کوئٹہ میں شاہراہ اقبال پر ریلی کے دوران خودکش دھماکہ میں دو پولیس اور ایک لیویز اہلکار سمیت 8 افراد جاں بحق اور 20 سے زائد زخمی ہو گئے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بظاہر ماضی کے مقابلہ میں مجموعی طور پر بہتر قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم دہشت گردی کی بجھی ہوئی راکھ میں چنگاریاں ابھی باقی ہیں۔ سانپ تو مر گئے ہیں لیکن سنپولیے باقی ہیں جن کا تدارک ازبس ضروری ہے ۔ دھماکے میں غیرملکی ہاتھ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کوئٹہ دھماکہ ایسے موقع پر ہوا ہے جب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پاکستان کے دورہ پر ہیں۔انہوں نے بھی امن و سلامتی کیلئے پاکستانی کوششوں کی تعریف کی ہے جس سے دنیا میں پاکستان کی ایک پرامن ملک کے طور پر شناخت ابھر کر سامنے آئی ہے۔ دوسرے وطن عزیز میں سکیورٹی رسک کے خدشات کو ختم کرنے کیلئے کھیلوں کے فروغ کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں اس قسم کے جان لیوا دھماکے ملک میں کی گئی امن کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے جسے کسی صورت بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئٹہ سمیت ایسے دیگر حساس شہروں میں کڑی نظر رکھی جائے اور ان میں چیکنگ کے نظام کو بہتر بنایا جائے تاکہ پاک فوج کی کوششوں سے فساد زدہ علاقوں میں امن عامہ کیلئے جو سازگار ماحول بنایا گیا ہے اسے برقرار رکھا جا سکے اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری اور کھیلوں کے فروغ کے حوالے سے کی جانے والی حکومتی کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکے۔