’’یار تم نے بانوے کے ورلڈ کپ کا ٹاس دیکھا تھا؟‘‘ ’’اس میں کیا خاص بات تھی؟‘‘ ’’اس میں عمران خان اور گراہم گوچ کی باڈی لینگوئج دیکھنے والی تھی۔‘‘ ’’مطلب ؟‘‘ ’’ مَیں نے کسی جگہ پڑھا ہے کہ دنیا کے ہر طبقے کے لوگوں، کیا کھلاڑی، کیاطالب علم، کیافن کار، سب میں انیس بیس کا فرق ہوتا ہے۔ اصل کمال ذاتی صلاحیتوں پہ اعتماد، اور ان کے مناسب استعمال کا ہوتا ہے۔ مَیں جب بھی بانوے کے ورلڈ کپ کے فائنل میچ کے ٹاس کی ریکارڈنگ دیکھتا ہوں ، تو انگلینڈ جیسی ورلڈ کپ کی مضبوط ترین ٹیم اور پورے ٹورنامنٹ کی پِچھڑی ہوئی ٹیم کے کپتانوں کے لہجوں اور باڈی لینگوئج سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ پاکستانی کپتان نے آدھا میچ اپنے اس مختصر سے انٹرویو میں جیت لیا تھا، جب عمران خان نے ٹاس ریفری کے سوال کے جواب میں کمر پہ ہاتھ باندھے ہوئے ، نکلی ہوئی چھاتی، مضبوط اعصاب اور بے پناہ اطمینان کے ساتھ جواب دیا تھا کہ اگر ہم نے جیتنا نہ ہوتا تو قدرت کا ہمیںنیچے سے یوں اٹھا کے اوپر لانے کا مقصد ہی کوئی نہیں تھا…عاطف! اگر میری بات پہ یقین نہیں تو ذرا اُس ٹاس والی ریکارڈنگ کو گوگل کر کے ایک نظر خود دیکھ لو!!‘‘ دوستو! یہ مکالمہ پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر اور میرے موجودہ پڑوسی اور مسجد فیلوبرادر عاطف رؤف خواجہ اور ایچی سن کالج نیز ماجد و عمران کے ذاتی کوچ خواجہ شب خیز عبدالرب کا ہے، جس سے میری پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم جناب عمران خان کے پختہ عزائم اور مثبت باڈی لینگوئج سے بندھی ہوئی امید اور بھی پختہ ہو جاتی ہے۔ خواجہ عاطف جو عام کرکٹرز کے برعکس گورنمنٹ کالج کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، معروف ترین کرکٹرز وسیم حسن راجا اور رمیض حسن راجا کے پھوپھی زاد ہیں نیز سعید انور اور ماجد خان کے قریبی دوستوں میں سے ہیں۔ سود سے احتیاط کی بنا پر بنک کی ایگزیکٹو جاب چھوڑ کر کسی پرائیویٹ ادارے میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ انگریزی میں پوسٹ گریجوایٹ ہونے کے باوجود اُردو میں ایم فل، پی ایچ۔ڈی کی تمنا رکھتے ہیں۔ وہ ماجد خان کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ عمران خان کی بچپن ہی سے تعلیم پہ تو شاید زیادہ توجہ نہیں تھی لیکن ضد اور بہادری میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔وہ جو بات ٹھان لیتا تھا، اسے کر کے دکھا دیتا تھا۔ اسے ناممکنات کو ممکنات میں بدلنے کی پرانی عادت ہے۔ سری لنکا، جس کے بارے میں کسی زمانے میں ہمارے ایک مزاح گو شاعر نے کہا تھا: ؎ سری لنکا ، سری دیوی ، سری پائے نہیں دیکھا ، نہیں دیکھی ، نہیں کھائے وہاں کے شدید حبس زدہ موسم میں کولمبو سٹیڈیم کے چودہ چکر لگائے تو مقامی منتظمین سر پکڑ کے بیٹھ گئے۔ کینسر ہسپتال کو لوگوں نے دیوانے کا خواب قرار دیا، اس نے ایک کی جگہ تین تین بنا کے دکھا دیے۔لوگوں نے باتیں بنائیں کہ برطانیہ کی گولڈسمتھ فیملی میں دولت پہ مر مٹا ہے، وہ سب کچھ کو لات مار کے آ گیا۔ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت سے مرعوب ہونا اسے آتا ہی نہیں۔ڈر اور خوف اس کی سرشت میں ہی نہیں۔ آج عمران خان کے بد ترین دشمن بھی اس کی ایمان داری اور کرپشن کے سلسلے میں عدم برداشت کی گواہی دیتے ہیں۔ اس کی شخصیت ایسی ہے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے لیڈر تک اس سے ہاتھ ملانے کو اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں۔وہ دنیا بھر کی جا بہ جا اور مفت میں میسر تعیشات کو جوتے کی نوک پہ رکھ کے یہاں بیٹھا ہے۔