وزیراعظم عمران خان کے ’مشن کشمیر ‘ پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںخطاب کو عمومی طور پر سراہاجا رہا ہے۔انھوں نے جس طر ح مظلوم کشمیریوں کامقد مہ لڑنے کے سا تھ ساتھ بھارتی عزائم کا پردہ چاک کیا اس پر یقیناً وہ مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن جیسا کہ خان صاحب نے خود کہا ہے کہ کوئی ساتھ دے، نہ دے ہمیں پروا نہیں، ہم کشمیریوں کے سا تھ ہیں اور کشمیریوں کا ساتھ دینا جہاد ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جا ئے توان کا مشن ہنوز ادھورا ہے،چونکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ تصور ہوتی ہے لہٰذا ابھی تحریک تکمیل پاکستان کے لیے کئی مراحل طے کرنا باقی ہیں۔ سب سے پہلے اس کلید ی مسئلے پر پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے۔ یہ مشن صرف خان صاحب یا تحریک انصاف کا نہیں ہے بلکہ کشمیر پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ان معاملات پر صرف کابینہ کوبریف کرنا کافی نہیں، پا رلیمنٹ کو بھی اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ اگرعمران خان اپوزیشن میں ہوتے تو وہ بھی یہی مطالبہ کرتے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت اور فوجی قیادت کے درمیان تال میل بہت اچھا ہے، خارجہ وسکیورٹی اوراقتصادی پالیسیوں سمیت دیگر تمام معاملات پر مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے لیکن دوسری طرف اپوزیشن کو ’’اچھوت ‘‘ سمجھا جا رہا ہے۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے غیر مشروط طور پر کشمیر کے معاملے پر مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر اپوزیشن اور حکومت ایک چٹان کی طرح اکٹھے ہیں۔ انھوں نے اپنے ٹویٹ پیغام میں بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اس حوالے سے کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔ شہبازشریف نے اس ضمن میں فوج کے رویئے کی بھی تعریف کی ہے لیکن جیسا کہ مسلم لیگ(ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ محض تقریروں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا، اس کے لیے سفارتی سطح پر خاصے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ اپوزیشن کو یہ بھی گلہ ہے کہ وزیراعظم نے نیویارک جانے سے پہلے اسے اعتماد میں نہیں لیا۔ احسن اقبال کا خیال ہے کہ5اگست کو مقبوضہ کشمیر پر بھارتی یلغار کے فوری بعد حکومت کو آل پارٹیز کانفرنس بلانی چاہیے تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ تاہم بعد ازخرابی بسیار پارلیمنٹ کے اجلاس کو تومسئلہ کشمیر کے حوالے سے بریف کیا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم کو یہ ٹاسک وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سونپ دینا چا ہیے کہ وہ اس بارے میں ہوم ورک کریں۔مزید برآں حکومت اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی پالیسی پر نظرثانی کرے اور کم ازکم ان گرفتار شدہ ارکان اسمبلی جو ابھی ملزم ہیں مجرم نہیں کے پروڈکشن آ رڈر جاری کئے جائیں اس سے سیا سی درجہ حرارت بھی کم ہو گا۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کی اپنی ضد پر قائم ہیں۔ پیپلز پارٹی تو پہلے ہی اصولی طور پر اس کے اہداف سے متفق ہونے کے با وجود شرکت کرنے سے معذرت کر چکی ہے۔ مسلم لیگ(ن) نے بھی اپنی مجلس عاملہ کے حالیہ اجلاس میں حکومت مخالف تحریک پراصولی طور پر اتفاق کیاہے۔ ن لیگ نے تجویز دی ہے کہ احتجاجی تحریک کے وقت اور طریقہ کار پر مشاورت ہونی چاہئے، اے پی سی میں تمام جماعتوں سے مشاورت ہونی چاہئے۔ احسن اقبال نے میڈیا سے گفتگو میں کہا عام انتخابات کی راہ جلد ہموار کرنا ہوگی، ملک کو بند گلی سے نکالنے کیلئے عام انتخابات کرائے جائیں، حکومت گرانے کی ہر مہم میں تعاون کیا جائے گا، احتجاج کی مشاورت کیلئے ایک اور کمیٹی بنا دی، ہمارا خیال ہے، مولانا صاحب قریب ترین حلیف ہیں، ان کے ساتھ ہیں، آزادی مارچ میں تعاون کا پہلے کہہ چلے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ تقریباً اتفاق رائے ہے کہ نومبر تک آزادی مارچ کو مؤخر کیا جائے، اس وقت تک ن لیگ بھی مکمل فعال ہو جائے گی۔