ایف بی آر نے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے ٹیکسی ڈرائیوروں، درزیوں، ڈاکٹروں، انجینئروں، کلینک منیجروں، ٹرانسپورٹ منیجروںسے لے کر غلہ منڈی کے آڑھتیوں تک 16 شعبوں کے پروفیشنلز کا ڈیٹا جمع کرنے کے لئے سروے کا فیصلہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں دو بار بیرون ملک سفر کرنے والے افراد کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ایف بی آر پگڑی کو نہیں دیکھ رہی کہ کس کے لئے بنائی گئی بلکہ سر ڈھونڈ رہی ہے کہ جسے پوری آئے اسے پہنا دی جائے۔ ایف بی آر کی ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کی یہ عجیب و غریب منصوبہ بندی ہے جس سے اس کی جھنجلاہٹ ظاہر ہوتی ہے۔ ٹیکسی ڈرائیوروں، درزیوں خصوصاً غلہ منڈی کے آڑھتیوں کو ٹیکس نیٹ میں لینے سے ملکی خزانے میں کیا اضافہ ہو گا یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ آڑھتی بھی زرعی شعبے سے وابستہ ایک کردار ہے اور پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ زراعت اور اس کی پیداوار سے متعلق شعبوں سے وابستہ افراد کو خصوصی مراعات سے نوازا جائے۔ دوسری طرف روزگار کے مواقع بھی نہ ہوں، پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہ ہوتو لوگ کیا کریں گے۔ کچھ ٹیکسی چلائیں گے کچھ ان پر سفر کریں گے۔ اگر پڑھے لکھے شخص کو روزگار نہ ملے اور وہ ٹیکسی چلائے تو اس میں کیا قباحت ہے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ عام کی جائے، لوگوں کے روزگار کے منصوبے بنائے جائیں۔ کچھ دے کر لینا حکومت کا حق ہے۔ ٹیکس ضرور لینا چاہئے لیکن کچھ دیئے بغیر ٹیکس لینے سے مسائل کم نہیں ہوں گے بلکہ بڑھیں گے۔ لہٰذا ایسی منصوبہ بندیوں سے گریزہی بہتر ہو گا۔