جب تلک اک تشنگی باقی رہے گی تیرے اندر دلکشی باقی رہے گی ہو کوئی برباد اس سے تجھ کو کیا ہے تیرے رخ پر سادگی باقی رہے گی تشنگی تو ختم ہو چکی۔ یعنی لوگ نکو نک ہو چکے۔ ہمارا علاج بھی یہی تھا۔ خیر فی الحال تو طوفانی بارشوں کا زور ہے ۔کراچی جسے ہم حسن بے شمار لکھتے تھے ،بھی جل تھل ہو گیا۔ بلوچستان میں بھی پانی دندناتا پھرتا ہے۔ جانی نقصان کا دکھ ہے۔ شہزاد احمد یاد آ گئے: میں کہ خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کر کانپ اٹھا ہوں گلی کوچوں میں پانی دیکھ کر ہم اس حوالے سے آج تک کوئی منصوبہ بندی نہ کر سکے پہلا آمر تو تین دریا ہی بیچ گیا۔ پھر پانی سٹور کرنے کے لئے بھی کسی نے کچھ نہیں کیا ۔ زیادہ بارشوں کو استعمال کیا جا سکتا تھا۔ پرویز مشرف کے وقت میں کالا باغ ڈیم بنا جاتے کیا ہی اچھا ہوتا۔ مگر سب کو اپنے اقتدار میں طوالت چاہیے تھی۔ کبھی میں نے پانی کے مسئلے پر ایک نظم کہی تھی۔ دو مصرعے ذہن میں آ گیا: نہیں ہیں امن کی آشا سے زخم سلنے کا بغیر جنگ کے پانی نہیں ہے ملنے کا مجھے نہیں معلوم کہ بات کدھر سے نکل جاتی ہے کہ جیسے غالب نے کہا تھا کہ ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے۔ اک شمع تھی دلیل سحر سو خموش ہے‘ کیا کریں ہماری یادیں بڑی تلخ ہیں۔ بھارت ہمارے دریائوں پر ڈیم پر ڈیم بناتا گیا اور ہمارا مضحکہ اڑاتا رہا کہ انہیں تو پانی کی ضرورت ہی نہیں۔ہمارے حکمران کھاتے رہے مودی کو مہمان بلاتے رہے اور کوئی انہیں یعنی بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے لئے دبلا ہوتا رہا اور تو اور نہلے پہ دہلا یوں کہ مودی کے دوبارہ جیتنے کو کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لئے خوش آئند سمجھا گیا اور پھر گفتار کے غازی مثالی تقریر اور سب کچھ خالی۔ اب ریگستان کی بات ہو رہی ہے کیا شک ہے کہ دشمن جب چاہے ہمیں پانی کو ترسا دے اور جب چاہیے ڈبو دے۔ ہم تو کلبھوشن کو پکڑ کر پھنس گئے۔ بہرحال بقول فراز’’سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا‘ بلکہ طارق چغتائی کے بقول: یہ زخم پرانے ہیں یہ تاثیر پرانی ورثے میں ملی درد کی زنجیر پرانی جو بھی ہے اس زنجیر کو آخر ٹوٹنا تو ہے۔ جتنی دیر کریں گے یہ زنجیر اور زیادہ تنگ ہوتی جائے گی۔ کشمیر کا مسئلہ بھی تو اسی سے جڑا ہوا ہے کہ ہمارے دریا بھی تو ادھر سے آتے ہیں۔ پانی میں تو زندگی ہے اسی باعث یہ ہماری شہ رگ بنتی ہے۔ہمیں خود کو ذہنی طور پر اب تیار کرنا ہو گا۔ ٹھیک ہے شجرکاری کو سب اچھا سمجھتے ہیں۔ آپ اس عمل کو جہاد کہہ لیں مگر اصل جہاد بھی ضروری ہے۔پرویز مشرف بھی امریکہ کے کہنے پر جہاد کبیرکی بات کرتے تھے اور لوگوں کو پرفارمنگ آرٹس کے ساتھ روشن خیالی کا سبق پڑھاتے رہے۔ وہ کروڑ گھر اور پچاس لاکھ نوکریاں !شیر آیا شیر والا اعتبار بن جائے تو لطف نہیں آتا۔ یہ پناہ گاہیں اور طعام خانے سب فرار کی ایک صورت ہے۔ تبھی کسی نے سوشل میڈیا پر لگایا کہ حکومت آپ کے گھر کو باقاعدہ ایک اچھی پناہ گاہ میں بدل دے گی۔ویسے یہ بھی پوسٹ لگانے والے کی خوش فہمی ہے تو ادھر ادھر کی نہ بات کر ‘ یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا‘لوگوں کو خیرات اور امداد پر نہ لگائیں۔ پہلے ہی ملک بھکاریوں سے بھر گیا ہے۔ ساری خودداری مر جاتی ہے۔ فیصل عجمی کا شعر یاد آ گیا: پھر یوں ہوا کہ ہاتھ سے کشکول گر گیا خیرات لے کے مجھ سے چلا تک نہیں گیا بات وہ کریں جس میں کوئی منطق اور سچائی ہو۔ کریڈٹ لینا بھی سیکھنا چاہیے اب کورونا کی وبا ختم ہوئی ہے تو اس میں اپنی عقل و دانش کا رول ثابت کرناچلیں آپ کا حق ہے۔ خدا کے لئے اپنا مذاق نہ بنائیں۔ یہ تو بس اللہ نے کرم کیا کہ وبا نہیں پھیلی۔ ویسے بھی وبا سے زیادہ میڈیا کا پھیلایا ہوا خوف تھا۔ جو رفتہ رفتہ دور ہونا ہی تھا۔ ہاں اس برے وقت میں جماعت اسلامی‘ الخدمت اور ایسی ہی تنظیموں نے جو کام کیا ان کو سلیوٹ اور ان ڈاکٹرز کو سلام جنہوں نے دلیری سے بغیر پی پی ایز کے مریضوں کی مسحائی کی۔ آپ کے پہلو میں بیٹھے توآٹا اور چینی سے دولت کما رہے تھے۔ وہ آپ کی ٹائیگر فورس جس نے غالباً سلیمانی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں کہ کسی کو نظر نہ آئی۔ ہائے ہائے… جھوٹ بولا تو عمر بھر بولا تم نے اس میں بھی ضابطہ رکھا جناب لوگ الحمد للہ آنکھیں رکھتے ہیں اور ذہن بھی ،جس روز آپ ڈلیور کریں گے عوام بڑھ کر آپ کے قدم چوم لیں گے آپ کے ساتھ کھڑے ہونگے لوگ آپ کی سادگی کے ٹریلر پر بھی مرمٹے تھے مگر خوش فہمیاں جھاگ ثابت ہوئیں وہی آپ کے وزیروں مشیروں کی فوج اور وہی ان کے پروٹوکول شکر ہے آج ایک خبر پشاور کی بی آر ٹی کے حوالے سے پڑھی ہے کہ شروع ہو گئی ہے یا ہو رہی ہے جس کا ٹکٹ بلاول کو بھیج رہے ہیں کہ وہ مہمان بنیں اور پشاور میں آ کر سفر کریں۔ ویسے ہے لطف کی بات کہ پختون خواہ والے اپنا مقابلہ سندھ سے کر رہے ہیں انہیں مقابلہ شہباز شریف سے کرنا چاہیے۔ شہباز شریف کا نعم البدل آپ نے عثمان بزدار کی صورت پنجاب کو دیا۔ ہائے کہاں رام ریاض یاد آیا: پتھر کی طرح تونے مرا سوگ منایا دامن نہ کیا چاک کبھی بال نہ کھولے ہم تو یہ سب کچھ لکھتے رہیں گے آپ کو بھی یہ سب کچھ پڑھنا پڑے گا۔ اس پر آخر میں مرزا نوشہ کا شعر اور اجازت: وہ اپنی خو نہ بدلیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں سبک سربن کے کیا پوچھیں کہ تم ہم سے سرگراں کیوں ہو