حکومت نے کہا ہے کہ آٹے کا بحران جلد ختم ہو جائے گا۔ آپریشن کا حکم دے دیا گیاہے۔ ٹھیک ہے۔ بحران پیدا کرنے کا مقصد تو حاصل ہو گیا جیسا کہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نے ’’دوستوں‘‘ کو نوازنے کے لئے بحران خود پیدا کیا۔ سنا ہے‘ بعض مقدس ’’اے ٹی ایم‘‘ کے ذخائر وفور زر سے چھلک اٹھے ہیں اور کیوں نہ چھلک اٹھتے ۔گندم کی حالیہ فصل پر خریداری کا سرکاری ریٹ 11سو روپے من تھا۔ یہی گندم حکومت نے 28سو روپے من بیچی۔1700روپے فی من کا جائز منافع آخر کہیں تو پہنچا ہو گا۔ حکومت کے بہی خواہ میڈیا پرسن بتا رہے ہیں کہ بحران ’’مس مینجمنٹ‘‘ سے پیدا ہوا۔ یعنی اے ٹی ایم بھرنے کی بات غلط ہے۔ بس یونہی ذرا بے احتیاطی ہو گئی۔ اس سے اچھی وکالت اور کیا ہو گی۔ حالیہ فصل سے گندم کے ذخائر سرپلس تھے۔ سرپلس ذخائر والا ملک گندم درآمد کرے گا۔ یہ مس مینجمنٹ نہیں لاجواب صلاحیتوں کا باکمال استعمال ہے۔ شیخ رشید فرماتے ہیں کہ لوگ دسمبر میں زیادہ روٹیاں کھاتے ہیں۔ کیا یہ کوئی ’’طبی دریافت‘‘ ہے پی ٹی آئی پہ بہرحال اس کا اطلاق نہیں ہوتا‘ اس لئے کہ وہ جب سے آئی ہے اس کا ہر مہینہ دسمبر ہے۔ اشرافیہ کے ایک نمائندے شوکت یوسفزئی کا مشورہ ہے کہ گندم مہنگی ہے تو مت کھائیں۔ مزید فرمایا روٹی مہنگی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘ ہاں روٹی کا وزن کم کر لیں۔ یہ کہہ کر روٹی مہنگی کرنے کا طریقہ بتا دیا۔ اگرچہ بتانے کی ضرورت نہیں تھی‘ وہ پہلے ہی مہنگی ہو چکی ہے۔ ٭٭٭٭٭ گندم کی فصل تو بہرحال سرپلس تھی لیکن باقی زراعت کا حال اچھا نہیں ہے۔ سال رواں میں زراعت کا گروتھ ریٹ منفی 8فیصد رہا۔ یعنی ترقی کا پارہ ٹھٹھرتے ٹھٹھرتے نقطہ انجماد سے بھی نیچے چلا گیا۔ صنعت کا حال بتانے کی ضرورت نہیں۔ آدھے سے زیادہ کارخانے بند پڑے ہیں‘ جو ابھی بند نہیں ہوئے ان کی پیداوار چالیس فیصد کم ہو چکی ہے۔ کپتان کہتا تھا کہ ایک بال سے دو وکٹیں گرا دوں گا۔ دیکھ لیجیے‘ ایک ہی بال سے زراعت و صنعت دونوں کی وکٹیں اڑا دیں۔ ماشاء اللہ ۔ ٭٭٭٭٭ اقوام متحدہ نے عالمی معیشت پر اپنی رپورٹ ڈبلیو ای ایس پی جاری کر دی ہے۔ پاکستان سے متعلق اس کی پیش گوئی ہے کہ اس کی شرح ترقی جو سابق دور کے 5.8فیصد سے کم ہو کر ڈیڑھ سال میں 3.3فیصد رہ گئی ہے۔ اگلے برس مزید کم ہو کر 2.1پر آ جائے گی۔ یعنی گزشتہ سال کے اخیر پر جو اندازہ جاری ہوا تھا کہ کم ہو کر 2.4فیصد ہو جائے گی‘ وہ بھی غلط تھا۔ پسماندہ نے ابھی اور درماندہ ہونا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ پھر بھی’’رعایت پسندانہ‘‘ ہے۔ معیشت کے عالمی ادارے فچ کا اندازہ ’’حقیقت پسندانہ‘‘ لگتا ہے۔ اس نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بی منفی پر مستحکم رکھتے ہوئے کہا کہ اگلے سال پاکستان کی شرح نمو ایک اعشاریہ آٹھ(1.8) فیصد رہے گی۔ اور اس سے اگلے سال اس سے بھی کم۔ درجہ صفر تو پہنچنے میں دیر ہی کتنی لگے گی۔ لوگ اس حیرت انگیز‘ تیز رفتار’’ترقی‘‘ پر یقین نہیں کر رہے، نادان ہیں۔ ٭٭٭٭٭ شیخ رشید نے ’’عوام‘‘ سے دو سال اور مانگے ہیں۔ یعنی مدت اور ہدف پورا کرنے دیا جائے۔ یہ سوال رہنے دیجیے کہ ’’عوام‘‘ سے ان کی کیا مراد ہے جس سے وہ مزید دو سال کا وقت مانگ رہے ہیں۔ اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ کپتان نے مختصر بات کرنے کا سلیقہ سیکھ لیا ہے۔ مختصر بامعنی اور جامع بات۔ طویل کلام سے لوگ اکتا جاتے ہیں۔ بعض اوقات مطلب بھی ضبط ہو جاتا ہے۔ گیارہ نکاتی ایجنڈا‘ دو دو گھنٹے کی تقریریں۔ لوگوں کو مفہوم اخذ کرنے میں مشکل ہو جاتی تھی۔ اب انہوں نے سارا خلاصہ ایک ہی جملے میں نکال کر اپنے منشور کے دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔ فرمایا‘ سکون لینا ہے تو قبر میں جائو۔ کتنا جامع الکلم کلمہ ہے۔ حال کی تصویر‘ مستقبل کی تحریر۔ یہی شان حال ہے اور یہی جان استقبال۔ اس قیمتی کلمے کی قیمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ یہی کلمہ سننے کے لئے ملک کو پچھلے دو برس کے دوران کتنی بڑی معاشی قیمت دینا پڑی‘ قیمت کا حق پھر بھی ادا نہیں ہوا۔ آنے والے دنوںمیں شاید ادا ہو پائے۔ ٭٭٭٭٭ کپتان صادق و امین ہیں تو یہ تو ہو بھی نہیں سکتا کہ کوئی صادق و امین کسی غیر صادق و امین کو اپنا ساتھی بنا لے۔ چنانچہ صادق و امین اتحادی قاف لیگ کے صادق و امین رہنما کامل علی آغا اسی ہفتے ایک ٹی وی پر بتا رہے تھے کہ رشوت کا ریٹ پانچ سو سے بڑھ کر پچاس ہزار روپے ہو چکا ہے اور لوگ کپتان کا نام لے کر رشوت لے رہے اور بدعنوانیاں کر رہے ہیں۔ صادق و امین نے مزید بتایا کہ کرپشن میں بڑھوتری آ گئی ہے۔ لاء اینڈ آرڈر کا حال بد سے بدتر ہو گیا ہے۔ عطر آنست کہ خود بگوید والا معاملہ ہے۔