لفظ ٹوٹے لب اظہار تک آتے آتے مر گئے ہم ترے معیار تک آتے آتے ایسے لگتا ہے کہ آسودگی قسمت میں نہ تھی مر گئے سایہ دیوار تک آتے آتے اب تو حد ہی ہو گئی ہے کہ مہنگائی کے تازیانے عوام کی کمر توڑ رہے ہیں۔ ایک تماشہ لگتا تھا ۔ آج گفتگو کا وہ تضاد تازہ ہوا کہ قبلہ وزیر اعظم کا فرمان شہ سرخی بنا کہ مہنگائی اس سے کم جتنی حکومت سنبھالنے پر تھی۔ آپ اس سچ پر تشدید ڈال لیں کہ اس سرخی کے اوپر ضمنی سرخی شہ سرخی کا منہ چڑا رہی ہے کہ حکومت نے پھر مہنگائی بم گرا دیا۔ پٹرول 2.70روپے مہنگا ڈیزل 2.88روپے مزید مہنگا۔ تضاد بیانی کی اذیت کہیں زیادہ ہے: کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی آج میں ایک پوسٹ پڑھ رہا تھا کہ کسی محترمہ نے لکھا اب تو میں نے اپنے آپ کو اس نہج پر تیار کیا ہے کہ کوئی مجھے اگر یہ بتائے کہ اس نے ہاتھی اڑتے ہوئے دیکھا ہے تو بے چون و چراں مان جاتی ہوں۔ واقعتاً اب تو اسی میں بھلا ہے انسان سن کر خود شرمندہ ہونے لگتا ہے کہ یہ مشیر اور ترجمان کس ڈھٹائی سے دروغ گوئی اور چرب زبانی سے ساری کرپشن سابقہ حکومت پر ڈال دیتے ہیں کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشل نے بھی دونوں کانوں کو ہاتھ لگا کر وضاحت کی کہ رپورٹ تازہ اعمال نامہ ہے۔ خیر بات میں کر رہا تھا کہ ہاتھی کے اڑنے کی تو مجھے دلچسپ بات یاد آ گئی کہ کل میں مرغزار کالونی کے داخلی دروازہ سے آیا تو وہاں ایستادہ ہاتھی کو ملازم نہلا رہے تھے۔ اس سے پیشتر وہاں سے گزرتے ہوئے بیگم صاحبہ نے کہا کہ اس ہاتھی کو زنجیریں کیوں پہنچا رکھی ہیں یہ تو چور اٹھا بھی نہیں سکتے! میں نے ہنس کر کہا کہ یہ لگتا ہے کہ پتھر کا بنا ہوا نہیں۔ یہ پلاسٹک وغیرہ سے تیار کردہ ہے کوئی بھی عام سا چور اسے اٹھا کر ریڑھی پر ڈال سکتا ہے۔ یہاں پلاسٹک کے ہاتھیوں کو بھی زنجیریں ڈال کر رکھنا پڑتا ہے۔ بہرحال یہ ہاتھی نقلی شیر کی طرح صرف دکھاوے کے لئے نصب کیا گیا ہے ۔ ویسے ہاتھی دلچسپ جانور ہے۔پیارا بھی ہے اور معصوم بھی۔ کہتے ہیں ایک مرتبہ کسی شیر کو اپنی بادشاہت کا نشہ چڑھا تو اس نے جانوروں سے پوچھنا شروع کیا‘ اوئے میں کون ہوں ؟ ہر کوئی کہتا ہے کہ بتانے کی کیا ضرورت ہے آپ شیر ہیں جنگل کے بادشاہ۔ شیر خوش ہو جاتا۔ اس نے اسی طرح ایک مست ہاتھی سے یہ سوال کر دیا۔ ہاتھی نے شیر کو سونڈ میں اٹھا کر پٹخ دیا۔ شیر پیٹھ جھاڑتے ہوئے اٹھا اور ہاتھی سے کہا ‘ جس بات کا معلوم نہ ہو دوسروں سے پوچھ لیتے ہیں۔ ایسے ہی شعر یاد آیا: پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا قارئین! میں تو یونہی موج میں آ کر لکھتا جاتا ہوں کہ پریشانی سے کچھ وقت کے لئے نظر انداز کرتا جائوں۔ ایک پریشانی نہیں کئی پریشانیاں ہیں۔ ابھی میرا بیٹا اڑھائی ماہ کی طویل چھٹیوں کے بعد سکول گیا اور انہیں قدموں پر واپس آ گیا کہ آج اس کی کلاس نہیں۔ یعنی بچے بیچارے ایک دن چھوڑ کر دوسرے دن جایا کریں گے۔ اس حکومت ہر اچھی چیز کی چھٹی ہی تو کروا دی۔ میں سوچتا ہوں یہ شفقت محمود نے سوائے بچوں کو چھٹیاں کروانے کے کیاکیا ہے۔ سکولوں کے ا ساتذہ ہی کیا پبلشرز بھی عجیب غصے میں ہیں۔ ابھی تک کوئی نصابی پالیسی ہی طے نہیں ہو رہی۔ کبھی ایک کتاب کی صورت چہیتوں کو اربوں کی دیہاڑی لگوانے کی کوشش تو کبھی کچھ۔ ہائے ہائے تعلیم برباد کر کے رکھ دی گئی۔ فیسیں مگر باقاعدگی سے جاری ہیں۔ والدین کس کی جان کو روئیں: اک بات کا رونا ہے تو رو کر صبر آئے ہر بات پہ رونے کو کہاں سے جگر آئے یہ حکومت تضادات کا مجموعہ ہے کہ اس بات کو تو ساری خلقت سن رہی ہے کہ قبضہ مافیا پر ہاتھ ڈالا گیا ہے کہ لاہور میں کھوکھر محل مسمار کرنے کے بعد سیلاب بلا کا رخ سیالکوٹ کی طرف ہوا تو خواجہ آصف کی ہائوسنگ سکیم میں غیر قانونی تعمیرات گرا دی گئیں۔ مگر اس کے ساتھ چینل پر یہ سوال تو اٹھا رہے ہیں کہ بنی گالہ کے قریب ان کے چہیتے وزیر کی تعمیرات کا کیا بنے گا کہ جس پر کیس بھی فائل ہو گیا ہے اور ایک بندہ بھی جاں بحق ہو چکا ہے۔ اب اس وزیر کو کون پوچھے گا جس نے لاہو میں سینکڑوں نوجوانوں کو موٹر سائیکل تقسیم کر کے اپنی مہم چلوائی تھی اور پھر بھی وہ ہار گیا تھا اس وقت تو حالات ایسے بگڑے ہیں ۔ میرے کزن مبشر اقبال صدیقی نے بہت معنی خیز بات کی کہ جہانگیر ترین پی ٹی آئی میں سب سے بہتر آدمی ہے۔ ایسے ہی منیر نیازی کا اچھوتا شعر ذہن میں آ گیا: مجھ میں ہی کچھ کمی تھی کہ بہتر میں ان سے تھا میں شہر میں کسی کے برابر نہیں رہا اب آخر میں ذرا سا تذکرہ اپنے اسی کزن مبشر اقبال صدیقی کے حوالے سے ۔مبشر اقبال صدیقی ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی کے فرزند ہیں اور ان کی بیٹی عاتقہ کی شادی میں شریک ہوا۔ کئی اہم شخصیات سے ملاقات ہو گئی اپنی بھتیجی عاتقہ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ نکاح شیخ الحدیث اور بزرگ عالم دین مولاناعبدالمالک نے پڑھایا اور جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق صاحب نے خطاب کیا اور وہ کہنے لگے کہ ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی ان کے مرشد و مربی تھے۔ کچھ یوں لگا کہ وہ مجھے حکم دے رہے تھے کہ میری پوتی کی شادی میں شرکت ضرور کرنا۔ تو وہ ساری مصروفیت چھوڑ کر چلے آئے۔ اس موقع پر کہا کہ نکاح نبی کریمﷺ کی سنت ہے اور انہوں نے احیائے دہن کی بات کی۔ اس پر فتن دور میں اپنی ذمہ داری سمجھنے کی ضرورت ہے بہرحال عاتقہ بیٹی کے لئے دعائیں ۔ بیٹیاں بھی کیا عجیب ہوتی ہیں۔اساں چڑیاں دا چنبہ وے بابلا‘ اساں اڈ جانا۔ ایک ملال ایک اداسی ایک یاد پیچھے رہ جا تی ہے اور اشکوں بھری آنکھیں۔ سید سلمان گیلانی کی نظم بیٹی یاد آئی: بیگم سے میں نے پوچھا کوئی میٹھی چیز ہے حلوے کا اس نے تھال مرے آگے رکھ دیا بیٹی سے اپنی میں نے کہا میٹھا دو مجھے جھٹ اس نے اپنا گال میرے آگے رکھ دیا