پچھلے چھ مہینوں میں یہ میرا تیسرا کالم ہے جو شدید کرب کے عالم میں لکھ رہا ہوں ۔ تین روز پہلے علی الصبح کچلاک ژوب شاہراہN-50 نے پھر سے رونگھٹے کھڑے کرنے والے ایک المناک حادثے کا مژدہ سنایا ۔ بیک وقت تیرہ انسانی جانوں کو پل بھر میں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والا یہ حادثہ مسلم باغ کے قریب کان مہترزئی کے مقام پر پیش آیا - ایرانی پٹرول سے لدی پک اپ گاڑی مخالف سمت سے آنے والی مسافر بردار کوچ سے ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں دونوں گاڑیاں آگ کی لپیٹ میں آگئیں ۔ان مسافروں میں خوش قسمت بس صرف وہی ایک کنڈکٹر تھاجس نے حادثے کے دوران بس کی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی - سوشل میڈیا پر جاں بحق مسافروں کی جھلسی ہوئی لاشوں کی وائرل ویڈیوز اور تصاویر دیکھ کر مجھ سمیت ہر ذی احساس انسان کا دل فگار اور کلیجہ غم سے پھٹ رہا ہے ۔موت یقیناً برحق ہے اور اس دنیا سے ہر ذی روح نے کوچ کرنا ہے لیکن حتی الامکان زندگی بچانے کی تدبیراپنانا بھی انسان کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ اولاًتو ہر انسان کا یہ فرض ہے کہ اپنی قیمتی زندگی کے بچاؤ میں حد درجہ حساس اور محتاط رہے ۔ بر وقت اپنا علاج کروانے کے لئے ہسپتال کا رخ کرے اور سفرکرتے وقت ایسی گاڑی میں جانے سے گریز کرے جسے حادثہ پیش آنے کا قوی احتمال موجود ہو ،وغیرہ وغیرہ ۔ثانیاً کسی ملک میںانسانی زندگی کی حفاظت کی ذمہ دار ریاست ہوتی ہے جس کی رعایانے خودکو اس کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے ۔ لیکن بدقسمتی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اور سچی بات یہ ہے کہ ہماری بدقسمتی کی کوئی حد نہیںنہیں ہے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت کے زیر انتظام شاہراہوں میں کچلاک کوئٹہ تاژوب اور پھر ڈی آئی خانN50 کا بھی شمار ہوتاہے۔ یہ شاہراہ جہاں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کو کچلاک،مسلم باغ،ضلع قلعہ سیف اللہ اور ضلع ژوب سے ملاتی ہے تو دوسری طرف یہ خیبر پختونخوا کے ساتھ ساتھ دارالحکومت اسلام آباد کو بھی جاتی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں، مال بردار لاریاں،آئل ٹینکر ز اور ٹریکٹر ٹرالیاں روزانہ کی بنیاد پر اس شاہراہ کو استعمال کرتی ہیں لیکن صوبائی حکومت نہ تو اس شاہراہ کو دو رویہ بنانے کا ارادہ رکھتی ہے نہ ہی ابھی تک اسے موٹر وے پولیس کے حوالے کیا ہے۔ ہم بارہاکہہ چکے ہیں کہ کچلاک تا ژوب شاہراہ پر نہ تھمنے والے حادثات کی پہلی وجہ یہ ہے کہ شاہراہ یَک رویہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ جب تک یہ ون وے رہے گی تب تک خاکم بدہن یہاں کے لوگ اپنے پیاروں کے جنازے اٹھاتے رہیں گے۔ حال ہی میں بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے اس شاہراہ کو دو رویہ بنانے کی قرار پیش ہوئی تھی لیکن نقارخانے میں طوطی کی آواز کو کون سنتا ہے؟ دوسرا المیہ یہ ہے کہ اس اہم شاہراہ کو اتنے زیادہ حادثات پیش ہونے کے باوجود موٹر وے پولیس کے حوالے نہیں کیا جارہا۔ستم ظریفی دیکھیے کہ بائیس دسمبر دو ہزار چودہ کو اس شاہراہN-50 کیلئے موٹروے حکام نے پیٹرولنگ کے لئے چھ گاڑیاں خریدی تھی لیکن پانچ سال کے دوران کسی کویہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ گاڑیاں کون لے گیا اور کہاں استعمال ہورہی ہیں کیونکہ اس شاہراہ پر کسی کومذکورہ گاڑیاں نظرنہیں آئیں ۔موٹروے پولیس ہی کی عدم تعیناتی تو بنیادی وجہ ہے کہ مذکورہ شاہراہ پرنیم تجربہ کار اور اناڑی ڈرائیوراور لائسنس یافتہ ڈرائیورز کے بیچ اب کوئی امتیازباقی نہیں رہا۔ اس قبیل کے ڈرائیور حضرات جب سواریوں کو سینکڑوں کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پہنچانے کی کوشش کرتے ہی تو پھراس کا انجام بھی خون ریزحادثات ہی کی صورت میں نکلتاہے۔ رات کے وقت اس شاہراہ پر آج کل اکثر حادثات یا تو سامنے سے آنے والی گاڑیوں پرلگی ہوئی تیزترین فالتو بتیوں کی وجہ سے ہوتے ہیں یا پھر پیچھے سے انڈیکیٹر نہ رکھنے والی ٹریکٹر ٹرالیاں ان حادثات کاسبب بنتی ہیں۔روڈ سیفٹی کی حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق اس ملک کی بڑی شاہراہوں پرموٹر وے پولیس کی کچھ نہ کچھ چیک اینڈبیلنس نظام اور انتباہات کی برکت سے حادثات میں قدرے کمی آئی ہے لیکن صوبائی حکومتوں(خصوصاًبلوچستان) جیسے صوبوں کی شاہراہوں پر ہونے والے حادثات کی شرح اُسی طرح برقرارہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس مدہوش حکومت کو کب ہوش آئے گی کہN50 بھی پاکستان ہی کے ایک صوبے کی اہم ترین شاہراہ ہے؟خدا جانے کب غافل حکام کویہ احساس ہوگا کہ اس شاہراہ پرروزانہ ہزاروں کی تعدادمیںگاڑیوں کا ایک سمندر محوسفر ہوتا ہے؟ کوئی تو ہمیں یہ بھی توبتادے کہ کوئٹہ، ژوب،قلعہ سیف اللہ اور شیرانی کے لوگوں سے آخر وہ کونساگناہ سرزدہوا ہے کہ ان کو آئے روز اپنے پیاروں کے غیر طبعی موت کے جنازے تھمادیئے جاتے ہیں؟اللہ بھلا کرے ایڈوکیٹ جناب عبدالواحد کاکڑ اورجناب نقیب اللہ مندوخیل کا جنہوں نے ایسے المناک حادثات کے درد کو محسوس کرتے ہوئے نہ صرف گزشتہ دنوں ایک احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کیااورسوشل میڈیاپراس بارے میں مہم چلائی بلکہ بلوچستان ہائی کورٹ میں بھی اس شاہراہ پرنہ تھمنے والے حادثات کے حوالے ایک پیٹیشن دائر کردی جس پر چیف جسٹس نے متعلقہ حکام کو فوری طور پر نوٹسز جاری کرکے انہیں پیشی کیلئے بلالیاہے۔