگھ کے حکم پر دہلی لے کر آیا تھا۔ ہونا تو چاہئے تھا کہ سنگھ کو سمن بھیجے جاتے اور اسکو تفتیش میں شامل کیا جاتا۔ مگر عدالت نے گورو کابیان اس حد تک ریکارڈ کیا کہ وہ ان حملہ آوروں کو سوپور سے ٹرک میں دہلی لے آیا، مگر بعد کا بیان حذف کرکے اس کو موت کی سزا سنائی۔ دیوندر سنگھ کا نام نہ صرف 2001ء میں بھارتی پارلیمان پر ہوئے دہشت گردانہ حملے میں آیا تھا، بلکہ جولائی 2005ء میں دہلی سے متصل گڑ گائوں میں دہلی پولیس نے ایک ا نکاونٹر کے بعد چار افراد کو گرفتار کیا تھا۔ ان کے پاس ایک پستول اور ایک وائر لیس سیٹ برآمد ہوا۔ گرفتار شدہ افراد نے دہلی پولیس کو ایک خط دکھایا ، جو جموں و کشمیر سی آئی ڈی محکمہ میں ڈی ایس پی دیوندر سنگھ نے لکھا تھا، جس میں متعلقہ سیکورٹی ایجنسیوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ ان افراد کو ہتھیار اور وائر لیس کے ساتھ گزرنے کیلئے محفوظ راہداری دی جائے۔ دہلی پولیس نے سرینگر جاکر دیوندر سنگھ سے اس خط کی تصدیق مانگی اور ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ بھی مارا، جہاں سے انہوں نے اے کے رائفل اور ایمونیشن برآمد کیا۔ یہ سب دہلی کی ایک عدالت میں دائر چارج شیٹ میں درج ہے۔ اسی طرح 1995ء میں جنوبی کشمیر میں مغربی ممالک کے پانچ سیاحوں کو جب ایک غیر معروف تنظیم الفاران نے اغوا کیا، تو بھارتی خفیہ ایجنسیوں کو ان کے ٹھکانوں کے بارے میں پوری معلومات تھی۔ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے طیارے مسلسل ان کی تصویریں لے رہے تھے۔ مگر ان کو ہدایت تھی، کہ سیاحوں کو چھڑانے کا کوئی آپریشن نہ کیا جائے، بلکہ اس کو طول دیا جائے۔ بعد میں ان سیاحوں کو بھارتی آرمی کی راشٹریہ رائفلز نے اپنی تحویل میں لے لیا۔مگر بازیابی کا اعلان کرنے کے بجائے ان کو موت کی نیند سلادیاگیا۔ (جاری ہے)