شہرت کے ساتھ ساتھ بڑھا ہے یہ اضطراب گم نام سا وہ شخص ہمیں مانتا نہیں یہ شہرت بھی عجیب شے ہے‘ مل جائے تو سکون تباہ کر دیتی ہے اور نہ ملے تو بندہ اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہے۔ یہ مثبت بھی ہوتی ہے کہ کوئی نیک نام ہو جائے اور منفی کہ کوئی بدنام ہو جائے۔ لگتا ہے ہر شخص حسد سے۔ سعدؔ ایسا بدنام ہوا ہے‘ اور پھر انجام بھی تو ویسا ہی ہوتا ہے کہ ہم دونوں آغاز پہ پہنچے۔سعدؔایسا انجام ہوا ہے۔ وہ بھی تو کسی استاد نے کہا تھا بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا۔ میں تمہید کو لمبا نہیں کرنا چاہتا کہ اصل میں میں ایک نکتہ پر سوچ رہا تھا کہ شہرت میں بھی ایک معیار تو قائم کرنا پڑتا ہے۔ کوئی جداگانہ یا ممتاز کام سرانجام دینا پڑتا ہے۔ جیسا کہ شکیب جلالی نے کہا تھا: شکیب اپنے تعارف کے لئے یہ بات کافی ہے ہم اس سے ہٹ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے آپ کوئی بھی کام کریں وہ غیر معمولی ہو تو نظروں میں آ جاتا ہے اور بعض اوقات معمولی کام بھی بازیابی حاصل کر لیتا ہے تو انعام کا حقدار مانا جاتا ہے۔ جس طرح اخلاقیات اور تہذیب و شائستگی کا ایک معیار ہے کہ کوئی اس معیار کو قائم کرنے کے بعد اگر کہیں ذرا سا بھی عدم برداشت یا تلخی کا مظاہرہ کرے تو لوگ حیران ہو کر اسے دیکھتے ہیں کہ اس سے توقع اس انداز کی نہیں ہوتی۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنی خوبصورت شخصیت‘ پہچان یا شناخت کا آپ کو لحاظ اور پاس رکھنا ہوتا ہے اس کے برعکس بداخلاقی اور بدتمیزی بھی اپنے معیارات رکھتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو گالی گلوچ اور بدکلامی سے شہرت حاصل ہوتی ہو اور آپ کو اپنے اس معیار کو برقرار رکھنا پڑتا ہے کہ لوگ آپ سے انواع و اقسام کی گالیوں ہی کی توقع رکھتے ہیں۔ آپ کالم نگار ہیں‘ اینکر پرسن یا فلمی مصنف آپ اپنی پہچان بناتے ہیں۔ سیدھے لفظوں میں آپ ٹائپ بن جاتے ہیں۔ اس بات کی بہترین مثال ہمارے خلیل الرحمن قمر ہیں کہ اب بے چارے سے سب وہی جارحانہ ردعمل اور بے منطق صلا واتیں سننا چاہتے ہیں حالانکہ اس خوبصورت شخص نے اپنے کسی کمزور لمحے میں برداشت کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا تھا وہ اگر ماروی سرمد کو منہ ہی نہ لگاتا توسرخرو زیادہ ہوتا۔پر وہ کیا کرتا وہ خاتون اس کے منہ لگ رہی تھی۔ منیر نیازی بھی دشمنی اور دوستی دونوں میں خیال رکھتے تھے: اپنے رتبے کا کچھ لحاظ منیر یار سب کو بنا لیا نہ کرو اس طرح دشمن کا بھی معیار ضروری ہے جیسے کہ ہمارے دوست اختر شمار نے کہہ رکھا ہے کہ میرا دشمن بھی خاندانی ہو’’بات ہو رہی تھی ٹائپ کی کہ جب کوئی اپنی خاص پہچان بنا لیتا ہے یا کہ اس کی پہچان قدرتی طور پر ایسی بن جاتی ہے تو پھر اس لئے بہت بڑا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ لوگ اسے اسی طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ گویا اس مشہور کردار کی خوبی اور خامی باہم ہو جاتی ہیں اس صورت حال میں تبدیلی ممکن نہیں ہوتی۔ اگر میں امجد اسلام امجد کے ڈرامہ وارث کے کردار حشمت کی مثال دوں تو غلط نہ ہو گی۔ یہ کردار محبوب عالم نے کیا اور پھر اس زبردست کردار کی چھاپ اس کی شخصیت پر لگ گئی اب اس کے لئے ویسا اور کردار تخلیق ہوتا تو وہ کرتا۔ میں اسے کئی بار ٹی وی پر ملا تو مجھے اس پر بہت ترس آیا۔ وہ ٹوٹ سا گیا تھا۔ ایک اور کردار اصغر ندیم سید کے ڈرامے میں سہیل اصغر کو ملا جو کہتا تھا’’بندہ آں میں وکھری ٹائپ دا‘ پھر وہ واقعی ٹائپ بن گیا۔ تاہم ریمبو کو اس شناخت سے کافی فائدہ ہوا کہ صاحبہ مل گئی اور وہ صاحب ہو گیا۔ بہرحال شہرت ہے واقعی عجیب شے: اور بھی مشہو ہوتا جا رہا ہوں میں زندگی سے دور ہوتا جا رہا ہوں میں ویسے شہرت کا کوئی فارمولا نہیں۔ یہ عطا ہے کہ کوئی عطا اللہ عیسیٰ خیلوی نکل آئے کہ گائیک تو اسے مانتے ہی نہیں تھے مگر کیا کریں۔ یہ لوگ کسی درد نے سریلے کئے۔ بہرحال ناموری اپنی جگہ کسی نہ کسی گن کے باعث بھی ہوتی ہے جیسے فراز ایک کرزمیٹک شخصیت تھے۔ آپ سرائیکی کے شاعر شجاع آبادی کو دیکھ لیں کہ اس نے معذوری کو شاعری میں نہیں ڈھال دیا۔ اس ایک توانا ذہن کے ساتھ معذوری کو فن کا مددگار بنا دیا۔ یہ بھی قسمت کی بات ہے کہ آپ کی بے ہنری ہنر بن جائے کوئی کمی آپ کو مکمل کر دے۔ میں نے پہلے بھی ایک جگہ لکھا تھا کہ شبنم کو اردو نہیں آتی تھی اور مصطفی قریشی کو پنجابی۔ شبنم بنگالن تھی اور مصطفی قریشی سندھی۔ دونوں نے اردو اور پنجابی میں کمال کر دیا کہ انہیں لہجہ یعنی اپنی زبانوں کا لہجہ دے دیا۔ وہی کہ نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں۔ جو بھی شہرت حاصل کرنا جان جوکھوں کا کام ہے کہ: پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں وہ جو سستی شہرت ہوتی ہے وہ چھوٹے لوگوں کی سمجھ میں بھی نہیں آتی۔ اس سے بہرحال گمنامی بہتر ہے مسابقت تو فطرت میں رہ کر اچھی لگتی ہے۔ منفی رویے تو منفی ہوتے ہیں۔ خاندانی ہو۔ بعض اوقات شہرت ایسے ہی مل جاتی ہے۔ یعنی کوئی میرے جیسا گانے سے پہلے ہی مشہو ہو جائے وہی کہ مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے‘ شہرت کے لئے آپ لاکھ حربے استعمال کر لیں یہ حاصل نہیں ہو سکتی۔ بعض لوگ اپنی غزلیں جنتریوں کے پیچھے بھی چھپواتے ہیں‘ کیپشن بنواتے ہیں مگر بات نہیں بنتی۔ ایسے شاعر ریڈیو اور ٹی وی میں تھے جو سفید و سیاہ کے مالک تھے۔ اپنی مرضی سے کمپوزر اور گائیک چنتے مگر وہ صرف ٹی وی کے اندر ہی مشہور ہیںجس لفظ اور شعر میں طاقت ہوتی ہے وہ تو ملک کی حدود بھی پھلانگ جاتا ہے مجھے ایک مرتبہ قتیل شفائی نے بتایا کہ ان کا مشہور گانا’’ستارو تم سو جائو پریشاں رات ساری ہے‘‘ ادبی پرچے نے چھاپنے سے انکار کر دیا کہ یہ ادبی مزاج کا نہیں۔ کسی فلمی رسالے میں کسی نے چھاپ دیا اور وہ پاک و ہند میں گونجنے لگا۔ بات کچھ اور شروع ہوئی تھی اور نکل کسی اور طرف گئی لیکن ان باتوں کا ذکر شہرت کے علاقے سے باہر نہیں نکلا۔شہرت بخاری نے تو شہرت کو نام کا حصہ بنا لیا تھا۔ بات یوں ہے کہ نام پیدا کرنا حادثاتی بھی نہیں اپنے نام کا پاس کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ یہ بھی اسی طرح کی احتیاط ہے کہ جیسے کہا گیا کہ وہ آدمی کیا جسے ’’طیش میں خوف خدا نہ رہا اور عیش میں یاد خدا نہ رہی‘‘ کسی نے نورجہاں سے کہا کہ سنٹر پروڈکشن یونٹ CPUریڈیو کا حصہ بن گیا ہے اور اب 19سٹیشنوں سے یہ آن ہو گا۔ نورجہاں کہنے لگی’’فیر تے میں بہت مشہور ہو جاواں گی‘‘ کچھ لوگ ساری عمر اسی کوشش میں رہتے ہیں کہ اور نہیں تو شہرت کے لئے کوئی سکینڈل ہی بن جائے۔ بہرحال دعا کرنی چاہیے کہ نیک نامی ملے کہ زندگی شمع کی صورت ہو خدایا مری‘ اب تو یہ دعا بھی تصوف کے ساتھ بھارت والا نے ماہر خان کے عروسی منظر پر فلما دی ہے۔ غالب کے شعر کے ساتھ اجازت: پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا