روئے سخن نہیں تو سخن کا جواز کیا بن تیرے زندگی کے نشیب و فراز کیا کتنی اداس شام ہے شام فراق یار جانے گا کوئی رنج ستم ہائے راز کیا ہائے ہائے اس اداسی میں، کس نوں ہال سناواں دل دا۔کوئی محرم راز نہ ملد۔میں نے غالب کی ایک غزل سازو آواز کے بغیر فریحہ پرویز سے سنی تو مطالب اور بھی جاگ پڑے۔گویا میں تو معنی و مراد کی طرف یکسو ہو گیا۔آپ یقین مانتے ہیں کہ ایسے ہی لگا کہ یہ غزل کورونا کے ماحول اور حکمرانوں کے رویوں کے حوالے سے ہے۔واقعتاً سچا ادب اور شاعری ہر زمانے کے لئے ہوتی ہے۔ایک ایک شعر میرے ماحول و حالات کی تصویر کشی کرتا ہوا۔ کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی آپ محسوس نہیں کرتے کیا؟ایک غیر یقینی صورت حال ہے، آپ فون بھی سنیں تو کورونا کا انتباہ۔آپ کسی بھی رنگ ٹون سے محروم کر دیے گئے۔محفلیں اجڑ گئیں ،میل جول بند، اک رسم رہ گئی تھی یہ ملنا ملانا بھی، اس رسم کو وبا نے نبھانے نہیں دیا۔ معانقہ کرتے ہوئے دل دھڑکتا ہے ،لوگوں کو زندگی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور غریب بے چارہ تو پس گیا ہے کہ صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا ۔فریحہ پرویز نے تیسرا شعر پڑھا۔ آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی اور چوتھا شعر تو حکمرانوں کی بے نیازی پر ہے۔ ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں آتی مقطع بھی کمال ہے کعبے کس منہ سے جائو گے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی یادش بخیر۔ایک یاد آپ سے شیئر کرتا ہوں کہ جب فریحہ پرویز نے میری غزل’یونہی لفظوں کی رائیگانی کیا ،ہے محبت تو پھر چھپانی کیا‘ کا ایک شعر یوں گایا تھا ’سوچتی ہوں کہ اس کے جانے سے، ختم ہو جائے گی کہانی کیا‘ تومیں نے احتجاج کیا کہ غزل تو مذکرکی ہے۔فریحہ نے مسکراتے ہوئے آداب کہہ دیا اور بات ختم ہو گئی۔پروڈیوسر بھی ایسی تبدیلیاں فرماتے تھے۔خیر یہ تو برسبیل تذکرہ بات تھی۔یاد آیا کہ جب سی پی یو (سنٹرل پروڈکشن یونٹ)ریڈیو سے آغاز ہوا تو کسی پروڈیوسر نے میڈم نور جہاں سے کہا اب آپ اتنے سٹیشنوں سے بیک وقت گائیںگی۔ میڈم نے کہا، پھر تو میں بہت مشہور ہو جائوں گی۔ آپ خود ہی بتائیے کہ ایک ادبی فضا بنا کر سیاست یا حالات حاضرہ کی بات کرنا ریشم میں ٹاٹ کا پیوند ہی تو ہے، مگر کیا کریں جب سردیوں کے آغاز سے پہلے ہی انڈے 190روپے درجن ہو جائیں ۔ اس میں مگر تاجروں کا قصور ہے کہ بہتی گنگا میں وہ بھی ہاتھ دھو رہے ہیں۔کل میں مسور کی دال لینے گیا تو پتہ چلا کہ دو تین روز میں 30روپے مزید مہنگی ہو گئی۔یک دم کہاوت یاد آ گئی کہ’ یہ منہ اورمسور کی دال، اس کہاوت کا پس منظر بڑا ہی دلچسپ ہے کہ ایک بادشاہ کے پاس ایک باورچی آیا اور اس کی سپیشلائزیشن مسور کی دال تھی۔بادشاہ نے حکم دیا کہ مسور کی دال بنائی جائے۔وہ باورچی تین دن تک دال پکاتا رہا ،بادشاہ غصے میں آ گیا اور دال سمیت باورچی کو تو باورچی نے پکتی ہوئی دال ایک سوکھے ہوئے درخت کی جڑوں میں ڈال دی اور کہا کہ بادشاہ سے کہنا’ یہ منہ اور مسور کی دا‘ل مختصر یہ کہ چند دنوں بعد سوکھادرخت ہرا ہو گیا۔بادشاہ نے ہرکارے بھیجے کہ باورچی کو ڈھونڈ کر لائیں مگر کہاں صاحب!ہمارے بھی درخت ہی ہرے ہو رہے ہیں: اس نے کہا کہ زندگی پھولوں کی سیج کس طرح میں نے کہا کہ اے حسیں پھول سے لب ہلا کہ یوں اس نے کہا بتائو تو لگتے زخم کس طرح میں نے کہا اے جان من تھوڑا سامسکرا کہ یوں یہ کالم کچھ علامتی سا بنتا جا رہا ہے۔ان دنوں علامتوں ہی میں خیر ہے۔ ہمیںکچھ بلاول کے بارے میں بات کرنا تھی کہ وہ بڑے اعتماد سے جیالوں کو خوش خبریاں سنا رہے ہیں اور ان کا تکیہ چوہدری برادران پر ہے، ویسے چوہدریوں کا ڈیرہ بھی کسی تکیے سے کم نہیں،ایسے ہی ایک شعر یاوری کو آ گیا: گھٹا تو کھل کے برسی تھی مگر موسم نہ بدلا تھا یہ ایسا راز تھا جس پر مری آنکھوں کا پردہ تھا ویسے صورت حال بڑی دلچسپ ہے کہ پی ٹی آئی اگلا الیکشن جیتنے کا مصمم ارادہ رکھتی ہے۔وہ بہت سنجیدگی سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں بھی لے آئے ہیں اور وہ الیکشن کمیشن کو بھی راہ راست پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔خاص طور پر شبلی فراز تو تلے بیٹھے ہیں کہ مشینوں کا شفاف استعمال انہوں نے کرنا ہے۔ اعتراضات چلتے رہیں گے دوسری طرف دوسرا بڑا پہلوان ابھی پوری طرح ردعمل نہیں دے رہا۔اگرچہ حالیہ کنٹونمنٹ بورڈز کے الیکشن میں پی ٹی آئی کی کامیابی ہوئی ہے مگر دوسرے نمبر پر آنے والی ن لیگ نے لاہور میں اپنا ردعمل دیا ہے ۔یہی چیز پی ٹی آئی کو پریشان کرتی ہے ۔پی ٹی آئی کے پاس ایک طریقہ تو ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے لوگوں کو مہنگائی وغیرہ کے عذاب سے نکال لیں، اداروں کو فراڈ کرنے سے روک سکیں۔37دنوں کے بجلی بل اور ان پر یونٹ بڑھا کر لاگت یہ سرکاری لوٹ مار پہلے کبھی نہ تھی، موجودہ صورت حال کو جوں کا توں رکھتے ہوئے پی ٹی آئی جیت جائے تو یہ کرامت ہی ہو گی ۔ مذاق اپنی جگہ ،عوام کے لئے اب کچھ نہ کچھ ہونا چاہیے۔ شاخ دل پہ تیرا ٹھکانا ہے زندگی تیرے آشیاں کی خیر