کشتی میں بیٹھ کر تو میں ڈرتا رہا مگر کشتی الٹ گئی تو سمندر نہیں رہا سب لوگ مطمئن ہیں فقط اتنی بات پر حاکم یہ مانتا ہے وہ حق پر نہیں رہا پیارے قارئین!میرا دل تو چاہتا تھا کہ آپ کو دلچسپ باتیں بتائوں اور ہنسائوں کہ ایسی خبریں اخبار میں مل جاتی ہیں۔ جیسے کہ پتہ چلا ہے کہ بھارت میں لاک ڈائون کے باعث ہاتھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ ایک مرتبہ کشور ناہید نے اسلام آباد کے حوالے سے بھی لکھا تھا کہ رات بارہ بجے کے بعد سوؤر یعنی Pigsسڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ یقینا اسلام آباد کے سؤر ہیں ہاتھیوں سے کم تو نہیں ہونگے۔ لاک ڈائون کے مناظر میں زیادہ تر تو یہی ہے کہ سنجیاں ہو گیاں گلیاں تے مرزا یار پھرے‘ مگر بعض جگہ مختلف صورت حال ہے۔ ایک جگہ میں نے ایک گھر کے باہر چھ سات قوالوں کو قوالی کرتے دیکھا تھا وہ تپڑی واس ۔ یہ مگر کمال کہ انہوں نے ماسک پہنے ہوئے تھے۔ محلے دار کھڑکیاں کھول کر ان کو سن رہے تھے۔ تیسرا منظر پتنگ بازی کا تھا کہ بسنت کے لئے یہ حالات سازگار ہیں۔ لڑکے بالے محلے سے بھاگتے ہوئے کہ پتنگ لوٹ رہے ہیں۔ یہ غریب بیچارے پتنگ ہی لوٹ سکتے ہیں۔ تو جی میں بات کر رہا تھا کہ یہ عمران خاں کا کریڈٹ ہے کہ اس نے بغیر کسی امتیاز کے سب کو ایکسپوز کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ آٹے چینی کی رپورٹ میں پردہ نشینوں کے بھی نام آ گئے۔ لیکن دل بڑا ستم ظریف ہے اس اعلیٰ مثال سے بھی مطمئن نہیں ہوتا اور اب عقل عیار بھی دل کا ساتھ دے رہی ہے اور کہتی ہے کہ میری جان! اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہو کہ یہ بھی ایک سیاست نہیں اعلیٰ درجے کا نفسیاتی کھیل نہیں کہ اپنا جرم تسلیم کر لیا جائے۔ لوگوں کا کتھارسز ہونے دیں۔ پریشر ککر کا سیفٹی والو اٹھا لینے ہی میں بچت ہے۔ لوگ جو پڑھنا اور سننا چاہتے ہیں ان کو سنا اور پڑھا دیا جائے کہ اس لوٹ مار یا کم از کم برآمدات کے کھیل میں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کے ہاتھ بھی کہنیوں تک رنگے ہیں۔ معاملہ تو جناب اس سے آگے کا ہے کہ حاصل کیا ہو گا ان لوگوں کو کوئی جرمانہ ہو گا یا کوئی سزا ملے گی۔ سادہ اور مختصر جواب یہ کہ کچھ بھی نہیں ہو گا: محبتوں میں تعصب تو در ہی آتا ہے ہم آئینہ نہ رہے تم کو روبرو کر کے ویسے تو پہلے بھی یہ عام مشق رہی ہے کہ بے اعتدالیوں پر خان صاحب پہلے بھی پریشان اور ناراض ہو کر نوٹس لیتے رہے ہیں مگر نوٹس آخر کار ٹھس ہو جاتا رہا ہے۔ پرنالا کبھی نہیں بدلا۔ ہزاروں لغزشیں حائل ہیں لب پہ جام آنے تک، کئی سوالات پیدا ہونگے آخر برآمدات کی یعنی آٹا چینی باہر بھیجنے کی اجازت کس نے مرحمت فرمائی۔ کس نے جھوٹ بولا کہ یہاں ملک میں خریداری مکمل ہو چکی ہے اور برآمد کے لئے حالات سازگار ہیں۔ پھر کس بنا پر سبسڈی دی گئی۔ کس کس کی مہر ہے ۔یہ ایک پنڈورا بکس ہے جو کھلے گا اور بند ہو جائے گا۔ حالانکہ اقتصادی کمیٹی اور کابینہ ایکسپورٹ کی اجازت میں پوری طرح سے شامل ہیں۔ سارا کام مل ملا کر ہوا ہے۔ کون کسے پکڑے گا کوئی نہیں جانتا: ٹوٹا ہے دل کا آئینہ اپنی نگاہ سے اب کیا شکست ذات کے اسباب دیکھنا ویسے بھی ان لوگوں کے لئے جو اس کاروبار’’ خفیہ امراض‘‘ کے حامل یہ حالات بڑے سازگار ہیں کہ قوم کورونا کے خوف سے گھروں میں بند ہے اور ان کے دماغ اس وبا سے شل ہیں اور دل ان کے کورونا کورونا کی آواز بنے ہوتے ہیں۔ کس کو آٹے چینی کی ہوش ہے وہ تو اس بات پر بھی شکر بجا لاتے ہیں کہ جیسے تیسے یہ چیزیں مل تو رہی ہیں۔ وہاں بھی خاں صاحب پریشان دکھائی نظر آتے ہیں کہ آٹا کون مہنگا کر رہا ہے؟ چینی کیوں گراں ہو گئی اور یہ ذخیرہ اندوز کون ہیں؟ اصل میں لوگ بھی تو بہت باشعور ہو چکے ہیں کہ یہ تک جانتے ہیں کہ بلیک منی کو وائیٹ کرنے کا موقع کس کس کو دیا جا رہا ہے! یہ کورونا فنڈ اور وردیاں کسے دی جا رہی ہیں سب کچھ وہی کیا جا رہا ہے جو پچھلے ادوار میں ہوتا رہا ہے مگر ہم بھی تو وہی کچھ کر سکتے ہیں جو پہلے کرتے آئے ہیں یعنی بے بسی سے سب کچھ دیکھیں گے اور اگر بولیں گے بھی تو نقار خانے میں طوطی کی آواز۔ چلیے پھر عشق کیجیے مگر اس وبا میں تو عشق بھی فراموش ہو جاتا ہے اور پھر اس میں قربانی بھی تو ہے: میں نے کہا کہ کس طرح جیتے ہیں لوگ عشق میں اس نے چراغ تھام کے لَو کو بڑھا دیا کہ یوں فرق بہرحال ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ہم اس حکومت سے توقعات رکھتے تھے‘ بہت سی توقعات ہم دو جماعتوں بلکہ دو خاندانوں کی باریوں سے تنگ آئے ہوئے خاں صاحب کو باری دینے کے حق میں تھے اور یہ باری انہیں مل بھی گئی اور پھر یہ باری ہی ثابت ہوئی ۔بظاہر یہی لگنے لگا ہے کہ اب میوزیکل چیئر میں تین کرسیاں ہونگی۔ کرسی اٹھانے والا غلطی نہیں کرتا۔کریں تو کریں کیا؟ جائیں تو کدھر جائیں! سرمایہ دار سرمایہ دار ہوتا ہے اور میاں برادران نے سیاست کو مکمل طور پر سرمایہ کا مرہون منت کر دیا۔ اس میں وہی رہے گا جس کے پاس اے ٹی ایم مشینیں بھری ہونگی۔ یہ اربوں کمانے والے غریبوں تک اپنی زکوٰۃ کے برابر بھی نہیں پہنچاتے۔ کیا عمران خاں کے اس دعویٰ میں کوئی وزن ہے کہ کوئی بااثر عوام کا پیسہ کھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ ہو سکتا ہے کہ حکومت ان بااثر لوگوں سے اپنا حصہ نکلوا لے مگر جو عوام کی جیبوں سے نکل جاتا ہے وہ واپس کب آتا ہے۔ کچھ لوگ تو آپ کی طعام گاہوں میں آ جائیں گے مگر سفید پوش اور تنخواہ دار کہاں جائیں گے۔ ایک چھوٹی سی مثال پی ٹی وی کا فضول ترین ٹیکس ہے جو 35روپے سے سو روپے ہو گیا۔ کون بدبخت اس دور میں پی ٹی وی دیکھتا ہے۔ اس طرح کے کئی ایڈجسٹمنٹ چارجز جو بلوں میں لگتے ہیں۔ یہ ہر تعریف کے اعتبار سے چوری ہے جو حکومت علی الاعلان کرتی ہے۔ شہباز شریف تو موجودہ رپورٹ کو سنگین ہی نہیں کہہ رہے بلکہ اسے عمران خاں اور بزدار کے خلاف فردم جرم بتا رہے ہیں۔ کیسے مزے سے وہ یہ بات کہہ گئے جبکہ ان کے دور میں اربوں روپے کی گندم برآمد کرنے اور پھر سبسڈی لے کر باہر سے گھٹیا گندم منگوانے کا بندوبست کیا۔بات تو پھر وہیں آئی ہے کہ کاش خان صاحب کے دور میں یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ لگتا ہے کہ ان معاملات میں کوئی جے آئی بننی چاہیے بلکہ پہلے یہ برآمد کی اجازت میں کسی فوجی کمیشن کو شامل کرنا چاہیے مگر کاروبار تو کاروبار ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ تعمیراتی پیکیج پر بات ہونی چاہیے۔ بہرحال اس کا تعین بھی جلد ہو جائے گا کہ بینی فشری کون کون تھا۔ چلیے کچھ نہ کچھ ہونا نہ ہونے سے پھر بھی بہتر ہے: رُکنا کوئی حل تے نہیں جے چلنا بے کار گیا