کھلاڑی ہو کہ بیوپاری،تجربہ کار ہو کہ اناڑی، کچھ بھی نہیں بدلا۔ نہ سیاسی منظر نامے پر نہ ملکی سوچ کے حوالے سے ،سب کچھ وہی ہے جو گزشتہ ستر سال سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ ہر دفعہ انتخابات میں دھاندلی ہوتی ہے۔ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کا گھوڑا جیتنے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ جب میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے تو جنرل حمید گل اور انکے ساتھی انہیں فخر سے ’’اپنے ہاتھ کا نشان‘‘ قرار دیتے تھے۔این آر او کر کے پیپلز پارٹی کو اگر حکومت لینے کا طعنہ دیا جاتا ہے تو میاں نواز شریف کی 2013 ء کی حکومت کو بھی اسی ڈیل کے تسلسل کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو عسکری قیادت اور سیاستدانوں کے درمیان 2007 ء میں طے پائی تھی۔ عمران خان اگرچہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار کو مک مکا کا دورانیہ قرار دیتے ہیں لیکن اس وقت بھی دھرنا اور احتجاج ہوا۔ جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کرائی گئی۔ اس کے لئے پہلے ایک خاص ماحول پیدا کیا گیا جس میں پنجاب سے شریف حکومت کی معطلی (وقتی طور پر) ہوئی۔ جو بظاہر پیپلز پارٹی کے ظلم و ستم کا شکار بنی لیکن مسلم لیگ (ن) بہت جلد اس ظلم کو بھول گئی۔ گورنر راج کا نفاذ اسکی ٹائمنگ اور چیف جسٹس کی بحالی کے فوراً بعد شریف حکومت کی عدالت کے حکم پر بحالی محض اتفاقات ہی ہو سکتے ہیں، اور ایسے اتفاقات کے حوالے سے بھی کچھ نہیں بدلا۔یہ اتفاقات اب بھی ہو رہے ہیں انکی ٹائمنگ بھی کمال کی ہے جیسے کے ستر سال سے ہو رہا ہے۔عمران خان نے خود ملکی تاریخ کا طویل ترین دھرنا دیا۔ اسکے مقاصد جو بھی تھے لیکن ملک کو سیاسی طور پر نقصان ہوا۔ اگر آرمی پبلک سکول والا دلخراش سانحہ نہ ہو تا تو یہ دھرنا بہت زیادہ نقصان کر سکتا تھا۔ ملک میں مارشل لائوں کے قیام کے حوالے سے بھی تاریخ اتفاقات سے بھری پڑی ہے۔ ایوب خان حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں تودو سال کے اندر ہی امریکہ کو ہماری ضرورت پڑ جاتی ہے اور ہم ایک اچھے دوست ہونے کا ثبوت دیتے ہیں، بڈبیر کو امریکیوںکو حوالے کرنا ہو تا ہے کہ وہ روس کی جاسوسی کر سکیں ۔SEATO اور پھرCENTO کا حصہ بنیں اور "America's most allied ally in Asia" کا ایوارڈ حاصل کریں۔جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے نفاذ کے ٹھیک دو سال بعد پھر اتفاقاً روس نے افغانستان میںفوجیں گھسا دیں اور ہم افغان جہاد کا حصہ بن گئے۔ امریکہ کی نظر میں ایک بار پھر معتبر ٹھہرے ، حالانکہ ہم 1971ء کی جنگ میں امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے کا انتظار کرتے کرتے بنگلہ دیش بنوا چکے تھے۔ خیر یہ مرحلہ بھی گزر گیا جیسے ہی جنرل مشرف نے حکومت پر قبضہ کیا، اتفاقاً اسکے بھی دو سال بعد نائن الیون ہو گیا اور ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی کی فرنٹ لائن سٹیٹ بن گئے اور ایسی جنگ لڑی کہ ہزاروں لاشیں اٹھانے کے باوجود ہم امریکہ کی نظر میں قا بل اعتبار نہ ٹھہرے۔کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن ہمارے ہاں بہت جلدی جلدی دہراتی ہے۔ اوپر بیان کی گئی تینوں مارشل لائی ادوار کی تاریخ تقریباً ایک جیسی ہے اور ان کے نتیجے میں جو سیاسی راہنما ہمیں نصیب ہوئے وہ بھی ایک اتفاق ہی ہے۔ایوب خان کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء کے دور میں نواز شریف۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ بھٹو کی جمہوری جدو جہد اور میاں صاحب کے نظریاتی ہو جانے کو میں کمتر کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ صرف تاریخی اتفاقات کی بات ہو رہی ہے۔ آپ سوچیں گے بلکہ کوسیں گے کہ عمران خان کا ذکر کیوں نہیں جیسے کہ آجکل ہو رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ہے۔عمران خان کے تعلقات کے حوالے سے بات کی جائے تو انکے فوج کے ساتھ اس وقت ویسے ہی ہیں جیسے ساٹھ کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے تھے یا پھر اسی کی دہائی میں میاں نواز شریف کے تھے۔لیکن سیاسی جدو جہد کے حوالے سے وہ مختلف ماضی رکھتے ہیں۔ پاکستان کے واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے بائیس سال کی سیاسی جدو جہد کے بعد اقتدار حاصل کیا۔میاں صاحب کو پلیٹ میں اقتدار ملا جبکہ ذو الفقار علی بھٹو پاکستان کے دو لخت ہونے کے سانحے کے نتیجے میں ایوب خان کی چھتر چھایہ سے نکلنے کے تین چار سال کے اندر ہی پہلے صدر پھر وزیر اعظم بن گئے۔ تاجروں کی بات شروع میں کی تھی، وہ بھی کسی کے قابو میں نہیں آ رہے۔ایوب خان کے دور میں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھرپور کارروائی ہوئی لیکن ملک سے ذخیرہ اندوزی ختم نہ ہو سکی۔ جنرل ضیاء کے دور میں تو صنعتکاروں اور تاجروں کے سر پر دست شفقت رکھا گیا کیونکہ وہ بھٹو صاحب کی قومیانے کی پالیسی کا شکار ہوئے تھے۔ اور پھر ان میں ایک ایسے کلچر کو فروغ دیا گیا جس میں رشوت دینا احسن ہوا لیکن ٹیکس دینا ایک گناہ عظیم۔ جنرل مشرف نے آتے ہی اس بارے میں فوجی جوانوں کو تعینات کر کے اکانومی کو دستاویزی شکل دینے کی کوشش کی لیکن بری طرح ناکام ہوئے اور یہ مافیا جنرل مشرف کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ اکانومی کو دستاویزی شکل دئیے بغیر بھی کاروبار حکومت چل سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے کبھی اسکو ملکی ضرورت ہی نہیں سمجھا اور آئی ایم ایف اور دوسرے بین الاقوامی مالی اداروں سے مدد لینے کے باوجود انہوں نے زبانی وعدوں پر کام چلا یا عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔عمران خان اس مشن میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں ابھی تک تو شناختی کارڈ کی شرط پر تاجروں کو توسیع دیتے چلے جا رہے ہیں۔ اسی طرح سے دھرنوں اور احتجاج کو روکنے کے حوالے سے بھی سب انتظامی اقدامات ویسے ہی ہیں جیسے انگریز کی حکمرانی میں ہوا کرتے تھے۔ راستے اور احتجاجی قائدین کو بند کرنے سے لیکر سب کچھ وہی ہے۔ اگر بدلی ہے تو ایک چیز، بیانئے کی تشہیر۔اسکا سہرا کسی حکومت اور اپوزیشن کے سر نہیں ہے بلکہ یہ سب الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا کمال ہے۔ایک طرف مولانا فضل الرحمٰن کا بیانیہ ہے تو دوسری طرف اسکا توڑ کرنے کی کوششیں۔ جس میں آئے دن کوئی نیا شوشہ یا ایشو حکومت کھڑا کرنے کی کوشش کر رہی ہے تا کہ ٹی وی سکرینیں اور سوشل میڈیا ان کی طرف مائل رہے اور مولانا کو کم سے کم جگہ ملے۔