شہرت، دولت، ٹوہر ٹپہ، تحفے تحائف، جائیدادیں، ذاتی کاروبار، رشتے داروں کو نوازنا، اس کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ وہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کا عزمِ صمیم لے کر میدان میں اترا ہے ، یا اسلام کے نام پر حاصل کی گئی اس مملکتِ خداداد کو اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کی خاطر مدینہ کی ریاست بنانے کی بات کرتا ہے تو ہمیں اس کے لیے معاون یا کم از کم دعا گو تو ضرور ہونا چاہیے۔ لیکن نہیں صاحب ! یہاں تو اصل سیاپا ہی یہی ہے کہ اگر یہ بے غرض آدمی ، حالات بدلنے میں کامیاب ہو گیا تو نہ صرف وٹہ سٹہ اور ’’کھاؤ اور کھانے دو‘‘ کی روایتی اور موروثی سیاست کا سرے سے خاتمہ ہو جائے گا بلکہ لوٹ مار کی پائی پائی کا حساب شروع ہو جائے گا۔چنانچہ اقتدار سنبھالنے کے پہلے دن سے ہی سوچی سمجھی سکیم کے تحت ایک ماحول بنا دیا گیا ہے، ایک بیانیہ تخلیق کر دیا گیا ہے کہ’’ جلدی جلدی اب تک بتائیں کیا کیا ہے؟ ‘‘ہماری لوٹ مار کو چھوڑیں… ہمارے حساب کتاب کو بھول جائیں… ہماری غلط سلط پالیسیوںکا ذکر تک نہ کریں… فضول فضول شرائط پہ لیے قرضوں کو بیچ میں نہ لائیں…ایک ایک محکمے کی بربادی و خستہ حالی کی بات نہ چھیڑیں… ملک سے باہر خریدے گئے محلات اور بنائے گئے پلازوں کا نام نہ لیں… کون سا سیاست دان کنگلے سے بنگلے تک کیسے پہنچا، دَڑ وٹ جائیں… کس ہستی کے پاس خرمستیاں کرنے کے لیے کس کس ملک کی شہریت ہے؟ معاملہ ٹھپ رہنے دیں… بس آپ جلد از جلد بتائیںکہ آپ نے کیا کیا ہے؟ بدقسمتی اس ملک کی یہ ہے کہ حکومت مخالف فریقوں کی جیبیں ، تجوریاں، بنک اکاؤنٹ حتی کہ گھریلو لاکرز قومی خزانے ہی کی خُرد برد اور ملک دشمن طاقتوں کی ’غیبی امداد‘ سے کانوں کان بھرے ہوئے ہیں۔ اسی پیسے کو حکومت گرانے، حکمرانوں کی کردار کشی کرنے، میڈیا، عدالتیں خریدنے، کرپشن کے ثبوت مٹانے نیز اتحادیوں کو ورغلانے میں دھڑادھڑ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اوپر سے قانون کا ڈھانچہ ٹوٹی ہوئی چارپائی کی ادوان سے بھی زیادہ ڈھیلا ہے۔ ماضی میںبیورو کریسی کو نمک خواری کا عادی بنا دیا گیا۔ پھر پہلے دن سے ایک منتخب وزیر اعظم، جس کے پیچھے اس مقام تک آنے میں ربع صدی کی جدو جہد ہے، کے بارے میں، سلیکٹڈ…سلیکٹڈ کا پروپیگنڈاتیار کیا گیا۔ بھولے بھالے عوام اور لائی لگ میڈیا نے ایک بار منہ بھر کے نہیں کہا کہ بھائی میاں ! پوری دنیا میں حکومتوں کی پالیسیاں اسٹیبلشمنٹ کی نگرانی میں بنتی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کا ایک پیج پہ ہونا خیر کی علامت ہے۔ اگر فوج اتنی ہی بری ہے تو جمہوریت جمہوریت کا بے سُراراگ الاپنے والے ذرا پنے اپنے گریبان میں جھانک کے تو دیکھیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے ولدیت کے خانے میں تو شاہنواز بھٹو کا نام درج ہے، پھر وہ ڈیڈی ڈیڈی کس کو پکارتا تھا؟ یہ جاننا بھی اشد ضروری ہے کہ اسّی کی دہائی میں اٹھائیس لاکھ کی ایک عدد گاڑی کے تحفے کے ڈرامے کے عوض وزارتِ خزانہ کا سودا کس نے اور کس سے کیا؟ نیز ایک ’شہید جنرل‘ کے گھر کی وفاداری کس نے دل و جان سے نبھائی؟ اس بات کا بھی پتہ ہونا چاہیے کہ 1988ء میںپہلی خاتون وزیرِ اعظم کی جمہوری حکومت کس جرنیل کے اشارے پہ بنی؟ اور اس بات کا کھوج لگانا تو از حد اہم ہے کہ نو اور دس دسمبر 2000ء کی درمیانی رات کو کس سلیکٹڈ نے کس سلیکٹر کے ساتھ دوستانہ معاہدے پہ دستخط کر کے جیل سے محل تک کا معرکہ رات کے اندھیرے میں سر کیا؟؟؟ دوستو! عمران خان کی سب سے بڑی خطا یہی ہے کہ اس نے ذرا ذرا سی دنیاوی خواہشات اور تلذذات کے سامنے سر جھکانے کی بجائے کڑوے سچ بولنے اور ملک و قوم کے لیے روشن خواب دیکھنے کی پرانی عادت ترک نہیں کی۔اس نے کسی تاجر یا آجر کو اپنی قیمت نہیں بتائی۔ماجد خاں کے بقول وہ بچپن ہی سے ضدی ہے، اڑیل ہے، ہٹیلا ہے، جسور ہے، غیور ہے، یہی اس کا قصور ہے!!!