یہ پاکستان تحریک انصاف کی تبدیلی کی بات نہیں بلکہ بر صغیر پاک و ہند میں بسنے والے مسلمانوں کے دینی قائدین کاقصہ ہے۔ دو سو سال سے مسلمان جس قسم کی تقسیم کا شکار ہوئے ہیں اس میں کمی آنے کے بجائے ہمیں نئی صورتوں میں تقسیم در تقسیم کا سامنا ہے۔ علامہ اقبال ؒنے انیسویں صدی میں کہا: فرقہ بندی ہے کہیںاور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں اکیسویں صدی میں قدم رکھے ہوئے ہمیں دو دہائیاں ہونے والی ہیں لیکن اس حوالے سے کچھ بھی نہیں بدلا بلکہ صورتحال مزید گھمبیر ہو گئی ہے۔ اس موضوع پرعلامہ اقبالؒ نے مسلسل لکھا اور اسقدر نا امید ہوئے کہ ، دین ملا فی سبیل اللہ فساد، جیسی حتمی بات کہہ دی۔گزشتہ چالیس سال سے ہم جس قسم کی فرقہ وارانہ کشمکش کا شکار ہیں اس کی ہم بہت بڑی قیمت ادا کر رہے ہیں اور خدا جانے یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا۔ میری نظر سے حال ہی میںایک برطانوی جج جسٹس ھیڈن کیو کا فیصلہ گزرا جورواں سال مارچ میں ایک اٹھارہ سالہ عراقی نژاد احمد حسن کے مقدمے میں سنایا گیا۔احمد حسن مسلمان ہے اور برطانیہ میں پناہ گزین کی حیثیت سے آیا تھا۔ اس نے ستمبر2017ء میں مغربی لندن میں مسافروں سے بھری ٹیوب ٹرین پارسن گرین سٹیشن کے پاس چار سو گرام دھماکہ خیز مواد سے اڑانے کی کوشش کی لیکن خدا کو شاید مسافروں کی زندگی مقصود تھی یہ دھماکہ نہ ہو سکا۔ دھماکہ خیز ڈیوائس میں آگ تو لگی لیکن پھٹ نہ سکی۔احمد حسن نے اگرچہ اسکو ایک تجرباتی کوشش قرار دیا اور کہا کہ اس کا دھماکے کا اردہ نہیں تھا اور نہ ہی وہ دہشت گرد ہے بلکہ ایک گھریلو تجربے کی بنیاد پراس کو یقین تھا کہ یہ ڈیوائس نہیں پھٹے گی۔ لیکن تمام شہادتوں سے ثابت ہوا کہ وہ آئی ایس ایس کا تربیت یافتہ تھا اور اسکا مقصد معصوم لوگوںکو اڑانا تھا۔ جسٹس ھیڈن نے اور جیوری نے احمد حسن کو 34 سال قید کی سزا سنائی۔ جج نے فیصلے کے آخر میں اس نوجوان کے لئے ایک نصیحت لکھی جو من و عن یہاں نقل کر رہا ہوں: آخر میںاحمدحسن میں آپ کو یہ کہنا چاہتا ہوں آنے والے وقت میں آپ کو جیل میں قرآن کریم کے مطالعے کا بہت وقت ملے گا۔آپ کو سمجھنا چاہئیے کہ قرآن امن کی کتاب ہے، اسلام امن کا دین ہے۔قرآن اور اسلام ہر قسم کی انتہا پسندی بشمول دین میں انتہا پسندی کو سختی سے منع کرتا ہے۔اسلام کسی بھی ملک کا قانون توڑنے سے منع کرتا ہے جہاں پر بھلے آپ مہمان کے طور پر ٹھہرے ہوئے ہوں، اسلام دہشت گردی سے روکتا ہے۔قرآن اور سنت رسولؐ کے مطابق زمین پر فساد پھیلانے کے لئے کوئی کام کرناایک گھنائونا جرم ہے۔ پس آپ کو برطانیہ کے رائج قانون کے تحت سخت ترین سزا دی جاتی ہے۔ آپ نے قرآن اور اسلامی تعلیمات کی نفی کے ساتھ ساتھ ایک مہذب معاشرے کے لوگوں کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔امید ہے تمہیں ایک دن اس کا ادراک ہو جائے گا۔ احمد حسن جج کی اس بات پر کتنا عمل کرتا ہے لیکن ایک بات جو جج نے بہت اچھے طریقے سے بیان کی ہے کہ اگر آپ قرآن کریم کا مطالعہ کریںگے تو پھر تشدد، قانون کو ہاتھ میں لینے، لوگوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی کے حوالے سے بے حسی نہیں دکھائیں گے۔ دوسری اہم بات جو جج ھیڈن نے بیان کی ہے وہ دنیا کا جانا مانا قانون ہے کہ آپ بھلے کسی بھی ملک میں ہوں ، مستقل رہائش پزیر ہوں یا مہمان کے طور پر رہ رہے ہوں آپ پررائج الوقت قانون کا احترام لازم ہے۔ دنیا میں کہیں بھی قانون سے لا علمی کو جواز نہیں مانا جاتا۔ اگر آپ نے کسی بھی قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو آپ کو نتائج بھگتنا ہوں گے۔یہی چیز مہذب دنیا کو دوسرے ملکوں سے ممتاز کرتی ہے۔ ہمارے ہاں پنجابی کی مثال ہے: ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا یہ مثال دنیا میں بھی مانی جاتی ہے۔ انسانی جبلت کے حوالے سے یہ ضروری ہے کہ اسے قابو میں رکھا جائے تاکہ اسکے اندر تشدد کا عنصر غالب نہ آنے پائے۔ ترقی یافتہ دنیا نے قانون سازی کا اسلوب اپنایا اور وہاں قانون ڈنڈے سے بھی تگڑا ہے۔قانون کی عملداری نے مہذب معاشروں کی تخلیق میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان معاشروں میں عمومی طور پر قانون کو ہاتھ میں لینے کا تصور ہی نہیں پایا جاتا اگر کوئی اکا دکا شخص ایسی جسارت کرے تو وہ کتنا بھی با اثر ہو اسکو نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ ہمارے ہاں قرآن کریم کے مطالعے کی بات ہو تو تلاوت کی حد تک ہم بہت خشو ع و خضوع کا اظہار کرتے ہیں لیکن سمجھنے کے حوالے سے ہم میں سے زیادہ تر لوگ مطالعے کے شوقین نہیں۔دوسری اہم بات ملک کا قانون ہے۔ کسی بھی ملک کے قانون کی خلاف ورزی قابل تعزیر ہے لیکن ہمارے تو آئین میں درج ہے کہ کوئی قانون قرآن اور سنتؐ کے خلاف نہیں بن سکتا تو یہ بات اور بھی زیادہ اہم ہو جاتی ہے کہ کسی قانون کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔جھوم جھوم کر ممبر سے سیاست کے شوقین اپنی مذہبی سیاست کی دلیل علامہ اقبالؒ کے اس مصرعے سے نکالتے ہیں: جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی لیکن جب ریاست کے قانون کی بات آتی ہے تو انکی دین کی تشریح اپنے مفاد کے تابع ہوتی ہے۔اس وقت دین اور ملک کا قانون الگ الگ ہو جاتے ہیں۔پھر آپ لاکھ کہیں کہ violance کا اختیار صرف ریاست کا ہے کوئی بات ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔آئین پر امن احتجاج کا حق دیتا ہے لیکن ایسے احتجاج کی کوئی گنجائش نہیں جو لوگوں کی زندگی اجیرن کر دے اور انکی جان و مال کو نقصان پہنچائے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں کسی نہ کسی بہانے سے افراتفری پھیلانے والے عناصر کے خلاف اپنی رٹ قائم کرے۔ ملک کی عدالتیں موجود ہیں جس کو بھی کسی حوالے سے تحفظات ہیں وہ ہر سطح پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