اسلام آباد (خبرنگار خصوصی، 92 نیوز رپورٹ) صدرمسلم لیگ ق چودھری شجاعت حسین نے مولانا فضل الرحمن کے اسلام آباد دھرنے کے حوالے سے اہم انکشافات سے پردہ اٹھا دیا، چودھری شجاعت حسین نے کہا مولانا فضل الرحمن جب دھرنے کیلئے اسلام آباد آئے تو اس وقت بھی کچھ لوگ دھرنے پر دھاوا بولنے کے حامی تھے لیکن عمران خان سے جا کر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھا، سب ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے آپ بات کریں ، پرویزالٰہی حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے باضابطہ ممبر نہیں تھے لیکن ان سے کہا گیا کہ آپ عمران خان سے بات کریں، چودھری پرویزالٰہی نے عمران خان سے ملاقات میں مشورہ دیا کہ اگر مار کٹائی شروع ہوگئی اور کوئی آدمی مر گیا توالزام لینے پر کوئی تیار نہیں ہو گا ، آپ کو ہر چیز کا جواب دینا پڑے گا جس پر فیصلہ موخر کر دیا گیا، حالات کے مطابق میری اور چودھری پرویزالٰہی کی باہمی سوچ پر عمل کرتے ہوئے معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہوا، عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا اس وقت حالات کیا ہوں گے جب پولیس ایک طرف کھڑی ہو اور دوسری طرف مدارس کے طلبہ مولانا کے آرڈر کا انتظار کر رہے ہوں، مولانا فضل الرحمن نے ان حالات میں بڑی دور اندیشی کا ثبوت دیا ، ہماری حکمت عملی سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا مولوی صاحبان اور پولیس چند قدموں پر کھڑے تھے لیکن لڑائی نہیں ہوئی اور ایک گلاس تک نہیں ٹوٹا۔ انہوں نے کہا سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے ملیحہ لودھی کو بغاوت کے کیس گرفتار کرنے کا کہا ، اس پر میں نے اختلاف کرتے ہوئے کہا اس اقدام سے صحافی برادری اور انٹرنیشنل کمیونٹی میں اچھا تاثر نہیں جائے گا، بحث ابھی جاری تھی کچھ لوگ اس کے حق میں اور کچھ لوگ مخالفت میں تھے ، اسی دوران نماز کا ٹائم ہوگیا، میاں صاحب نے کہا کہ نماز کے بعد بات کرتے ہیں، نماز کے بعد میں نے دیکھا کہ جو لوگ گرفتاری کے حق میں تھے ، ان میں سے اکثر جا چکے تھے ، میں نے اپنے ایک دو حمایتیوں کے ساتھ مل کر میاں صاحب سے کہا کہ ملیحہ لودھی کی گرفتاری کی صورت میں نتائج اچھے نہیں ہوں گے ۔ چودھری شجاعت حسین نے کہا کہ ہم سب کو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور واقعات سے اپنی اصلاح کرنی چاہئے ، میں عمران خان سے کہوں گا کہ مسائل کو باہمی مشاورت سے حل کرنے کی کوشش کریں جو مجھے امید ہے کہ حل ہو جائیں گے کیونکہ اپنے ملک کے بحران کو سب چیزیں بھول کر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