کسی کی نیند اڑی اور کسی کے خواب گئے سفینے سارے اچانک ہی زیر آب گئے ہمیں زمیں کی کشش نے کچھ اس طرح کھینچا ہمارے ہاتھ سے مہتاب و آفتاب گئے ٹائٹینک نے Titanicکے ڈوبنے کا منظر تو آپ سب نے دیکھا ہو گا۔وہ اگرچہ فلم ہے پھر بھی ہولناکی دیکھی نہیں جاتی۔ میں آپ کو اداس نہیں کرنا چاہتا۔اخبار تو مجھے پڑھنا پڑتا ہے اور کافی کچھ دیکھنا ہوتا ہے کہ اگر آپ پڑھ کر کالم نہیں لکھتے تو آپ کو بھی کوئی نہیں پڑھتا۔زیادہ پڑھ پڑھ کر آنکھیں تھک جاتی ہیں۔ آنکھوں کے سامنے دھند سی آنے لگی ہے شاید آنکھیں عینک کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ یہ نظر تو بہت بری شے ہے کیوں میں ہر اک نظر میں رہتا ہوں تو سب سے پہلے اپنے خان صاحب سے معذرت کہ میں نے عمران خان کو بحران خان پڑھ لیا۔ویسے ان کے ہوتے ہوئے قیادت کا بحران تو ہے کہ بقول ان کے ترجمانوں کے خان صاحب کے سوا اب کوئی آپشن ہی نہیں۔گویا کہ قحط الرجال ہے نعم البدل مفقود۔ان جیسا مدیر‘ مفکر‘ مقرر اور مصور اب تک کوئی نہیں آیا۔ مصور میں نے غلط نہیں لکھا۔ ان کی تصویر کشی کمال کی ہے ہمارے ایک دوست شوکت شریف تو کہتے ہیں کہ خواب دکھانے کے لئے بھی وژن چاہیے ۔خان صاحب کا وژن بھٹو سے بھی زیادہ ہے۔ یہ سب جو یہ کہتے ہیں کہ آج فیئر الیکشن ہو جائیں تو ن لیگ سویپ کر جائے گی دوسری طرف فیاض چوہان کی دانش یہ کہتی ہے کہ عوام اپوزیشن کو احتجاج سے پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔ خوش گمانی بھی کیا شے ہے: خوش خیالی نے بھی کیا معجزہ سامانی کی اب ہمیں کاغذی پھولوں سے بھی خوشبو آئے حالات حاضرہ پر تبصرہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ حکومت کے سامنے آئینہ کی صورت ہوتے ہیں۔ عمران خان صاحب فرما رہے ہیں کہ دیکھتے ہیں اب مہنگائی مافیا کیا کرتا ہے۔ گویا کہ جو کچھ کرنا ہے وہ تو شیر نے کرنا ہے۔ اس بیان کی تفہیم شاید اور طرح بھی ہو سکتی ہے کہ کرلے جو کچھ مافیا نے کرنا ہے آخر تو وہ تھک ہی جائیں گے کوئی تو سیر حاصل نقطہ آئے گا۔ یہ درست ہے کہ وہ اپنی ساری حکومتی مشینری اور سارے وسائل اس جن کو قابو کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں مگر یہ جن بے قابو اور مشتعل کیوں ہوا؟سوچنے کی بات ہے جناب جب آپ بجلی کے نرخ بڑھاتے جائیں گے اور گیس مہنگی کریں گے تو یہ جن بپھر جائے گا۔ پٹرول مہنگا ہو بجلی یا گیس تو اس کے اثرات ہر شے پر پڑتے ہیں یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔سادہ سی بات ہے آٹا چینی کی نارسائی کا باعث آپ خود ہوئے کہ گندم پہلے آپ کے لوگوں نے افغانستان پہنچائی اور وہی گندم براستہ روس واپس آ گئی ظاہر ہے اس میں اس کو پر تو لگنا تھے۔ رپورٹ پیش کر کے آپ بچے بن گئے اب توجہ ہٹانے کے لئے آپ لوگ افواہیں پھیلا رہے ہیں کہ جہانگیر ترین نواز شریف کی ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ جہاں حکمرانی ہو لوٹ کی جہاں ترجمانی ہو جھوٹ کی جہاں بات کرنا محال ہو وہاں آگہی بھی عذاب ہے دیکھا جائے تو اپوزیشن بھی خان صاحب کی مدد کر رہی ہے۔ گوجرانوالہ کا جلسہ اس وقت لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے پکڑ دکڑ شروع ،کارنر میٹنگز نہیں ہونے دی جارہیں۔ بینر پھاڑے جا رہے ہیں ابھی تک حکومت کی طرف سے جلسہ کی اجازت نہیں ملی اور اپوزیشن کی طرف سے دھمکی لگا دی گئی ہے کہ پھر وہ جی ٹی روڈ بلاک کر دیں گے ۔ایک بات سوچنے کی ہے کہ اگر حکومت کو کورونا کا واقعی خیال تھا کہ دوسری لہر نہ آ جائے تو پھر بلا امتیاز جلسے جلوسوں پر پابندی لگا دیتی۔ پی ٹی آئی نے خود لیاقت باغ میں جلسہ کیا جس پر ریحانہ کنول نے پوسٹ لگائی کہ ایس او پیز کے باعث سوشل ڈیٹنس رکھتے ہوئے دو بندوں کے درمیان چھ چھ خالی کرسیوں کا فاصلہ رکھا گیا تفنن طبع ایک طرف مگر قانون سب کے لئے ایک جیسا ہونا چاہیے ویسے سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت ان کے پہلے جلسے پر کیوں اس قدر بوکھلا گئی ہے۔ایس ایچ اوز اور دوسرے افسران تبدیل کئے جا رہے ہیں۔ اصل میں پی ٹی آئی کے پاس کوئی گرائونڈ نہیں جس پر سٹینڈ لے کر وہ کوئی فخر کر سکیں۔ ابھی کل شہباز شریف کی پیشی تھی تو لاہور میں ایسے لگتا تھا جیسے سب کچھ رک گیاٖجو بھی ملا برا بھلا کہتا ہی ملا کہ بعض جگہ تو موٹر سائیکل گزارنے کی بھی جگہ نہ تھی: کھل چکی ہیں اس کے گھر کی کھڑکیاں میری طرف رخ میری جانب رہے گا بے رخی جیسی بھی ہے مسئلہ یہ ہے کہ اس شور شرابے میں عوام کہاں کھڑے ہیں عوام تو ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کو تو جیسے تیسے گھر چلانا ہے جو چلتا نظر نہیں آ رہا۔ ایک صورت تو محمد عباس مرزا نے اپنے ایک پنجابی بیت میں واضح کی ہے: اکھاں میٹ کے نیویں پاکے بیٹھے آں کدے تے جُڑیاں ہتھاں ول اوہ ویکھے گا یعنی ہم تو مجرموں کی طرح نظر نیچی کر کے ظالم سے رحم کی توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ہمارے جوڑے ہوئے معافی مانگتے ہاتھوں کی طرف نظر کرے گا۔ویسے بندھے ہوئے ہاتھ تو ظالم کو ظلم کا عادی بنا دیتے ہیں۔ سیاستدان کے سینے میں تو ویسے ہی دل نہیں ہوتا بلکہ آنکھ میں حیا بھی نہیں ہوتی۔ ڈرنا اس وقت سے چاہیے کہ کہیں بندھے ہوئے ہاتھ کھل نہ جائیں حکومت ہوش کے ناخن لے ٹائیگروں کی بجائے بندوں کو آگے لائے اور کام کر کے دکھائے۔ جو بھی ہے ن لیگ نے تو مقابل آنے کے لئے کمر کس لی ہے مگر شہباز شریف کی کمر کا مسئلہ دیرینہ ہے اور ان کے بقول عمران خاں کے حکم پر ان کی خصوصی کرسی نیب نے اٹھوا دی ہے، اوپر سے 7یوم کا مزید جسمانی ریمانڈ بھی ہے موسم میں خنکی آ رہی ہے مگر سیاست میں گرمی۔ رانا ثناء اللہ اپنی جگہ سچے ہیں کہ اگر ن لیگ کچھ نہیں تو پھر حکومت کو کیوں کچھ ہو رہا ہے۔تاہم کچھ نہ کچھ ضرور ہو رہا ہے۔چلیے ایک شعر کے ساتھ اجازت: لب پر ہے انکار کسی کے اور ہے دل میں خواہش بھی ان کی آنکھوں میں دیکھو تو دھوپ بھی ہے اور بارش بھی