میاں نوازشریف کا دعویٰ ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورے کے دوران اقتصادی تعاون کے جو معاہدے اور ایم او یوزسائن ہوئے ہیں ان کی بنیاد انہوں نے اپنے دور وزرات عظمیٰ میں رکھی تھی۔مسلم لیگ ن نے یہ کریڈٹ لینے کی بھی کوشش کی ہے کہ تحریک انصاف کے برعکس جس کے 2014 ء کے دھرنے کے نتیجے میں چینی صدر پاکستان نہیں آ سکے تھے،اپوزیشن نے موجودہ معاہدوں میں کوئی رخنہ پیدا نہیں کیا حالانکہ 2014 ء اور آج کی اپوزیشن میں خاصا فرق ہے۔اس وقت تحریک انصاف نے اسلام آباد کے ڈی چوک کو 14 اگست سے 16 دسمبر تک بند رکھا تھا لیکن آج اگر اپوزیشن چاہتی بھی تو وہ اس قسم کی مہم جوئی کی پوزیشن میں نہیںتھی۔سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید نے سعودی ولی عہد کے دورے سے 92 نیوز چینل پر میرے پروگرام’ ہو کیا رہا ہے‘ میں انٹرویو میں انکشاف کیا کہ یمن کی یلغار میں پاکستانی فوج کو جھونکنے کے حوالے سے قرارداد میں بعض فقرے عمران خان کے اصرار پر ڈالے گئے تھے جس سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میاں نوازشریف سے ناراض ہو گئے لیکن بعدازاں غلط فہمیاں دور ہو گئیں۔لیکن زمینی حقائق قدرے مختلف ہیں، متحدہ عرب امارات تو پاکستان کی شکل دیکھنے کو تیار نہیں تھا اور اس وقت نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ امارات اور وہاں کے حکمرانوں سے ملاقاتوں کے نتیجے میں تجدید تعلقات ہوئی۔سعودی عرب سے بھی تعلقات میں سرد مہری آہستہ آہستہ کم ہوئی لیکن یہ ستم ظریفی ہے کہ سعودی عرب کو غالباً یہ گلہ ہے نوازشریف نے سعودی عرب کی یمن میں متنازعہ مہم جوئی کیلئے اسلامی فوجی اتحاد میں براہ راست شامل ہونے سے پارلیمانی قرارداد کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ان چہ مگوئیوں کے باوجود کہ اب شاید پاکستان دوبارہ اس جنگ میں ملوث ہو رہا ہے۔وزیراعظم عمران خان کا موقف واضح ہے کہ ہم پرائی جنگ میں پاکستانی فوج کو نہیں دھکیلیں گے اور اس ضمن میں سیاسی اور عسکری قیادت میں بظاہر مکمل اتفاق رائے موجود ہے۔امید ہے شہزادہ محمد بن سلمان کے دورے کے باوجود یہ صورتحال برقرار رہے گی۔ میاں نوازشریف نے تو بوجوہ اپنے دور اقتدار کے قریباً پہلے چار برس وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس ہی رکھا،اس کے پیچھے غالباً یہ حکمت عملی تھی کہ وہ اس محاذ پر عسکری قیادت کے ساتھ خود ڈیل کرینگے لیکن اس پالیسی کا کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکلا اور پاکستان دنیا بالخصوص خطے میں قریباً یکہ و تنہا نظر آنے لگا۔حالات کا پوری طرح ادراک کئے بغیر میاں نوازشریف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے جپھی ڈالنے کیلئے کچھ زیادہ ہی کوشاں ہو گئے تھے،وہ مودی کی وزارت عظمیٰ کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کیلئے مئی 2014 ء میں خود دہلی پہنچ گئے اور مودی نے آداب میزبانی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میاں صاحب سے میٹنگ میں ان کو بے نقط سنائیں۔