عمران خان نے اقوام متحدہ میں سچ میں قوم کو ’’مایوس‘‘ کیا،کپتان سے قوم کو ایسی توقع نہیں تھی ،ڈھیلے دھالے قومی لباس پر انگریزی کوٹ پہنے ہوئے کپتان اقوام عالم کے سب سے بڑے فورم پر پچاس منٹ تک غیر روائتی غیر سفارتی انداز میں ’’بس ‘‘ گرجتے رہے انکی بدیسی زبان میں انہی کے لب و لہجے میں دیس کی ترجمانی نے ناقدین کی پیشانیوں پر پڑے بل کم کئے نہ کشمیریوں کی وکالت نے مخالفین کے دلوں کی آگ ٹھنڈی کی حسب توقع جاتی امراء ،لاڑکانہ اور ڈیرہ اسماعیل خان سے تیزابی ردعمل آیا مولانا فضل الرحمان گھاگ سیاستدان ہیںاور ان کی خان صاحب سے اور خان صاحب کی ان سے نیاز مندی ہر روز تپتے سورج کے کوٹھے پر چڑھ کر انگڑائی لیتی ہے،جانبین ایک دوسرے پر تبریٰ میں کمال رکھتے ہیں ایک دوسرے کے بارے میں ان کے خیالات اخبارات اور میڈیا کے نیوز ڈیسک کو بھی وقت ڈال دیتے ہیں کہ انہیں کس طرح تحریر میں لایا جائے وہ تو بھلا ہو مادر پدر آزاد سوشل میڈیا کا ورنہ حضرات کی تقاریر کبھی ریکارڈ کا حصہ نہ بنتیں اور قوم اس’’ عظیم خزانے ‘‘کو ضائع کر بیٹھتی۔ سلیکٹڈکی پھبتی کے ساتھ امریکہ سفرکرنے والے وزیر اعظم کی تقریر بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے بعد تھی نریندر مودی نے سترہ منٹ میں اپنی بات یوں سمیٹی کہ پاکستان کا نام تک نہ لیا،کشمیر میں سلگتی دہکتی آگ کی سیک اپنے لہجے سے دور رکھی تاثر دیا کہ سب ٹھیک ہے امن کی مالا جپی جارہی ہے ،راوی چین ہی چین لکھتا ہے انکے نزدیک اسی لاکھ کشمیریوں کی جنت ارضی کو جیل بناڈالنا ایسا عمل تھاکہ انہیں اسکے دفاع کے لئے ذکر کرنا تک گوارہ نہ کیا ،کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ٹشو پیپر کا سلوک کرنے والے نریندرا مودی نے یہ تاثر دیا کہ سب ٹھیک اور کنٹرول میں ہے کسی کو چنتا کرنے کی ضرورت نہیں ،کرفیو لگا کراسی لاکھ سے زائد آبادی کوگھروں میں محصور کر دینا،زمینی رابطوں کے ساتھ ٹیلیفون ،انٹر نیٹ بند کردینااورنو لاکھ کے قریب ہتھیار بند فوجیوں کوکھلا چھوڑ دیناایک چھوٹی سی ہی تو بات ہے اور بڑے دیسوں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں تو ہوتی رہتی ہیں ۔۔۔لیکن اس کے بعد عمران خان خوب گرجے برسے ،بنا کسی مسودے کے پچاس منٹ کی تقریر میں اقوام عالم کو جھنجھوڑتے رہے ،توہین مذہب پرانہیں سمجھایابتایا کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے دلوں میں بستے ہیں ان کی ذات اقدس کو ہدف تنقید بنانا مسلمانوں کا دل دکھانے جیسا انہیں بے چین اور مضطرب کرنے جیسا ہے ،مناسب دلیل دی کہ جب یہودیوںکی دل آزاری کے پیش نظر ہولو کاسٹ پر سوال اٹھانے کی جازت نہیں دی جاتی تو ہمارے رسول ﷺ کو ہدف توہین کیوں بنایاجاتا ہے ، مولانا فضل