مشکل پڑی تو یار ہمارے بدل گئے لیکن یہ سخت جان اگر سنبھل گئے وارفتگئی شوق طلاطم نہیں گئی آنکھوں میں غم جو آئے تو اشکوں میں ڈھل گئے یہ المیہ ہے کہ ریگ روان دشت تھا حرص و ہوس کا شہر۔ہم بھی اسی فریب میں حد سے نکل گئے۔ میں نے قلم روک لیا کہ بات ذرا مشکل ہو جائے گی۔ پہلے کچھ ہلکی پھلکی باتیں ہو جائیں کہ ایک دو دلچسپ خبریں سامنے آ گئیں۔ پہلی خبر ہمارے پیارے کرکٹر مصباح الحق کے حوالے سے ہے کہ وہ فوج میں جانا چاہتے تھے لیکن قسمت میں کرکٹ لکھی تھی۔ پہلے تو اپنے دوست علی ظہیر منہاس کا شعر ذھن میں آیا کہ کی محبت تو سیاست کا چلن چھوڑ دیا ہم اگر پیار نہ کرتے تو حکومت کرتے۔ اشارہ تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ مصباح اگر فوج میں جاتے تو حکومت کا چانس تھا کرکٹ میں بھی تو انہوں نے پیدا کیا۔ ایک حوالہ ان کے ساتھ جڑ گیا کہ ایک ورلڈ کپ میں ان کی ٹک ٹک انہیں بابائے ٹک ٹک بنا گئی۔ یہ انسان کے کمزور لمحے ہوتے ہیں کہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا۔ کرکٹ سے محبت کرنے والوں کو یاد ہو گا کہ مصباح نے بعد میں چھکے بھی مارے مگر یہ وہ مکے تھے جو جنگ کہ بعد یاد آئے۔ دوسری خبر چاچا کرکٹ کے حوالے سے ساتھ ہی نظر آئی کہ چاچا کرکٹ کو قدرت نے اکی تماشائی کرکٹ کے طور پر بھی شہرت اور عزت سے نوازا۔انہوں نے اس شہرت کو گنبد خضریٰ کا فیض بتایا۔واقعتاً ہم بھی انہیں دیکھتے تھے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے لئے نعرے لگانے وہ ہر جگہ پہنچ جاتے اور دوسرے سپورٹرز کے ساتھ مل کر وہ نعرے لگاتے رفتہ رفتہ ان کی اپنی ایک پہچان بن گئی وہ پاکستان کے لئے خیر سگالی کے سفیر بنے ۔ چاچا کرکٹ ایک مخلص اور معصوم کردار ہیں اور وہ ایک محب وطن پاکستانی ہیں پتہ نہیں مجھے شعیب بن عزیز کا شعر کیوں یاد آگیا: دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب میں تیرے فقیروں میں ‘ میں ترے غلاموں میں چلیئے ایک اور خبر ان دونوں خبروں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے کہ کرن جوہر نے ابرار الحق کو نج پنجابن نچ کا کریڈٹ دے دیا۔ کہتے ہیں کہ ابرار الحق نے انہیں عدالت جانے کی دھمکی دی تھی انہوں نے ڈر کر ابرار کا نام پوسٹر پر لکھ دیا۔ویسے تو اب ابرار کچھ بدل سے گئے ہیں۔ ایک تقریب میں ملاقات ہوئی تو ان سے نعت بھی سنی اور گپ شپ ہوئی انہوں نے کچھ عرصہ قبل میری غزل بھی گائی تھی موسم تیرے آون نال موسم تیرے جاون نال بندہ کلا رہ جاندا بہتے یار بناون نال۔ مگر نچ پنجابن نچ کے کریڈٹ سے تو پھر دھیان موجودہ واقعات کی طرف چلا گیا کہ جہاں ٹچ کا تذکرہ چل رہا ہے حمزہشہباز نے تو باقاعدہ اس اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر عمران خان نے انتشار پھیلانے کی کوشش کی تو انہیں جیل کا ٹچ دیں گے۔ ویسے یہ ٹچ والا جملہ سوری صاحب نے کہا تھا ۔