نہ جانے میاں صاحب ہمیشہ یہ کیوں سمجھتے رہے ہیں کہ جپھی اور پپی سے کئی دہائیوں پرانے دو طرفہ گنجلک معاملات کو حل کیا جاسکتا ہے؟۔بعدازاں دسمبر 2015 ء میں ان کی نواسی اور مریم نواز کی صاحبزادی مہرالنسا کی شادی کے موقع پر سٹیل ٹائیکون سجن جندال کے ہمراہ مودی اچانک جاتی عمرہ وارد ہو گئے۔ میاں نوازشریف کی نیت پاکستان اور بھارت کے تعلقات اور دونوں ملکوں میں اقتصادی روابط بہتر بنانے کی ہی تھی لیکن ملک کے اندر سے مخصوص طبقوں نے ان کے خلاف اتنا منفی پراپیگنڈا کیا کہ انہیں سکیورٹی رسک قرار دیا جاتا رہا اور بالخصوص ’ڈان لیکس‘ کے بعد تو سیاسی اور عسکری قیادت کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے۔امریکہ تو مسلسل یہ گردان کر رہا تھا کہ پاکستان میں پناہ لئے ہوئے دہشت گرد گروپ افغانستان اور مقبوضہ کشمیر میں ریاست کی آشیرباد سے شورش پھیلا رہے ہیں۔افغانستان سے تعلقات اس حد تک خراب تھے کہ افغان صدر اشرف غنی پاکستان آتے ہی جی ایچ کیو میںآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ملاقات سے کرتے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت میں امریکہ تو ہمیں ویسے ہی گھاس ڈالنے کو تیار نہیں اس پر مستزاد یہ کہ خطے میں ایران سے تعلقات بھی سرد مہری کا شکار تھے۔ایران نے حال ہی میں خودکش حملے کے شکار 17 پاسداران انقلاب کی ہلاکت میں حکومت پاکستان کو براہ راست ملوث کرنے کی کوشش کی ہے۔لگتا ہے میاں نوازشریف بطور حکمران میکاولی کے پیروکارتھے۔ وزارت خارجہ میں بزرگوار سرتاج عزیز خارجہ امور پر ان کے مشیر تھے جبکہ طارق فاطمی خصوصی معاون ،یہ دونوں شخصیات دفتر خارجہ میں بیٹھ کر کوئی ماہرانہ رائے دینے کے بجائے ایک دوسرے کو نچلا دکھانے کی کوشش کرتی رہتی تھیں۔وزیراعظم عمران خان کے دور میں صورتحال بدرجہا بہتر ہے۔شاہ محمود قریشی جو پہلے بھی آصف زرداری کے دور میں وزیر خارجہ رہ چکے ہیں اب اس وزارت کے تقاضوں کو بخوبی نبھا رہے ہیں۔یقیناً میاں نوازشریف کے دور کے مقابلے میں اب بین الاقوامی اور علاقائی حالات میں کچھ مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔اسی طرح ’ڈان لیکس‘کے پس منظر میں میاں نوازشریف اور فوجی قیادت کے درمیان دوریاں پوری طرح عیاں تھیںاور مقتدر حلقوںمیں ان کی ساکھ بہت کم ہو کر رہ گئی تھی لیکن اب صورتحال خاصی مختلف ہے۔فوج اور سیاسی قیادت کے درمیان تال میل مثالی ہے، اسی بنا پر افغانستان کی سترہ سالہ حالیہ جنگ کے خاتمے کیلئے پاکستان، امریکہ اور افغان طالبان کے مذاکرات کروا رہا ہے جس کا پہلا دور جو خاصا کامیاب رہا قطر میں ہوا تھا اور دوسرا دوراب ہونے والا ہے۔ یہ کہنا کہ امریکہ سے تجدید تعلقات ہوگئی ہے مبنی برحقائق نہیں ہو گا لیکن مذاکرات کے حوالے سے پاکستان کے حالیہ مثبت کردار کی بنا پر کچھ نہ کچھ برف ضرور پگھلی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر خود کش حملے میں 47 بھارتی نیم فوجی دستوں کی ہلاکت کا ملبہ پاکستان پر گرایا گیا ہے،یہ خودکش حملہ گزشتہ تیس برسوں میں بھارتی فورسز پر سب سے بڑا حملہ ہے۔اس کی پاداش میں بھارت نے پاکستان کا پسندیدہ ترین ملک کا سٹیٹس ختم کر دیا ہے۔