سیاست ہمارے ملک کی ایسی ہے کہ اسے نہ کسی پل چین ہے اور نہ قرار۔ ہر لمحہ ہر آن بدلتی ہوئی تغیر پذیر۔ مگر نتائج وہی ڈھاک کے تین پات۔ بقول منیر نیازی کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ملک عزیز پر آسیب کا سایہ ہے۔ اگر کوئی سایہ ہے تو خداوند تعالیٰ کی رحمت ہی کا سایہ ہے کہ تمام بدعنوانیوں‘ بدکرداریوں‘ خود غرضیوں اور نفس پرستیوں کے باوجود یہ ملک قائم و دائم ہے اور بہتری کے آثار بھی کچھ نہ کچھ نظر آتے رہتے ہیں۔ عرض کیا جا چکا ہے کہ تبدیلی دبے پائوں آتی ہے جبکہ انقلاب دھوم دھڑکے سے آتا ہے۔ تبدیلی جو خاموشی سے آتی ے مستحکم و مضبوط ہوتی ہے۔ انقلاب کے اثرات جلد زائل ہو جاتے ہیں۔ موجودہ حکومت میں لاکھ برائیاں سہی لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ یہ ملکی اور حکومتی معاملات کو صحیح خطوط پر استوار کرنا چاہتی ہے۔ بدعنوانی کے خاتمے کے لئے اس کے ارادے مضبوط ہیں اور وہ اس پہ کوئی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ جو خرابی یک اصل جڑ ہے وہ فقط یہ کہ وزیر اعظم اور ان کی حکومت آزادانہ فیصلے کرنے میں آزاد نہیں اور شاید یہ بھی ہو کہ وہ اس کے بہت زیاد اہل بھی نہیں۔ فوج کے ڈسپلن میں عمر عزیز گزارنے والے حکمران اور اسپورٹس مین کی تربیت کے خوگر جمہوری وزیر اعظم میں قدر مشترک یہ بھی تو ہے کہ دونوں ہی کو ایک ہی بات سکھائی جاتی ہے کہ دشمن یا حریف کو شکست دو۔ اسے چھٹی کا دودھ یاد دلادو۔ اسے ہر حال میں رسوا کر دو۔ یہی تربیت جب حکمرانی میں آ کر اپنے جلوے دکھاتی ہے تو اپنے حریفوں اور مخالفوں سے مکالمہ کرنے‘ بات چیت سے معاملات کو سلجھانے میں آڑ بن جاتی ہے۔ تو ایک غیر جمہوری ذہن جمہوری سسٹم میں ناکامی سے ہمکنار ہوتا ہے ۔ کوئی اور وجہ نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ ذہنی رویے اور جمہوری تقاضوں میں ٹکرائو اور تصادم کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔کوئی حرج نہ ہوتا اگر وزیر اعظم اقتدار میں آ کر اپوزیشن سے محاذ آرائی کے بجائے ان سے مفاہمت کا معاملہ کرتے۔ دروازہ تو اب بھی بند نہیں ہوا۔ نیلسن منڈیلا کا جو لوگ عزت کے ساتھ تذکرہ کرتے ہیں وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ کئی دہائیوں تک قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد وہ رہا ہوا تو فراخ دلی سے اس نے اپنے دشمنوں کو معاف کر دیا۔ جو مدینہ کی ریاست کے قیام کے دعوے دار ہیں۔وہ نبی اکرمؐ کی مثالیں لیں تو انہیں بھی معلوم ہو گا کہ فتح مکہ کے بعد آپؐ نے مشرکین مکہ کے لئے عام معافی کا اعلان کر دیا اور اپنے بدترین دشمن ابو سفیان کے گھر کو دارالامان قرار دیا۔ تو جب مشرکوں کے لئے معافی ہے تو بدعنوانوں کے لئے معافی کیوں نہیں ہو سکتی؟ جبکہ دامن آپ کی حکومت اور جماعت کا بھی صاف نہیں۔ سزا یافتہ لوگ آپ کے بازو بنے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ کابینہ میں بھی بیٹھے ہیں اگر آپ کا گمان یہ ہے کہ ووٹ اور سپورٹ عوام نے اس لئے دیا کہ آپ نے بدعنوانی کو ٹارگٹ کیا اور بدعنوانوں کو جیل بھیجنے یا بھجوانے کے دعوے کئے۔ بالکل درست لیکن اپوزیشن میں رہتے ہوئے سیاست کے طور طریقے اور ہوتے ہیں اور حکمرانی میں آ کر معاملات کو دیکھنے اور برتنے کا انداز اور ہو جانا چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن کی سیاست کے جمہوری نظام میں ڈائنامکس ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان میں فرق نہ کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ اس ڈائنامکس کو سمجھتے ہی نہیں۔ حکمران وہی کامیاب ہوتا ہے جو کشادہ دل ہو۔ خود کو نیکو کار سمجھنا اور مخالفین کو ہدایت سے محروم اور بدکردار جاننا خدا کو بھی ناپسند ہے۔ دنیا کو بدلنے اٹھے تھے دنیا نے بدل ڈالا کہ نہیں صاف اور سادہ سی وجہ ہے انسانوں یا معاشرے کو بدلنا کسی انسان کے خواہ وہ کتنے ہی اختیارات کا مالک و مختار ہو‘ بس میں ہے ہی نہیں۔ یہ خداوند تعالیٰ ہے جو دلوں کی حالت کو بدلتا ہے کہ انسان کا دل اس کی دو انگلیوں کے درمیان ہے جب چاہے اسے پلٹ دے اس لئے وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ تمام دعوئوں سے خود کو الگ کر کے کشادہ دلی سے درگزر کا راستہ اپنائیں اپنے لب و لہجے میں تحمل اور انکسار پیدا کریں کہ یہی شان مسلمانی بھی ہے اور خدا کو پسند بھی۔ مغربی جمہوریت کا ایک بڑا نقص یہ بھی ہے کہ ملک و معاشرے کو محاذ آرائی‘ تصادم اور ٹکرائو کی آماجگاہ بنا دیتی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈروں میں ہوس اقتدار پیدا کرتی ہے ایک جماعت خود کو فرشتوں کی جماعت اور مخالف جماعتوں کو طاغوت اور شیطان کی نمائندہ جماعتیںسمجھنے لگتی ہے اور عوام کو یہی باور کرانے میں لگ جاتی ہے۔ یہ تو وقت بتاتا ہے کہ جو جماعت فرشتوں کی سمجھی یا سمجھائی جاتی تھی وہی طاغوتی اور شیطانی جماعت نکلی۔ ہمارے معروضی حالات اس نظام کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ معاشرہ سیاسی سطح پر ٹکڑیوںمیں بٹ جائے۔ جس حکومت کو آئے ہوئے ابھی پورے دن بھی نہیں ہوئے کہ اس کے خلاف برطرفی کی تحریکیں چلیں اور مردہ باد کے نعروں سے ملکی فضا پراگندہ ہو۔ ہمیں ایک ایسا نظام وضع کرنا چاہیے جس میں قومی درد مندی عوام کی فلاح و بہبود اور لیڈروں اور جماعتوںمیں اعلیٰ اخلاقی صفات موجود ہوں۔ قوم کو جو بحران درپیش ہوں ان بحرانوں سے نکالنے کے لئے حکومت اور اپوزیشن کی جماعتیں مل جل کر کام کریں۔ دونوں آج کی اصطلاح میں ایک پیج پر ہوں۔ غور کیا جائے تو ہماری ساری ناکامیابی اسی وجہ سے ہیں۔ اصلاح و تبدیلی کی ہر کوشش اسی لئے بے برکت اور بے نتیجہ ہے کہ نیتوں میں فساد ہے۔ اگر عمل کی بنیاد نیت ہے اور یقینا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ نیت کے صالح بیج سے جو درخت جو پودا اگے وہ بے ثمر ہو تو وزیر اعظم اور ان کی کابینہ اور ان کی پارٹی کو اپنی نیت اپنے انداز گفتار اور معاملات کی درستگی کے طور اطوارکو ایک بار کم از کم جھاڑ پونچھ کر دیکھنا چاہیے کہ خرابی اصل میں کہاں ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ع ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا اس ملک کے کروڑوں لوگ جو نہایت امید سے موجودہ حکومت کو دیکھ رہے ہیں اور ان میں ایسوں کی بھی کمی نہیں جو صدق دل سے دعا گو ہیں کہ موجودہ وزیر اعظم قوم کو بحرانوں سے نکالیں اور شاہراہ ترقی پر گامزن کریں۔اس لئے کہ قوم کے پاس چوتھا کوئی آپشن نہیں ہے۔ دو سیاسی جماعتوں کو آزمانے کے بعد قوم نے تبدیلی کے نام پر تیسرا آپشن اپنایا ہے۔ اگر یہ آپشن بھی ناکام ہوا تو نہیں کہا جا سکتا کہ قوم میں کسی درجہ مایوسی پھیلے گی اور آگے کیا ہو گا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ہمارے منہ میں خاک اگر ہماری نا امیدی غلط نکلتی ہے اور خدا کرے غلط ہی نکلے۔ ہم کالم نگاروں کا کام حضور کو نیک و بد سمجھانا ہے اس سے آگے دعائیں ہیں مگر دعائیں بھی مقبولیت کے لئے نیت اور سچی طلب سے مشروط ہیں۔ کیا تبدیلی کی سچی طلب ہے ان میں جو اس کے دعوے دار ہیں؟