زیادہ عقل بھی اکثر بھٹکا دیتی ہے، مگر بے عقلی تو پامال کرا کے چھوڑتی ہے۔ ایک اوپر اْٹھنے ہی نہیں دیتی اور دْوسری، اونچا اْڑا کر گراتی ہے۔ گِرا ہوا اَور کتنا گر سکتا ہے؟ چوٹ اس کو زیادہ لگتی ہے جو اونچائی سے گرتا ہے۔ ہر وہ عقل جو خلق ِخْدا، اور دراصل خْدا کا حق ادا نہ کرے، ذلیل ہی کرائے گی۔ خْدا کا خوف جسے ہو گا، وہ اس کی مخلوق کا بھی پاس کرے گا۔ یہاں اپنی ہی عقل کو خْدا سمجھے بے وقوفی، اسی کو کہتے ہیں لفظ ِبے وقوفی کا ایسا استعمال، اْردو لٹریچر میںکہیں نہ ہْوا ہو گا۔ یاد رہے کہ بے وقوف، متضاد ہے وقوف یا ٹھہرائو کا! کم عقلی کی جْڑواں بہن، کم نظری ہے۔ انسان آنکھیں کھول کر بھی نہیں کھولتا۔ کیوں نہ ہو؟ دنیا نے اْلجھایا ہی ایسے ڈھب سے ہے کہ دیکھنے سے زیادہ، آدمی اسے برتنے میں گْزر جاتا ہے۔ کچھ اس لیے بھی کہ خیال ِوسعت ِتحقیق، تا کجا اکبر کہ ہر نگاہ ہے محتاج، اک فسانے کی لیکن زندگی کا مطالبہ یہ تو نہیںکہ دیکھنے کی ہر شے کو انسان، ضرور دیکھے۔ وہ تقاضا کرتی ہے کہ نظر جہاں پڑے، پْوری پڑے، کوئی کور کسر اس میں نہ رہے۔ پھر عبرت کے سارے مضمون، خْود سمجھ میں آنے لگیں گے۔ غلط کہا ہے غالب نے کہ شاعری معنی آفرینی ہے، قافیہ پیمائی نہیں۔ اس لیے کہ شاعری معنی آفرینی بھی ہے اور قافیہ پیمائی بھی۔ گو ایک زیادہ، دوسری کم! یہ بات زندگی پر البتہ صادق آتی ہے۔ زندگی نام ہے معنی آفرینی کا۔ پر اکثر لوگوں کی ساری عْمر، یہاں قافیہ پیمائی میں گْزر جاتی ہے! یہ شاخسانہ ہے نظر کی نارسائی کا۔ نظر کا رسا ہونا یا نا رسا رہ جانا، موقوف ہے عقل کی راست جْوئی پر۔ مولانا رْومی نے کہا تھا کہ صْورت ِظاہر، فنا گردد، بِدان! عالم ِمعنٰی، بماند جاودان نظر اگر تنگ نہیں ہو گی، تو ممکن نہیں کہ عبرت سرا کے سوا، دنیا کچھ اور دکھائی دے۔ پھر دِل خود بخود دنیا سے ہٹ کر، دنیا کے پیدا کرنے والے کی طرف کھنچ جائے گا۔ آخری حساب میں انسان، اگر برابر سرابر بھی چھْوٹ جائے تو غنیمت ہے۔ مگر افسوس کہ آدمی سودا کرتا ہے نفع کے بجاے نقصان کا! اقبال نے نار ِجہنم کی نسبت، غالباً، داروغہ ء جہنم کی زبان سے کہا ہے۔ اہل ِدنیا، یہاں جو آتے ہیں اپنے انگار، ساتھ لاتے ہیں پچھلے کالم میں سابق امریکن صدر ایف ڈی آر کا ذکر ہوا تھا۔ کیا خْوب اور بھلے آدمی تھے۔ تدبر اور دْور بینی، ان پر ختم تھے۔ جن دنوں سوویت یونین کے حق میں ایک لفظ بھی بولنا، جْرم کے برابر تھا، انہوں نے اس مْلک کو باقاعدہ تسلیم کیا۔ دل کی بات سات پردوں میں رکھتے تھے۔ اسی سلسلے میں ایک چلا ہوا لطیفہ سْنیے۔ ایف ڈی آر اپنی بیگم اَیلینَور کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک وزیر کمرے میں داخل ہوا اور کسی متنازعہ مسئلے پر اپنے دلائل دینے لگا۔ صدر یہ سْن کر، بے ساختہ بولے کہ بخْدا! تم ٹھیک کہتے ہو۔ وزیر صاحب شاداں و فرحاں رخصت ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد، ایک دوسرے وزیر درآمد ہوئے۔ انہوں نے بھی اسی متنازعہ معاملے میں اپنا موقف پیش کرنا شروع کیا۔ ان کی بات سْن کر بھی، ایف ڈی آر پْکار اٹھے کہ بخْدا! تم بالکل ٹھیک کہتے ہو! یہ وزیر بھی بشاش، ہنسی خوشی چَل نکلے۔ اَیلینَور، جو اب تک خاموش بیٹھی تھیں، بولیں کہ ایف ڈی آر! یہ تم نے کیا کِیا؟ ان دونوں میں، درست موقف تو ایک ہی کا ہو سکتا ہے۔ اس پر ایف ڈی آر نے ترنت کہا کہ بخْدا! تم بھی صحیح کہتی ہو! ایف ڈی آر کا دور، فلاح و بہبود کا دور تھا۔ ڈالر کو سونے کے معیار سے علیحدہ کرنے اور ٹرومین کو نائب صدر منتخب کرانے کے سوا، شاید ہی کوئی بڑا بْرا اقدام انہوں نے کیا ہو۔ جب یہ صدر منتخب ہوئے ہیں تو مْلک بدترین حالات سے گْزر رہا تھا۔ یہ دور تھا "گریٹ ڈپریشن" یعنی امریکی تاریخ کا بدترین معاشی دور۔ ان دنوں وائٹ ہائوس کے باہر ، پہلی جنگ ِعظیم میں لڑنے والے، دسیوں ہزار فوجی ڈھئی دیے بیٹھے تھے۔ ان سے پچھلے صدر، ہربرٹ ہْوور نے اس احتجاجی گروہ کا استقبال، بندوقوں کی سنگینوں سے کیا تھا۔ مطالبہ ان فوجیوں کا یہ تھا کہ اس کڑے وقت میں، ہماری خدمات کا معاوضہ، جو پندرہ سال بعد ملنا ہے، جلد از جلد ادا کیا جائے۔ ہْوور کوشاں رہے کہ یہ بلاے بے درماں، وائٹ ہائوس سے کسی طور ٹَل جائے۔ لیکن ان کو نہ جانا تھا نہ گئے۔ ایف ڈی آر نے صدر بن کر، فوجیوں کو فوجیوں سے پِٹوانے کے بجائے، اپنی بیگم کو ان کے پاس بھیج دیا۔ اَیلینَور ان ناراض خانہ بدوش فوجیوں کو دونوں وقت گرم سْوپ فراہم کرنے لگیں۔ اور پھر یہ فوجی احتجاجی کیمپ سمیٹ کر واپس چلے گئے۔ اپنے نائب صدر ہنری والس کا انتخاب، ایف ڈی آر نے پوری اسٹیبلشمینٹ سے ٹکر لے کر کیا تھا۔ ہنری والس جیسی بصارت اور بصیرت رکھنے والا بھی کم ہی ہوا ہو گا۔ ان کا پتّہ اسٹیبلشمینٹ نے کِس طرح کاٹا، اس کا ذکر پھر کبھی، لیکن اتنا کہنا ضروری ہے کہ ایف ڈی آر کے بعد، اگر والس صدر منتخب ہو جاتے تو جاپان پر ایٹم بم نہ گرائے جاتے اور دنیا کا نقشہ آج کچھ اَور ہوتا۔ وال اسٹریٹ اور بینکار، ان دونوں سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کرانا چاہی۔ معروف فوجی جنرل سمیڈلی بٹلر کو ان بینکروں نے بغاوت کی قیادت سنبھالنے پر اْبھارنا چاہا تھا۔ یہ اْلٹا ایف ڈی آر کے پاس چلے آئے۔ بٹلر نے جو اعترافات کیے، وہ آج بھی چشم کْشا ہیں۔۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں تیس پینتیس سال آرمی میں رہا ہوں۔ یہ ملازمت، دراصل بینکروں، تیل کی کمپنیوں اور کیپٹل ازم کی نوکری تھی۔ ان کے لیے میں نے کراے کے غنڈے کی طرح، جنوبی امریکا کے مْلکوں کو تباہ و برباد کر دیا۔ اب جو پلٹ کر دیکھتا ہوں، تو کہہ سکتا ہوں کہ الکپون(اپنے وقت کا سب سے مشہور بدمعاش) کی بدمعاشی بھی میرے آگے گَرد تھی۔ اس کا حلقہ ایک شہر کے تین علاقوں تک محدود تھا۔ میرے تصرف میں تین بر ِاعظم آتے تھے! غرض بٹلر کا دِل خْدا نے ایسا پھیرا کہ انہیں بڑھانے والے، انہیں گرانے کی سازشیں کرنے لگے۔ ایف ڈی آر امریکی تاریخ کے واحد صدر ہیں جو چار مرتبہ منتخب ہوئے۔ ان کی کھاٹ بھی، وائٹ ہائوس ہی سے اٹھی۔ ان کے بعد، صرف کینیڈی ایسے صدر ہوئے ہیں، اسٹیبلشمینٹ کے خلاف جو کہِیں کہِیں ڈٹ گئے۔ ع مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی اور شاید ع فخر ہوتا ہے قبیلے کا فقط ایک ہی شخص