الرحمان کی جانب سے قرار دیئے جانے والے ’’یہودی ایجنٹ‘‘سے ایسی کسی کو توقع نہ تھی عمران خان نے سب کو ہی حیران کر دیاتھااور اب حیران کرنے کی باری اپوزیشن کی ہے اور حیرت کی بات یہ کہ اپوزیشن کی باری ختم ہی نہیں ہو رہی! دو اکتوبر کوہمارے دو بڑے سیاستدانوں نے عمر، خیالات اور فکر کے اختلافات کے باوجود دو مختلف مقامات پر عمران خان کی تقریر پر ایک ساموقف اختیار کیا اور وہ موقف تھا اقوام متحدہ میں عمران خان نے ٹھیک نہیں کیا۔۔۔ میرپورآزاد کشمیر میں بلاول بھٹو نے اپنے نرم و نازک لب ولہجے میںکشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو تاریخی حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کو پورے ایشو کو فوکس کرنا چاہئے تھا،زیادہ پرزور انداز میں اس پر بات کرنی چاہئے تھی ،حق رائے شماری پر بولنا چاہئے تھا۔۔۔بلاول بھٹو کی اس تنقید کا آغاز نیوزکانفرنس میں ایک صحافی کے سوال پر ہوا تھاجس کے جواب میں سب سے پہلے تو بلاول بھٹو صاحب نے کہا کہ وزیر اعظم نے ’’بس‘‘ اچھی تقریر کی اسکے بعد انہوں نے سوال اٹھائے کہ وزیر اعظم نے کشمیر کے لئے کتنے ممالک کا دورہ کیا؟ کس کس پلیٹ فارم پر گئے ،صرف ٹوئٹ اورایک تقریر سے کوئی کشمیریوں کا سفیر نہیں بن جاتااور یہ تنقید ہلکی نہیں وزنی تھی۔ عجب اتفاق کہ قومی میڈیا کی ٹیلی وژن اسکرینوں پر بلاول بھٹو صاحب کے فورا بعد مولانا فضل الرحمان دکھائی دینے لگے انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں وزیر اعظم کی تقریر یکسر مسترد کردی اورپھرمولانا نے عمران خان کی تقریر کا پوسٹ مارٹم کر ڈالا،فرمانے لگے حکومت نے کشمیر کا سودا کر دیاہے ،وزیر اعظم نے اقوام عالم میں ایٹمی جنگ کی دھمکی دے کر پاکستان کے لئے مشکلات کھڑی کر دی ہیں ،اب دنیا کو ہمارے ایٹمی اثاثوں کی فکر لاحق ہوجائے گی وہ ہمیں ایک غیر ذمہ دار ریاست کہیں گے اور ہمارے ایٹمی اثاثوں کو اپنی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیں گے ۔۔۔ تواتر سے بھارتی میڈیا پر نظر رکھنے والے حیران ہیں کہ مولانا محترم یہ دور کی کوڑی کہاں سے لائے بھارتی میڈیا اپنی فضائی حدود میں اڑتے کبوتروں کو بھی آئی ایس آئی کا ایجنٹ قراردے کر بریکنگ نیوز کے ڈبے گھما ڈالتا ہے ،وہ دہلی کی سڑکوں پر کرتب دکھاتے بندرکو بھارت ماتا کے خلاف کسی پاکستانی سازش کا کردار بناسکتا ہے لیکن بھارت کے ہزار سے زائد نیوز چینلوں میں بیٹھے کسی دیس بھگت ایڈیٹر کو یہ ایٹمی جنگ والا آئیڈیا نہیں سوجھاوہ بھی یقینا اپنے دفاتر میں بیٹھے سرکھجا رہے ہوں گے کہ ہم ابھی طفل مکتب ہیں مولانا محترم نے اپنی دانش مندی اور دوربینی کا سکہ بٹھا دیا ۔ ساٹھ کی دہائی میں جنرل ایوب خان نے اپوزیشن کی مشکیں کس رکھی تھیں ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ اپنے خلاف اٹھنے والی آواز اٹھنے سے پہلے ہی حلق میں بٹھا بلکہ لٹا دیں ان کے اقتدار کی جانب کوئی میلی نظر سے دیکھے تو آنکھیں نکال کر ہتھیلی پر رکھ دیں اور یہ کوئی عجیب بات نہیں اقتدار کے کھیل میں ایسا ہی ہوتا ہے تاریخ کی گواہیاں بھری پڑی ہیں کہ تخت کے لئے باپ نے بیٹے پر رحم نہیں کیا اور بیٹے نے باپ کی گردن مار دی ایوب خان ایسا سوچتے تھے تو عجب نہ تھا ان کی مولانا مودودی رحمتہ علیہ سے بھی نہیں بنتی تھی ،جماعت اسلامی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی ،ان کی خود نوشت اور ڈائری سے پتہ چلتا ہے کہ وہ جماعت اسلامی کو کتنا ناپسند کرتے تھے ،انکی ڈائری میں مولانا مودودی رحمتہ علیہ کے لئے غدار اور شر انگیزتک کے الفاط ملتے ہیں اسکے باوجود جب 1965ء میں بھارت پاکستان کی سرحدیں روندنے کے لئے آگے بڑھا جنگ شروع ہوئی جنرل ایوب خان کو احساس ہوا کہ وطن کی سلامتی کے لئے سب کو ایک پیج پرہونا چاہئے تو انہوں نے مخالف سیاستدانوں سے ملنے کی خواہش ظاہر کی مولانا مودودی رحمتہ علیہ کو بھی ان کا پیغام ملا،ان دنوں جنگ کی وجہ سے فضائی سروس بند ہوچکی تھی ’’غدار‘‘یہ پیغام ملتے ہی بذریعہ روڈ کسی کی موٹر کار میں ایوب خان سے ملنے روانہ ہو گیا کہ معاملہ قومی سلامتی کا تھا،بڑے لوگوں کا بڑا ظرف ہوتا ہے ،مولانا کے والد صاحب مفتی محمود رحمتہ اللہ علیہ نے ختم نبوت تحریک میں سارے فکری نظریاتی اختلافات ظرف کی پوٹلی میں بند کرکے ان سیاسی مخالفین سے بھی ملے ان سے بھی درخواستیں کیں ،سمجھایا بجھایا جن سے چھتیس کا آنکڑہ رہتا تھا،مولانا نورانی رحمتہ اللہ علیہ کٹر بریلوی تھے پان اور مسلک پر سمجھوتہ ممکن نہ تھا لیکن جب افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا تو بنا کسی اطلاع کے اکوڑہ خٹک پہنچ گئے اور مولاناسمیع الحق سے کہا ہر طرح سے حاضر ہوں بتاؤ کیا کرنا ہے ۔۔۔عمران خان کی طرز سیاست پراتنے سوالات ہوسکتے ہیںکہ گنتے گنتے سانس پھول جائے،ان کے یوٹرن پر تو کوئی بھی ہدائت کار تین گھنٹے کی بنا وقفے کے فلم بنا سکتا ہے لیکن قومی ایشوز پر ہمیں ڈراموں سے احتراز کرنا چاہئے،عمران خان نے اقوام عالم کو ایٹمی جنگ کی دھمکی نہیں دی صاف صاف بتایا ہے کہ دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے کھڑی ہو چکی ہیں دونوں کی آنکھیں ایک دوسرے کی آنکھوں میںاور ہاتھ تلواروں پر ہیں ،نیام کا بوجھ ہلکا ہوا ہی چاہتا ہے،اقوام عالم مداخلت کرے جیسے دارفور کے لئے کی، جیسے مشرقی تیمور کے لئے ان کی ہمدردیاں اُمڈ آئیںورنہ آنکھوں میں اتراخون سڑکوں اور گلیوں میں بہتا دکھائی دے گااور اس دنیا کا مستقبل خون تھوک رہا ہوگا۔