27جون 2007ء کا وہ دن میری یادوں میں کبھی مدھم نہیں پڑ سکا وہ لو بھرا ‘ گرم دن میرے صحافتی سفر کا حسین ترین دن تھا۔ آج 27جون 2020ء کو یہ سطریں قلم بند کرتے ہوئے 13برس کے فاصلے پر ہی ہوں۔ اس لو بھرے سنہری دن کی طشتری میں سجی ہوئی وہ انوکھی خوشی محسوس کر سکتی ہوں جس نے مرے دل کو یک گو نہ تشکر اور فخر و انبساط سے بھر دیا تھا۔ ان گزرے تیرہ برسوں میں میری صحافتی زندگی بہت سی رکاوٹوں سے گزر کر کامیابی کے بہت سے سنگ میل عبور چکی ہے۔ بہت سے خواب تعبیر کی صورت میں ڈھلے اور صحافت کے میرے تجربے کو پہلے سے مزید ثروت مند کرتے گئے۔ الحمدللہ ‘صف اول کے تین بڑے قومی روزناموں میں کام کا تجربہ میرے سفر کو معتبر بناتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج سے 13برس پیشتر میں محض ایک نوآموز صحافی تھی اور وادی صحافت میں کیسے کیسے بلند قامت لوگ تھے۔ ادارتی صفحے پر لکھنے والوں میں ارشاد احمد حقانی‘ عطاء الحق قاسمی اور منو بھائی جیسے کوہ ہمالیہ موجود تھے اور ان کے درمیان 27جون 2007ء کو جب میرا پہلا کالم شائع ہوا تو اس وقت احساسات ایسے ہی تھے جیسے خواب کی کاسنی دھند اور تعبیر کا سرمئی آسمان آپس میں مدغم ہو گئے ہیں۔ تاہم واردان چمن جس طرح ہر نئے تجربے ‘ ہر نئی شے کو حیرت و استعجاب سے دیکھتے ہیں میں بھی ایسی تھی بلکہ شاید اس روز حیرت اور خوشی سے کچھ زیادہ بھری ہوئی تھی۔خواب اور دیوانگی سے کچھ زیادہ لبریز تھی۔ ڈیوس روڈ کی مشہور شاہراہ پر گاڑیوں کے آنے جانے کا شور، بے ہنگم ٹریفک کا بہائو اور اس کے کنارے پر ایستادہ سرمئی رنگ کی عمارت کے دوسرے فلور پر میگزین سیکشن کے ایک کمرے میں میز پر جھکی ہوئی میں‘ اخبار کے ادارتی صفحے کو تکتی تھی۔ ارشاد احمد حقانی صاحب کے کالم کے عین نیچے میرا پہلا کالم جگمگا رہا تھا۔جس کا عنوان ڈبلیو بی ییٹس کی نظم کا ایک مصرع تھا A Terrible beauty is bornغیر یقینی میں ڈھلی ہوئی وہ خوشی میرے سارے وجود میں تتلیوں کی طرح اڑتی پھرتی تھی۔ میں اپنا کالم دیکھتی ۔ پڑھتی اور پھر بار بار پڑھتی رہی۔ ایک نو آموز صحافی کی خوشی کا اظہار بیوقفانہ سہی مگر بہت بے ساختہ اور فطری تھا۔ ایسے ہی جیسے گھٹا سے بوجھل بادل مینہ برسانے لگیں۔ یا ہوا چلے تو پتے ہوا کے سنگ تالیاں بجائیں اور ڈالیاں رقص کرنے لگیں۔دنیا فتح کرنے والوں کو بھی ایسی ہی خوشی ہوئی ہو گی جیسی خوشی اس روز مجھے اپنے حصار میں لئے اڑائے پھرتی تھی اور اس کی ٹھوس وجوہات موجود تھیں۔ ایک ایسے ادارے پر جہاں پروفیشنل ایڈیٹرز سے زیادہ کئی اقسام کے ڈائریکٹر کا قبضہ ہو چکا ہو۔صحافی کو ایک کامن پن اور دس روپے کے بال پوائنٹ کے حصول کے لئے پوری لکھت پڑھت کر کے تھروپراپر چینل کی راہداریوں سے گزرنا پڑتا ہو اور اخبار میں کام کرنے والے سب ایڈیٹرز کے لئے ادارتی صفحے پر لکھنا شجر ممنوعہ ہو۔ وہاں کالم لکھنے کا سوچنا دیوانے کا خواب ہی تو تھا۔ کتنے ماہ اسی جدوجہد میں گزارے۔ گروپ ایڈیٹر کے نام درخواستیں خطوط فیکس کئے۔کتنے ہی نمونے کے کالم بھیجتی رہی‘ جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔ ہاں یہ میری خوش قسمتی تھی کہ گروپ ایڈیٹر محمود شام صاحب کی صورت اعلیٰ ظرف انسان سے واسطہ پڑا جو نئے لوگوں کو بھی راستہ دینے والے تھے۔وہ ایک ایسے باغباں تھے جو نئی پنیری لگانے پر بھی یقین رکھتے تھے۔ تین سال اس اخبار میں کالم لکھا۔ ڈیڑھ سال کے وقفے کے بعد ایک اور قومی روزنامے میں کالم لکھنا شروع کیا۔ پانچ سال کے بعد روزنامہ نائٹی ٹو نیوز کو بطور کالم نگار جوائن کیا۔یہاں میں یہ اعتراف ضرور کروں گی کہ روزنامہ نائٹی ٹو نیوز سے وابستہ ہونا‘ میرے لئے بطور کالم نگار بہت خوش قسمت ثابت ہوا۔ ارشاد احمد عارف صاحب جیسے کھرے دیانت دار اور پروفیشنل ایڈیٹر کے زیر ادارت کام کرنا میرے لئے ایک خوشگوار تجربہ ہے۔ وہ تعصب سے ماورا ہو کر چیزوں کو پرکھتے اور جانچتے ہیں۔ میں ان کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری صلاحیتوں پر اعتماد کیا اور مجھے جب ہفتے میں تین کالم لکھنے کا کہا تو پہلے میں نے انکار کر دیا کہ میں دو کالم ہی ہفتے میں بہتر لکھ سکتی ہوں۔ لیکن ارشاد صاحب نے مجھے اعتماد بخشا اور کہا کہ نہیں آپ تین ہی لکھیں اور آپ لکھ سکیں گی۔ہفتے میں تین دن آپ کا نام اور کالم کا لوگو چھپے گا تو آپ کو صحافت اور کالم نگاری میں ایک نئی پہچان ملے گی۔ان دنوں جب میں اپنے کالموں کا انتخاب کتاب کی صورت میں مرتب کرنے میں مصروف ہوں تو مجھے آغاز سفر کے کئی قصے یاد آتے ہیں۔ خواب کی دیوانگی اور اس کی صورت گری کے وہ سارے مرحلے بے طرح یاد آتے ہیں کالم نگاری کا یہ آغاز سفر اور پھر مسلسل سفر، کسی طور آسان نہ تھا۔ بقول شخصے اس میں دو چار بڑے سخت مقام آتے ہیں۔ مگر خواب کی توفیق کی طاقت اگر اس ذات سے لی گئی ہو جو ہر ناممکنات کو ممکن میں ڈھالتا ہے اور وہی تو ہے جو ڈھال سکتا ہے تو پھر راستے کے پتھروں پر چلنے کا سلیقہ بھی وہی عطا کرتا ہے یہ اسی کی عطا اور اسی کا کرم ہے۔ شکر گزاری سے لبریز دل سے نکلے ہوئے چند اشعار قارئین کی نذر کرتی ہوں۔ ؎ کوئی مجھ کو بیاض وقت پہ تحریر کرتا ہے مرا معمار دست غیب سے تعمیر کرتا ہے وہ پہلے خواب رکھتا ہے تہی آنکھوں کے کاسوں میں پھر اک دست کرم سے خواب کو تعبیر کرتا ہے مثال گرد راہ بے صورت و بے خانماں سے تھے مگر وہ کیمیا گر خاک کو اکسیر کرتا ہے میں دست بے ہنر سے بس خیال خام بنتی ہوں وہ خود قرطاس پر آ کر انہیں تصویر کرتا ہے