یہ اڑھائی تین سال پہلے کی بات ہے! ایک عزیز کی شادی تھی۔نکاح مسجد میں پڑھایا جانا تھا۔ یہ کالم نگار اہلیہ کے ہمراہ دیئے ہوئے ایڈریس پر پہنچا۔ مین دروازے پر ایک کلاشنکوف بردار سدِّ راہ بنے کھڑا تھا۔ مسجد کے ساتھ فٹ پاتھ، اور سڑک اور فٹ پاتھ کے درمیان کچی جگہ تاروں کی باڑ سے بند کی گئی تھی۔ ہدایت کی گئی کہ عقب سے جائیں۔ عقب میں پہنچے تو جہاں گاڑیاں پارک تھیں، وہاں گاڑی کھڑی کی تو ایک اور کلاشنکوف بردار ظاہر ہوا کہ یہاں گاڑی نہیں کھڑی کی جا سکتی۔ اس سے پوچھا کہ باقی گاڑیاں بھی تو کھڑی ہیں، اس کا ایک ہی جواب تھا کہ یہاں آپ پارکنگ نہیں کر سکتے۔ کسی مبالغہ آرائی کے بغیر اگر یہ کہا جائے کہ یہ مسجد نہیں، قلعہ تھا تو غلط نہ ہو گا۔ چاروں طرف سخت پہرہ! پارکنگ والی جگہیں خاردار باڑ سے بند، کافی دیر کی تلاش، جدوجہد اور مدعو کرنے والے اعزہ کو فون کرنے اور مدد حاصل کرنے کے بعد، ایک UN-ASSUMINGقسم کے دروازے سے داخلہ مل سکا۔ نیچے سیڑھیاں جارہی تھیں۔ایک پراسرار تہہ خانے میں نکاح کا بندوبست تھا۔ یوں بھی اس مسجد میں ہر نمازی کو اندر داخل ہونے کے لیے کڑی جسمانی تلاشی دینا پڑتی ہے۔ جو لوگ پہرے پر اور تلاشی پر مامور ہیں، ان کی ظاہری وضع قطع ایک خاص نوعیت کی ہے جس کے ساتھ کلاشنکوف بھی ہو تو پورے تاثر کو خوشگوار قطعاً نہیں کہا جا سکتا۔ کیا ریاست بتا سکتی ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا کسی مسجد کو اس طرح پابندیوں، رکاوٹوں اور حوصلہ شکن ماحول سے ’’آراستہ‘‘ کرنا مناسب ہے؟ یہ صرف ایک شہر یا ایک مسجد کی بات نہیں، ریاست کے اندر ریاست کے ایسے مظاہر سینکڑوں کی تعداد میں ہیں اور کیا عجب ہزاروں میں ہوں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ مساجد اور مدارس کا جو سلسلہ پاکستان میں ہے، کیا وہ کسی دوسرے قابلِ ذکر مسلمان ملک میں موجود ہے؟ یہاں آپ کسی جگہ مسجد بنا سکتے ہیں۔ کسی کی ذاتی ملکیت کا رقبہ ہے یا سرکاری، آپ نے مسجد بنانا شروع کر دی تو کوئی روک نہیں سکتا۔ یہاں تک کہ ریاست بھی بے بس ہے۔ کچی اینٹوں سے دو کمرے بنائیں، اوپر ٹین کی چھت ڈال دیں۔ باہر بورڈ لگا دیں ’’مدرسہ فلاں‘‘۔ اب کوئی پوچھے یا اعتراض کرے تو اس پر اسلام کی مخالفت کا لیبل لگے گا۔ کیا عجب اس کی زندگی بھی خطرے میں پڑ جائے۔ یونیورسٹیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن کا ادارہ کام کرتا ہے۔ کیا مدارس کو(جن میںسے بڑے مدارس یونیورسٹیوں کے برابر سمجھے جاتے ہیں) کنٹرول کرنے کا اختیار ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ہے؟ یا کوئی اور ادارہ مدارس کے حوالے سے یہ فرائض سرانجام دے رہا ہے؟ یہاں ہر مسلک، ہر مکتبِ فکر کے الگ الگ مدارس ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ تبلیغی جماعت کے مدارس الگ ہیں اور جماعت اسلامی کے مدارس الگ! دلچسپ بات یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی اور تبلیغی جماعت پہلے سے موجود دیوبندی بریلوی شیعہ اور اہل حدیث مدارس میں سے کسی سے مطمئن نہیں۔ ایک الگ مسلک، ایک الگ مکتبِ فکر کی حیثیت سے دونوں نے اپنے مدارس الگ قائم کیے ہیں۔ ایک صاحب فرقہ واریت سے تنگ آ کر کہنے لگے، میرا(72)بہتر فرقوں میں سے کسی سے بھی کوئی تعلق نہیں! سننے والے نے فوراً جواب دیا کہ پھر یوں کہیے کہ آپ کا فرقہ 73واں ہے۔ تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کے الگ مدارس پر آپ اعتراض نہیں کر سکتے، اس لیے کہ انہوں نے الگ مدارس بنا کر کسی ملکی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔ فرض کیجیے آج یہ کالم نگار فیصلہ کرتا ہے کہ مدارس کا ایک نیا سلسلہ قائم کیا جائے جس کا نام ’’مدارس سلسلۂ اظہاریہ‘‘ رکھا جائے تو آپ کا کیا خیال ہے کوئی روک سکے گا؟ ہرگز نہیں! کرنا صرف یہ ہے کہ دس بارہ مرلے کی زمین پر دو تین کچے پکے کمرے بنانے ہیں۔ اوپر بورڈ لگانا ہے۔ چندے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ مخیر حضرات کی یہاں کمی نہیں۔ ٹیکس نہیں دینا اور احساسِ جرم کو چھپانے کے لیے چندہ دل کھول کر دینا ہے۔ میں اس سلسلۂ مدارس میں کیا نصاب رکھتا ہوں؟ اساتذہ کس قابلیت کے چنتا ہوں؟ کوئی قانون بازپرس کرنے کے لیے موجود نہیں۔ جب مدارس کے قیام کو کچھ عرصہ ہو چلے گا تو اعتراض کرنے والے پر توہین مذہب کا الزام لگے گا۔ یہ ایسا الزام ہے کہ بڑے بڑوں کو چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا ہے۔ بدصورت ترین پہلو ان مختلف المسالک مدارس کا یہ ہے کہ ان کے اساتذہ اور طلبہ کے درمیان کسی قسم کا ربط اور ہم آہنگی مفقود ہے بلکہ ناممکن ہے۔ بین المدارس ٹورنامنٹس کا کوئی تصور نہیں۔ آٹھ سال ایک طالب علم ایک ہی مکتبِ فکر میں مقید رہتا ہے۔ مدرسہ سے ملحق مسجد بھی ظاہر ہے اسی مکتبِ فکر کی ہے۔ آٹھ سال بعد وہ اس جزیرے سے نکلتا ہے۔ دیکھ کر حیران ہوتا ہے کہ باہر تو سمندر ہے۔ اس میں سُنّی بھی ہیں، شیعہ بھی، بریلوی اور دیوبندی بھی، اہلِ حدیث بھی، جماعت اسلامی کے مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے بھی اسی سمندر میں ہیں، تبلیغی جماعت والے بھی ہیں، پھر یہی نہیں، اس سمندر میں کالجوں، یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے بھی ہیں۔ کوئی بے ریش ہے تو کوئی پتلون پوش ہے۔ وہ اتنا بدحواس ہوتا ہے کہ اپنے مکتبِ فکر کے سوا سب کو گمراہ سمجھتا ہے۔ سب سے اعراض کرتا ہے۔ جلد ہی اسے ایک مسجد ہاتھ آ جاتی ہے۔ نہیں ہاتھ آتی تو کوئی مناسب جگہ دیکھ کر وہ راتوں رات مسجد تعمیر کر لیتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد ساتھ ہی وہ مدرسہ بنا لیتا ہے۔ اپنے آبائی علاقے سے بچے درآمد کر لیتا ہے۔ کچھ عرصہ مزید گزرتا ہے تو مدرسہ اور مسجد کے ساتھ اس کا گھر بھی تعمیر ہو جاتا ہے۔ اب یہ ایک پورا کمپلیکس بن چکا ہے۔ اسے گرانے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اب یہ مذہبی غیرت کے حفاظتی حصار میں آ چکا ہے۔ اس انارکی کا حل کیا ہے؟ کیا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا؟ کیا ہر گروہ اپنی اپنی مسجد کے اردگرد کلاشنکوف برداروں کی بٹالین کھڑی کر کے اسے قلعہ بناتا رہے گا؟ ہم پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ، روزنامہ 92کی وساطت سے موجودہ حکومت کو یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ ماہرینِ تعلیم پر مشتمل ایک وفد بنائے۔ اس میں سینئر بیورو کریٹ بھی ہوں۔ سیاست دانوں میں سے بھی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص کو شامل کیا جائے۔ ثقہ علماء کرام کی بھی اس میں نمائندگی ہو۔ اگر ہر مکتب فکر کا ایک ایک نمائندہ وفد میں شامل کیا جا سکے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ یہ وفد تمام بڑے مسلمان ملکوں میں جائے۔ وہاں مساجد اور مدارس کا جو بھی انتظام ہے، اس کا مطالعہ کرے۔ ہر ملک کے اربابِ اختیار سے اس ضمن میں مکمل بریفنگ لے۔ جن ممالک میں جا کر یہ مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ان میں انڈونیشیا، ملایشیا، ایران، ترکی، سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات،قطر، مصر، الجزائر اور تیونس شامل ہونے چاہئیں۔ وفد مفصل رپورٹ اور تجاویز حکومت کو پیش کرے۔ اس رپورٹ اور تجاویز پر پارلیمنٹ میں تفصیلی بحث کی جائے اور پھر ایسی قانون سازی کی جائے اور ایسے اقدامات اٹھائے جائیں کہ نجی شعبے کی اس بے کنار انارکی کو ایک منظم صورت دی جا سکے۔ ایسی منظم صورت جو ریاست در ریاست ہونے کا تاثر نہ دے۔ جناب خورشید ندیم،جناب عامر ہاشم خاکوانی، جناب اوریا مقبول جان، جناب وجاہت مسعود، جناب یاسر پیرزادہ، جناب آصف محمود، مولانا رعایت اللہ فاروقی اور دیگر دانش ور لکھاریوں سے درخواست ہے کہ اس تجویز پر اپنی اپنی آرا سے نوازیں۔