پاکستان الحمدللہ، اکہتر برس کا ہو چکا۔ خود ساختہ ’’قائد ِاعظم ثانی‘‘ اور’’سب پر بھاری‘‘ صاحب کو دیکھ کر، خیال نہ ہو کہ یہ ملک سدا سے، ایسے ہی ’’موتیوں‘‘ پر گزارہ کرتا رہا ہے! غضب خدا کا، دس سال ملک کے کرتا دھرتا رہے، اور کہتے ہیں کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘۔ لوگوں کے ووٹ کی، ذرہ برابر عزت، ان کے دل میں ہوتی تو کروڑ روپے کی گھڑی پہن کر، ان کے سامنے نہ آتے اور ان کا یوں منہ نہ چڑاتے! سچ ہے کہ نشہ اقتدار کے سامنے، بڑے بڑے نشے ہیچ ہیں۔ بار بار انہیں نکالا جاتا ہے لیکن ع یہ وہ نشہ نہیں، جسے تْرشی اتار دے اس مخلوق کے مقابلے میں، پْرانے بزرگوں کو یاد کرنا، اس لیے بھی ضروری ہے کہ معلوم رہے ع کہاں سے چلے تھے، کہاں آ گئے ہم چودھری خلیق الزماں مرحوم کا ایک واقعہ، چند روز پہلے بیان کیا گیا تھا۔ لیکن بات کچھ ادھوری رہ گئی۔ آج پورا واقعہ سنیے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان سے ملاقات میں، چودھری صاحب نے انہیں اپنی سیاسی جماعت بنانے پر آمادہ کیا تھا۔ یہ کام کر کے وہ سیدھے اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچے۔ ساری بات بتا کر، کہا کہ شیر کو پنجرے تک میں لے آیا ہوں، اب اسے بند رکھنا آپ کا کام ہے! اس پر اختلافی آوازیں اٹھنے لگیں کہ یہ کیا کر آئے ہیں آپ! چودھری صاحب نے تحمل سے بات سْن کر، جوابی سوال کیا۔ ’’آپ سب لوگ، ایوب خان کو اقتدار سے نکالنا چاہتے ہیں؟‘‘۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا ’’جی ہاں‘‘۔ اس پر چودھری صاحب نے کہا ’’اس کی سب سے آسان ترکیب یہ ہے کہ آپ سب لوگ، ان کی جماعت میں شامل ہو جائیں!‘‘۔ سیاسی سوجھ بوجھ اور جوڑ توڑ میں، مرحوم کا جواب ہی نہیں تھا۔ مولانا ظفر علی خان نے انہی کے بارے میں کہا تھا ؎ بخشی گئی ہے دولت ِکَون و مکاں مجھے نہرْو انہیں ملا، تو خلیق الزماں مجھے خدا جانے، کِس نے گھڑ کر یہ بات، قائد ِاعظم سے منسوب کر دی کہ میری جیب کے سارے سکے، کھوٹے ہیں۔ معروف صحافی اور قائدیات پر اتھارٹی، منیر احمد منیر صاحب نے اس کی حقیقت بیان کر دی ہے۔ یہ جْملہ نہ صرف قائد کی مَردْم شناسی پر شک پیدا کرنے والا ہے، بلکہ مولانا حسرت موہانی، بہادر یار جنگ جیسے بے لوث اور نواب اسماعیل اور چودھری خلیق الزماں جیسے مشاق سیاسئین کی بھی نفی کرتا ہے۔ یہ بات البتہ درست ہے کہ قائد ِاعظم کی وفات کے چند برس بعد ہی، بعض کھوٹے سکوں کو بہت عروج ملا۔ لیکن ایسے لوگوں کا، اپنا حشر کیا ہوا؟ اسکندر مرزا کا انجام یاد کر لیجیے۔ اقتدار کی ہوا، انہیں بے طرح چڑھی تھی۔ واشنگٹن میں مقیم، سینئر صحافی میاں شکیل، میرے دوست ہیں۔ انہوں نے اسکندر مرزا کے بیٹے ہمایوں مرزا کا انٹرویو کیا ہے۔ ہمایوں مرزا نے جہاں اَور بہت سی باتیں سے پردہ اٹھایا، یہ بھی بتایا کہ اسکندر مرزا نے، اپنے کتے کو ایک ایسا نام دے رکھا تھا، جو مذہبی طبقوں میں، مرادف سمجھا جاتا ہے علم و فضل کے! ایک طرف اگر اسکندر مرزا اور غلام محمد جیسے طاقت کے حریص ہیں، تو دوسری طرف لیاقت علی خان کے بعد، خواجہ ناظم الدین جیسے بے غرض لوگ بھی تو ہوئے ہیں۔ بقول ِسودا ع جنہوں کے غم سے کریں دشت و کوہسار افسوس! خواجہ صاحب کے بارے میں، میرے والد اظہر سہیل مرحوم کو یہ واقعہ، پنجاب کے سابق گورنر مخدوم سجاد حسین قریشی نے خود سنایا تھا۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مسلم لیگ کے رہنمائوں کو قربانی کے بکرے کی تلاش ہوئی۔ نظر ِانتخاب خواجہ ناظم الدین پر جا ٹھہری۔ اب سوال پیدا ہوا کہ بات آگے بڑھائی کیسے جائے؟ خواجہ صاحب چونکہ خواجہ بہائوالدین زکریا کے ماننے والے تھے، مخدوم سجاد حسین قریشی کا قدم درمیان لایا گیا۔ یہ سب لوگ مل کر، ڈھاکہ میں خواجہ صاحب کے گھر پہنچ گئے۔ وہاں مدعا بیان کیا گیا۔ خواجہ صاحب اجازت لے کر، وہاں سے اٹھے اور اپنی بیٹی سے مشورہ کیا۔ ان کی صاحبزادی بڑی ذہین اور معاملہ فہم خاتون تھیں اور سیاست میں اپنے والد کی مشیر! کچھ دیر بعد، خواجہ صاحب واپس آئے اور کہا۔ میری بیٹی کہتی ہے کہ ابا! ان کی باتوں میں نہ آئیے گا۔ یہ آپ کو قتل کر کے، لاش کا بھی سودا کر لیں گے۔ ان سے بچیے، یہ مردہ فروش ہیں! اس پر وہاں سناٹا چھا گیا۔ ذرا دیر بعد، ایک بزرگ سنبھالا لے کر، گویا ہوے۔ ’’لیکن ہمیںتو مخدوم صاحب ساتھ لائے ہیں۔ ان کے بزرگوں (حضرت بہائو الدین زکریا( نے، انہیں خواب میں آپ کے پاس آنے کا اشارہ دیا ہے۔ یہ سن کر خواجہ صاحب آبدیدہ ہو گئے اور کہا۔’’اب انکار کیسے ہو؟ میں ہر طرح حاضر ہوں‘‘۔ غرض انہیں چکمہ دے کر، جب یہ بزرگ باہر آئے تو قہقہہ لگا کر کہا۔ ’’دیکھا! بڈھے کو کیسے شیشے میں اتارا؟‘‘۔ یعنی وہ خرافات پر ہیں داد طلب واہ وا پر، عجب مصیبت ہے! انسان کی عظمت کا لازمی جْز، عَجز و انکسار ہوا کرتے ہیں! بسا اوقات یہ ایک خوبی بھی کامیابی کی کلید بن جاتی ہے۔ اور یوں بھی ہوا ہے کہ اس کا نہ ہونا ناکامی کی وجہ بن گیا! ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے مخالفین کا تو ذکر ہی کیا، اپنے بیشتر وزراء اور قریبی ساتھیوں کو بھی، انہوں نے اْلٹے سیدھے خطاب دے رکھے تھے۔ ڈسکو مولوی اور مولانا وہسکی وغیرہ یاد کر لیجیے۔ اس ’’ہم چو ما، دیگری نیست‘‘ کا انجام کیا ہوا؟ اور انہی پر موقوف نہیں، خود پسندی اور تکبر اس خاندان کا خاصہ رہے ہیں۔ بھٹو خاندان کے چار ادوار سے زیادہ، وہ شخص اقتدار میں گزار گیا، جس کا انکسار ضرب المثل بنا ہوا تھا۔ جنرل ضیاء الحق سے میرے والد کی ’’محبت‘‘، ڈھکی چھپی نہیں۔ لیکن انہوں نے لکھا ہے کہ مرحوم کی عاجزی، بقول ِعبداللہ بن مبارک، آدمیوں کے لیے امتحان تھی! مولوی صاحبان، جن میں سے اکثر کی بات محلے میں بھی کم سنی جاتی ہو گی، جنرل صاحب کی طرف سے، بے مثال آئو بھگت دیکھتے اور ان کی جانب ڈھلتے جاتے۔ اسی طرح جنرل صاحب غیر مشہور صحافیوں کا بھی دل طرح طرح سے بڑھاتے تھے۔ تقریبات میں خود آگے بڑھ کر بات شروع کرتے۔ مثلاً ’’نقوی صاحب! فلاں تاریخ کو فلاں اخبار میں صفحہ نمبر آٹھ پر، جو خبر آپ کی بائی لائن کے ساتھ چھپی ہے۔ وہ درست نہیں‘‘۔ یا ’’آپ کی فلاں خبر، جس کا بقیہ صفحہ نمبر پانچ پر چھپا ہے، اس کی چوتھی سطر…‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ سچ ہے کہ ع تواضع ز گردن فرازان نکوست اسی ضمن میں، ایک واقعہ اور سْنیے۔ چند روز پہلے، کسی کالم میں یہ بات نظر سے گزری کہ بینظیر بھٹو سے فاروق لغاری نے بے وفائی نہیں کی۔ بلکہ یہ بے نظیر تھیں جو اپنی حکومت کیلئے، انہیں خطرہ سمجھتی تھیں۔ یہ بات درست نہیں۔