ملاعبدالقادر بدایونی ہماری تاریخ کا ایک دلچسپ کردار ہیں۔ یہ دلچسپ کا لفظ میں نے اس باکمال علمی شخصیت کے بارے میں اس لیے استعمال کیا ہے کہ انہیں بڑے مشکل حالات میں اپنے ایمان اور دیانت کو سلامت رکھنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑی۔ یہ اکبر کازمانہ تھا۔ دین الٰہی کا زور تھا۔ ہر کسی کو اس شاہی دین پر ایمان لانے کے لیے کہا جاتا۔ جو نہ مانتا، وہ گویا ظل سبحانی کی دشمنی مول لیتا۔ ملا بدایونی کو جب اکبر کا یہ دین قبول کرنے کے لیے کہاگیا تو انہوں نے ایک ایسی بات کی جو تاریخ کے صفحات میں آج تک درج ہے۔ کہنے لگے، حضور والا، ہر دین کا ایک ابو جہل ہوتا ہے۔ مجھے آپ دین الٰہی کا ابوجہل سمجھ لیجئے۔ اب پتا چل گیا ہوگا کہ میں نے انہیں دلچسپ شخصیت کیوں قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے ان کی شہرہ آفاق تصنیف منتخب التواریخ کے بارے میں کسی نے بہت عمدہ تبصرہ کیا ہے جو مذکورہ بالا پس منظر میں آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ وہ یہ کہ ان کی یہ کتاب ایک چالاک وکیل استغاثہ کا بیان ہے، کسی غیر جانبدار منصف کا فیصلہ نہیں۔ کبھی کبھی ملک کے موجودہ حالات میں مجھے بھی یہ گمان ہوتا ہے کہ کہیں ہم بھی وکیل استغاثہ کا کردار تو ادا نہیں کر رہے۔ چالاک تو ہم کیا ہوں گے مگر جس طرح بن پڑتا ہے اپنی بات کہتے رہتے ہیں، اس میں کہیں اور کوئی شدت یا جھکائو آتا ہے تو اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے لیکن اتنا یاد رہے کہ میں نے وکیل استغاثہ کہا ہے، وکیل صفائی نہیں۔ دونوں صورتوں میں وہ فریق بدل جاتا ہے جس کا آپ مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں اس بات کو سمجھا جاسکتا ہے کہ میرا استغاثہ کس کے خلاف ہے۔ وکیل صفائی کے لہجے میں ہو سکتا ہے ایک معذرت خواہانہ رویہ ہو مگر وکیل استغاثہ کا طریق کار یہ نہیں ہوتا۔ آج حالات کچھ ایسے ہی ہیں کہ مجھے یہ مثال بڑی حسب حال اوردلچسپ معلوم ہو رہی ہے۔ ہمیں اب دین الٰہی کا ابوجہل سمجھ لیجئے۔ اسٹیبلشمنٹ کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور اس سے متفق نہ ہونے والوں کے اپنے مسائل۔ جو بات میں نے کہی، وہ ابھی لمبے عرصے تک تازہ رہے گی۔ اپنی مجبوریاں اور کوتاہیاں بھی بیان کردی ہیں۔ باقی آپ جانیں اور آنے والے دنوں کے حالات، ہم تو ٹھہرے ابوجہل۔ اس وقت جو کچھ ہورہا ہے، وہ بالکل سمجھ نہیں آرہا۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ نوازشریف کا استقبال کیسا ہوگا۔ کیا اب یہ سوال باقی رہا ہے۔ اگر نوازشریف کو اس کی چھوٹ دی جاتی تو کیا اس سے زیادہ ہلچل ہوتی جتنی ہماری نااہل انتظامیہ کی حرکتوں سے پیدا ہو گئی ہے۔ اصل میں یہ انتظامیہ ہمیں انگریز سے ورثے میں ملی ہے۔ ملک میں آمریت ہو یا جمہوریت یا کوئی نظام حکومت، یہ اسی نو آبادیاتی انداز میں کام کرتی رہتی ہے۔ ان میں بعض صاحب بصیرت لوگ حالات اور امن عامہ کو قابو رکھنے کی مہارت رکھتے تھے۔ بھلا نوازشریف اور کیا چاہتے ہوں گے جو آج ہو گیا ہے۔ بلکہ دو دنوں سے ہورہا ہے۔ کنٹینر لگا دیئے گئے ہیں، کارکن پکڑ لئے گئے ہیں، دوسرے شہروں سے آنے والے قافلے جگہ جگہ روک دیئے گئے ہیں۔ کوئی ساہیوال کے نواح میں ٹھہرا ہوا ہے، کوئی کلرکہار پر روک لیا گیا ہے۔ مختلف جگہوں پر ٹولیاں اکٹھی ہو رہی ہیں، ان کی تعداد کچھ بھی ہو۔ یہ سب ڈٹ جانے کی علامت ہے۔ کارکنوں کی گرفتاریاں ہی نہیں ہوئیں۔ یہ اعلان بھی ہوا کہ بعض لیڈروں کو ایک ایک ماہ کے لیے نظر بند کردیا گیا ہے۔ ان میں الیکشن لڑنے والے امیدوار بھی ہیں اور خواجہ سعد رفیق جیسے قومی سطح کے قائد بھی۔ پنجاب کے سیکرٹری داخلہ نے فرمایا ہے کہ یہ سب بڑی غیر جانبداری سے لا اینڈ آرڈر کی صورت حال قائم رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔ ہمیں خبر تھی کہ دہشت گردی ہونے والی ہے۔ اس لیے جن سے خطرہ تھا، انہیں پکڑ لیا گیا ہے۔ ہر کوئی اس کار خیر میں حصہ ڈال رہا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ادارے نے اعلان کیا کہ نوازشریف کی لائیو تقریر میں نشر کرنے پر پابندی ہوگی۔ بھئی، وہ تو جیل میں ہوں گے، پھر ان کی لائیو تقریریں کیسی۔ کہا جارہا ہے اس سب کچھ کا مقصد اشتعال انگیزی کو روکنا ہے۔ حالانکہ مخالفت میں جو بیان آ رہے ہیں، کیا وہ کم اشتعال انگیز ہیں۔ نوازشریف نے غالباً دبئی سے یہ کہا ہے کہ ایسے میں ان انتخابات کو کون تسلیم کرے گا۔ مجھے نہیں پتا کہ موجودہ انتظامیہ کو کس نے یہ مشورے دیئے ہیں۔ مجھے تو یہ بھی پتا نہیں کہ جب کسی ملزم کو سزا ہو جاتی ہے تو اسے پکڑنے کی ذمہ داری کس کی ہوتی ہے۔ عدالت نے فیصلہ دے دیا، اب انہیں گرفتار کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور ان معاملات میں حکومت، صوبائی حکومت ہوا کرتی ہے۔ اس دوران خیبرپختونخو ا میں دو واقعات ہو گئے ہیں۔ دیکھئے احتیاط کیجئے، انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد نہ اٹھ جائے۔ اس قوم نے بڑے صبر و تحمل سے الیکشن کا انتظار کیا ہے۔ ایسے میں بہت کچھ برداشت کیا ہے۔ یہ نہ سمجھئے کہ یہ کسی پارٹی کی قوت برداشت کا امتحان تھا۔ پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، مسلم لیگ سب کے اعصاب کا امتحان تھا اور اس سے زیادہ عوام کے تحمل کی آزمائش ہے۔ میں چونکہ وکیل استغاثہ ہوں، اس لیے انتظامیہ کو چارج شیٹ کر رہا ہوں کہ یا تو آپ کو کام کا سلیقہ نہیں آتا یا پھر آپ کسی کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ چلئے، ہم تصور کئے لیتے ہیں کہ یہ سب کچھ آپ اپنی ذہانت کے بل بوتے پر کر رہے ہیں، تو پھر مودبانہ گزارش ہے کہ آپ بہت غلط کر رہے ہیں۔ یہ ایم پی او یہ ڈیفنس آف پاکستان رولز حتیٰ کہ اب 144 کا یہ استعمال بھی قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔ کسی کو یاد بھی نہیں رہا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ اگر 144 اپنی پوری قوت نافذہ کے ساتھ زندہ ہوتی تو نہ ماڈل ٹائون کا واقعہ ہوتا نہ دھرنا دیا جاتا۔ میری بات سمجھ گئے نا۔ پرانے دھرنے کی بات چھوڑیئے، یہ فیض آباد والا خادم حسین رضوی کا دھرنا بھی ممکن نہ تھا۔ اس وقت جو اقدامات بھی کئے جا رہے ہیں، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ پارٹی جو ٹارگٹ ہورہی ہے، اس کو فائدہ پہنچے گا۔ نوازشریف اور کیا چاہتے ہوں گے۔ یہی نا کہ لوگوں کو یقین آ جائے کہ انہیں ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ آپ قافلے روکتے ہیں، گرفتاریاں کرتے ہیں، نظربندی کے شکنجے کستے ہیں تو اس سے کیا پیغام ملتا ہے۔ یہی نا کہ اگر حکومت یہ نہ کرتی تو بہت بڑا استقبال ہوتا۔ یہ جو کنٹینر کھڑے ہیں اور ایئرپورٹ سیل ہے، یہ دیکھ کر مجھے کراچی کا 12 مئی یاد آ گیا۔ ایسے ہی ایئرپورٹ جانے والے تمام راستے بند تھے، جسٹس افتخار چوہدری کو ایئرپورٹ پر محبوس کر دیا گیا۔ کیا نتیجہ نکلا۔ رات کو پرویز مشرف مٹھیاں لہراتے رہے اور اپنی طاقت بناتے رہے مگر کسی نے مان کر نہ دیا۔ ادھر کراچی میں جو افسوسناک خون ریزی ہوئی اس کا الزام بھی حکومت پر لگا۔ بہت کہا گیا یہ عوام کا ردعمل تھا۔ یہ تاثر بھی دیا گیا کہ ایم کیو ایم بڑی طاقتور ہے، وہ ایسا ہی ردعمل دیتی ہے مگر نتیجہ کیا نکلا۔ یہ جو دین الٰہی ہے یہ اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے۔ اس کے پشت پر ابوالفضل، فیضی، بیربل، ملادوپیازہ نورتن ہوا کرتے ہیں، معاشرے کا بہترین جوہر، پھر بھی لازمی نہیں کہ وہ درست ہو۔ اکبر کے زمانے میں تو بالکل غلط تھا۔ ہر زمانے میں حکمرانوں کا ’’دین‘‘ لازمی نہیں کہ درست ہو۔ ایسے میں ملا بدایونی کو کہنا پڑتا ہے کہ مجھے اس سرکاری دین یا چلن کا ابوجہل سمجھ لیجئے۔ کیا ہوتا اگر نوازشریف کو اترنے دیا جاتا، کیا قیامت آ جاتی، جاتی عمرہ ہی جاتے، کوئی بھاگ نہ جاتے، رات کو وہاں جا کر آرام سے حراست میں لے لئے جاتے۔ وہ کوئی ریاست سے مقابلہ کرنے تو نہیں آئے۔ وہ تو سرنڈر کرنے آئے ہیں۔ وہ بھی قانون کے مطابق، دس دن کے اندر تاکہ انہیں اپیل کا قانونی حق حاصل ہو۔ اس صورت حال میں اس سب کچھ کی کیا ضرورت تھی۔ ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ مستونگ میں سراج رئیسانی کے قافلے پر حملہ ہوا جس کے نتیجہ میں وہ شہید ہو گئے۔ صبح ایک اور حملہ اکرم درانی کے قافلے پر ہوا تھا۔ یہ ساری صورتحال الیکشن یا جمہوریت ہی کے لیے ناسازگار نہیں، ملک کے لیے بھی بڑی خطرناک ہے۔ میں مزید نہیں لکھنا چاہتا۔ کم کہے کو بہت سمجھئے۔ غور کیجئے کہ ہم کل کو کدھر لے جا رہے ہیں۔