ان کا کہنا تھا مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں سیاسی صورتحال پر غور کیا گیا،کشمیریوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا، مسئلہ کشمیر پر سیاست سے بالاتر ہو کر سب یکجا ہیں۔احسن اقبال نے مزید کہا حکومت نے 58 ممالک کی حمایت کا یقین دلایا، مگر 16 ووٹ نہ لے سکی، حکومت عملی اقدامات سے محروم، صرف ٹویٹ کرتی ہے، وزیراعظم کو مظفرآباد جلسے میں اپوزیشن کو دعوت دینی چاہئے تھی۔ بعض حلقے مولانا فضل الرحمن کی جانب سے حکومت کو گرانے کے لیے اپنی سیاسی تحریک کو مذہبی رنگ دینے پر معترض ہیں۔جے یو آئی(ف) کے سیکرٹری جنرل حا فظ حسین احمد کا کہنا ہے کہ عمران خان ریاست مدینہ کی بات کر سکتے ہیں تو ہم مذہبی کارڈ کیوں استعمال نہیں کرسکتے حالانکہ عمران خان کا ریاست مدینہ کا تصور وطن عزیز میں ایک صاف شفاف کرپشن سے پاک اور منصفانہ نظام کا قیام ہے، وہ کسی کے خلاف نہیں، ان کی ریاست مدینہ کے فلسفے کے پیچھے حکمت عملی سے بھی کچھ لوگ اختلاف کرتے ہیں۔ لیکن مولانا صاحب توایسے ملک میںجس میں 1974ء میںختم نبوت کا مسئلہ ذوالفقار علی بھٹو نے آئین میں متفقہ ترمیم کر کے ہمیشہ کے لیے حل کردیا تھا، ناموس رسالت کے نام پر چندے بازی کا انتہائی خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں جو عمومی طور پر جیواور جینے دو کی پالیسی کے تحت سیاسی زبان میں بات کرتی ہیں وہاں مذہب کا رڈاستعمال کیا جا رہا ہے۔ مولانا کے اہداف سے تو دیگر مذہبی جماعتیں بھی متفق نہیں لگتیں۔ جماعت اسلامی نے خود کو اس تحریک سے دور رکھا ہے۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ مذہبی جماعتوں جن میں جمعیت علما ئے ہند اور خود جماعت اسلامی نے تحریک پاکستان کا ساتھ نہیںدیا تھاوہ تو کسی حد تک مو لانا ابوالکلام آزاد کے فلسفے کے حامی تھے، یہ وہی لوگ تھے جو قائد اعظم کی قیادت کو ببانگ دہل تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے، اب قیام پاکستان کے بعد یہ سیا ست تو پاکستان میں کرتے ہیں لیکن لگتا ہے کہ نظریات وہی ہیں۔یقیناً پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور نیشنلسٹ جماعتیں حکومت کی پالیسیوں سے سخت اختلاف رکھنے کے باوجود مذہب کے نام پر مولانا کاساتھ نہیں دیں گی۔ جہاں تک مسلم لیگ(ن) کا تعلق ہے اس میں میاں نوازشریف اور ان کے قر یبی ساتھی مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ کے حامی جبکہ شہبازشریف اس کے حق میں نہیں ہیں۔ نواز شریف کا حال تو یہ ہے کہ مرتاکیا نہ کرتا جیل میں بیٹھے وہ شاید عمران خان کو ہٹانے کے لیے ہر حربہ آزمانے کو تیارہو جائیں۔ اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈے کہ ان کی صاحبزادی مریم نواز کوجیل میں سی کلاس دے دی جائے اس مر حلے پر جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے۔ویسے مسلم لیگ(ن) میں کچھ لوگ یقیناً ایسے ہونگے جنہیں نظریاتی طور پر بھی مولانا سے اختلاف نہیں ہو گا کیونکہ نواز شریف کی سیاست نے تو جنرل ضیا ء الحق کی کوکھ سے جنم لیا تھا لیکن اس وقت کے نوازشریف اور آج کے نواز شر یف میں بہت فرق ہے۔ اب تو وہ ایک انقلابی اور اسٹیبلشمنٹ مخا لف سیاستدان بن چکے ہیں اوران کے حواریوں کے مطابق اسی بنا پر جیل میں بیٹھے ہیں۔اس صورتحال میں نہ جانے خان صا حب نے اپوزیشن سے ہاتھ ملانے کو بھی ذاتی وقار کا مسئلہ کیوں بنایا ہوا ہے؟حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ کشمیر اور معیشت پر پوری قوم کو ساتھ لے کر چلیں یقیناً اپوزیشن میں شامل ’’چور اچکے‘‘ ملک کی کثیر تعداد میں رائے عامہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ نیویارک سے واپسی پر جس اندازسے خان صاحب پر خوشامد انہ انداز میں ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں کہ انھوں نے اقوام متحدہ میں تقریر میں کما ل کردیا۔ لیکن جیسا کہ انھوں نے خود تسلیم کیا کہ دنیا اس بارے میں ابھی تک تجاہل عارفانہ سے کام لے رہی ہے۔ اس ضمن میں کو ئی ایسی ٹھوس اور جا مع حکمت عملی بنانی پڑے گی جس کا پوری قوم ساتھ دے ۔