تاہم مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے کہا ہے کہ ہمیں ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی۔دوسری طرف عین اس موقع پر جب سعودی ولی عہد پاکستان آنے والے تھے برصغیر پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ مودی کے سامنے دو راستے ہیں،یا تو وہ مدبر ہونے کا ثبوت دیں یا بھارتی عام انتخابات میں سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے جنگی جنون کو مزید ہوا دیں۔ لیکن امکان غالب ہے کہ بھارتیہ جنتہ پارٹی کے انتہا پسند مودی موخرالذکر راستہ اختیار کرینگے جس سے صورتحال مزید کشیدہ ہو سکتی ہے۔شاہ محمود قریشی نے اس حوالے سے معلومات کا تبادلہ کرنے کی پیشکش کی ہے لیکن بھارت اس سے گریزاں ہے کیونکہ اگرچہ خود کش حملہ آور کا تعلق جیش محمد سے تھا لیکن اس کا تعلق تو مقبوضہ کشمیر سے ہی تھا اور دھماکہ خیز مواد بھی مقامی طور پر حاصل کیا گیا تھا۔جیش محمد ایسی تنظیم ہے جس کا تعلق پاکستان سے جوڑا جاتا ہے اس کے سربراہ مولانا مسعود اظہر وہی شخص ہیں جنہیں بھارت کی قید سے انڈین ائیر ویز کا طیارہ اغوا کر کے رہا کرایا گیا تھا۔امریکہ اور بھارت کے مطابق مولانا مسعود اظہر پاکستان میں ہی چھپے بیٹھے ہیں۔امریکہ نے بھارت کی پشت پناہی کرتے ہوئے اس حوالے سے پاکستان کو ملوث کرتے ہوئے اسے کلین چٹ دے دی ہے کہ وہ جو بھی کارروائی کرنا چاہے اس کا مجاز ہے۔یقیناً پاکستان کو اس الزام کے جواب میں ایسی تنظیموں کی مزید بیخ کنی کرنا ہو گی تاکہ دشمن اس قسم کا الزام نہ لگا سکے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے،اس بارے میں بھی وزیراعظم عمران خان کا رویہ خاصا مثبت رہا ہے کہ ہم بھارت میں عام انتخابات کے بعد نئی دہلی سے تجدید مذاکرات کرینگے لیکن اب انتخابات کے بعد بھی اس کے امکانات معدوم لگتے ہیں۔یقیناً ہمیں دوست ممالک سے امداد لینے میں کامیابی ملی ہے لیکن اب ہماری اقتصادیات خارجہ حکمت عملی اور سکیورٹی معاملات سے جڑی ہوئی ہے۔خطے میں باہمی تجارت اور راہداری کے نظام اور رابطوں کے بغیر اقتصادیات کو ٹھیک کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔امریکہ سے ہمارے تعلقات باہمی مفادات پر مبنی ہیں،وہ افغانستان سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے پاکستان کے تعاون کا متمنی ہے لیکن وہ دور لد چکا جب ہم فوجی آمروں کے ادوار میں امریکہ سے مال اینٹھ کر اس کے سٹریٹجک حلیف بنے ہوئے تھے۔میاں نوازشریف کے دور میں باسٹھ ارب ڈالر پر مشتمل ’سی پیک‘ منصوبہ کو بجا طور پر اہمیت دی گئی جو یقیناً پاکستان کی بڑی کامیابی تھی لیکن موجودہ حکومت چین کیساتھ ’سی پیک‘ معاہدے کو بنظر غائر دیکھ رہی ہے کہ کیا اس کے ذریعے چڑھنے والے قرضے ہم ادا بھی کر پائیں گے یا نہیں؟۔ اسی بنا پر چین ہو یا روس ،بھارت ہو یا ایران،جب تک باہمی تجارت جو سب کے مفاد میں ہو کے راستے نہیں کھولیں گے پاکستان کی اقتصادی کسمپرسی جوں کی توں رہے گی۔ان معاملات میں کلیدی کردار فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا ہو گا جو ان معاملات کی بنیادی حقیقتوں کا بھرپور ادراک رکھتے ہیں۔