یہ دوسری صدی ہجری کا ابتدائی زمانہ تھااور عرب معاشرے میںمسلمانوں کے بیچ مسلکی مناظرے ایک عام روایت تھی۔ ایک دن خارجیوں کی ایک جماعت امام ابوحنیفہ ؒ کے پاس آئی اور کہاکہ ’’ مسجد کے دروزے پر دو جنازے ہیں،پہلا جنازہ ایک ایسی عورت کاہے جو زنا سے حاملہ ہوئی تھی اور بالآخرشرم کے مارے خودکُشی کرکے مرگئی ۔جبکہ دوسرا جنازہ ایک مرد کا ہے ،جو شراب کا پکا عادی تھا اور شراب پیتے پیتے اس کی موت واقع ہوئی‘‘۔امام ؒ نے پوچھا کہ ان دونوں کا مذہب کیا تھا؟ کیا یہودی تھے یاعیسائی تھے ؟ خارجیوں کا جواب نفی میں تھا۔ امام ؒنے پوچھا ’’کیایہ مجوسی مذہب کے ماننے والے تھے ؟ خارجیوں نے پھر نفی میں جواب دیا۔ امامؒ نے پوچھا کہ بتاؤ، اس عورت اور مرد کا تعلق آخر کس مذہب سے تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس مذہب سے ان کا تعلق تھا جو کلمہ اسلام کی گواہی دیتا ہے ۔امام ؒ پوچھنے لگے ’’اچھا پھر یہ بھی تو بتادو کہہ کلمہ اسلام کی گواہی دینے والوں کااس مرد وعورت کا ایمان آپ کی نظر میں ایمان کا ایک بٹہ تین ہے، ایک بٹہ چار یا ایک بٹہ پانچ ؟ وہ بولنے لگے کہ ایمان کا تو تہائی اور چوتھائی نہیں ہوتا۔امام نے پھر پوچھا کہ جو کلمہ وہ پڑھتے تھے ، اسے آپ لوگ ایمان کا کتنا حصہ مانتے ہو؟ بولے ، ہم اسے پورا ایمان سمجھتے ہیں۔اس پرامام ؒ نے کہا کہ جب تم خود اس کلمے کی شہادت کو پورا ایمان تسلیم کرتے ہو تو پھر مجھ سے پوچھتے کیاہو؟ خارجی کاجواب تھا کہ ’’ نہیں ، بلکہ ہم تو صرف یہ پوچھنے آئے ہیں کہ وہ جنتی ہیں یا دوزخی ؟ امام ؒ نے کہا کہ ’’ میں ان لوگوں کے بارے میں فقط اتنا کہہ سکتاہوں جو اللہ کے نبی ابراہیم ؑ نے اس سے بدتر گناہگاروں کے بارے میں کہا تھا کہ ’’ اے اللہ جو میری پیروی کرے وہ میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو آپ غفور و رحیم ہے‘‘ (ابراہیم36)۔ اور جو اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ ؑ نے اس سے بھی زیادہ بڑے گناہگاروں کے بارے میں کہا تھا کہ ’’ اگر آپ انہیں عذاب دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں ، اور اگر آپ انہیں معاف فرما دیں تو آپ زبردست دانا ہیں ‘‘(المائدہ118)۔ تاریخ کی ایک مشہور کتاب میں یہ واقعہ پڑھ کر میں بہت دیر تک سوچتارہا کہ اسلام جتنا اپنے ماننے والوں سے عمل کا تقاضا کرتاہے اتنا ہی یہ سمجھنے کا بھی متقاضی ہے ۔ خارجی بھی مسلمان تھے اور اسی اللہ، اسکے رسولؐ اور کتاب پر یقین رکھتے تھے جس پر امام ابوحنیفہ ؒ کا ایمان تھا۔امام ؒ کی طرح خوارج بھی نماز پڑھتے ، روزہ رکھتے ، زکوٰۃ اداکرتے اور حج پرجاتے تھے ،علیٰ ھٰذاالقیاس۔فرق ان کے درمیان صرف یہ تھا کہ امام ابوحنیفہ ؒ دین پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو سمجھ بھی بیٹھے تھے لیکن خارجیوں کا معاملہ اس سے سراسرمختلف تھا۔مثال کے طور پرامام ؒ ابوحنیفہ کے ہاں ایک مومن بندہ اس وقت تک ایمان سے خارج نہیں ہوسکتا جب تک وہ اس چیز کا انکار نہ کرے جس کے اقرار نے اسے ایمان میں داخل کیاہے ۔لیکن خارجی ایک عام مسلمان گناہگار بندے کو بھی کافر تصور کرتے تھے بلکہ اُن میں سے ازارقہ فرقے کے لوگ تو اپنے سوا تمام مسلمانوں کو مشرک سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ خوارج کواپنے سواکسی کی اذان پرنماز کیلئے جاناجائزنہیں ۔امام ابوحنیفہ ؒ نے اپنی مشہور کتاب ’’الفقہ الاکبر‘‘ میں صریح الفاظ میں فرماچکے ہیں کہ ’’ ہم کسی مسلمان کو اس وقت تک کافر قرار نہیں دے سکتے اگرچہ وہ کتنے بڑے گناہ کا ارتکاب نہ کرے جب تک وہ اس کے حلال ہونے کا قائل نہ ہوــ‘‘۔دیکھا جائے تواکیسویں صدی کے اس علمی دور میں رہنے کے باوجودبھی ہمارا معاشرہ دین فہمی کے معاملے میں بحران کا شکار ہے ۔ ہم نے دین کو تو یہاں تک سمجھا ہے کہ پیغمبر اسلام ؐ کی شان ِ اقدس میں گستاخی کرنے والا واجب القتل ہے لیکن بدقسمتی سے اس اپروچ سے ہم عاری ہیں کہ گستاخی کرنے والے کو سزادینا ہر کَس وناکس کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ہم کچھ لوگوںکی جھوٹی گواہی کی بنیاد پر دوسرے مسلمان کو مار ڈالتے ہیں۔ہمارے ہاں کالجوںکے اندر پروفیسرخالد حمید جیسے لوگوں کو صرف اس بنیاد پر چھریاں مار کر قتل کیا جاتاہے کہ وہ اس کالج میں فن فیئرکیوںکرواناچاہتے تھے ؟