مجھے ایک اور مشہور فقرہ یاد آ گیا بچ موڑ توں بچ اس میں ایک قافیہ سچ کا بھی ہے یہ وہی سچ ہے جس کے بارے میں پروین شاکر نے کہا تھا میں دو شعروں کے دو مصرعے اکٹھے لکھ رہا ہوں: بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی آپ نے دیکھا کہ اس طرح بھی ایک نئی بات پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح ایک مرتبہ خالد احمد نے غالب کے دو مختلف مصرعے ایک جگہ لکھے تو لطف آ گیا: نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں یقین مانیے مجھے اپنی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی لگتی ہے کہ ہمارے رہنما ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں۔ زمینی حقائق اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم اپنی اپنی انائوں میں سب کچھ دائو پر لگا دیں۔ جب تک ملک میں امن اور سکون نہیں آئے گا حالات ٹھیک نہیں ہونگے۔ یکسوئی ضروری ہے مگر یہاں تو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کب کچھ ہو جائے۔ حکومت کو تنے ہوئے رسے پر چلنا پڑ رہا ہے اور اس کے سر پر اوپر نیچے دو گھڑے بھی دھرے ہیں۔آپ نے یہ منظر دیکھا تو ہو گا۔ یقینا کچھ مناظر عجیب تو لگتے ہیں کہ راجہ ریاض سے نیب کے چیئرمین کے لئے مشورہ کیا جا رہا ہے مزید یہ بات کہ راجہ صاحب فرماتے ہیں کہ بھاگے تو عمران خاں ہیں وہ تو اپوزیشن میں ڈٹ کر کھڑے ہیں۔اب اس پر کوئی کیا کہے قسمت کے کھیل میں یہ انتخاب بھی تو خان صاحب کا تھا۔ بات ساری اخلاقیات کی ہے اور بس دوبارہ آتے دلچسپ خبروں کی طرف سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ اچھی لگی کہ کسی نے مہنگائی کا حل بتایا کہ نوجوان خان صاحب سے شرٹوں پر آٹو گراف لے لیں مگر شرٹ کروڑوں میں بکی تو اتنے پیسوں سے زر کثیر کا مسئلہ پیدا نہ ہو جائے اس بات سے مجھے منیر نیازی کا شاندار جملہ یاد آ گیا وہ اصغر ندیم سید کے ساتھ اپنے ایک کیس کی پیروی کر رہے تھے کہنے لگے ندیم اگر مجھے اپنے سارے ڈوبے ہوئے پیسے مل گئے تو کیا میں افراط زر کا شکار تو نہیں ہو جائوں گا۔ کچھ پوسٹیں حالات حاضر کا بھی پتہ دیتی ہیں ڈاکٹر اصغر یزدانی لکھتے ہیں کہ اکثر ممالک میں خاص طور پر یورپ میں لوگ ایک دوسرے کو دھمکی دیتے ہیں کہ میں تمہیں کورٹ میں ملوں گا پاکستانی اکثر یوں کہتے ہیں کہ میں تمہیں روز قیامت پوچھوں گا۔ دیکھیے ناں ہمارا روز قیامت پر کس قدر پختہ ایمان ہے۔ اب آخری بات فاطمہ قمر کی کہ انہوں نے لکھا ہے کہ الحمد للہ قومی اسمبلی کی کارروائی قومی زبان میں شروع ،انشاء اللہ اردو کا نفاذ پاکستان کے ہر شعبہ زندگی میں ضرور ہو گا۔ اگر ایک بیورو کریسی راہ راست پر آ جائے تو سب کچھ درست ہو جائے اردو دفتروں میں آ جائے تواردو سٹیٹس سمبل بن جائے اور تعلیم کی بنیاد اردو سے اٹھائی جائے ایک پیارا سا شعر داغ دہلوی کا: اب ذرا تفصیل سے اے قاصد خوش رو بتا اس نے پہلے کیا کہا پھر کیا کہا‘ پھر کیا کہا