ملکی سیاست کا بھی عجب رنگ ہے، یہ کروٹیں بدل رہی ہیں ۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہماری قوم سیاسی منزل پر پہنچنے کی کوشش میں کئی سانحوں کا شکار ہو چکی ہے۔ دسمبر کا مہینہ آتا ہے تو ہمیں سقوط ڈھاکہ کی تلخ یادیں بے چین کر دیتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ جغرافیائی نقطہ نگاہ سے مغربی اور مشرقی پاکستان کا اتحاد غیر فطری معلوم ہوتا تھا لیکن یہ تو مذہب ہی تھا جس نے دونوں حصوں کے مسلمانوں کو دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک ایک لڑی میں پروئے رکھا ۔ مشرقی بنگال میں مسلم قومیت کا جذبہ بے پناہ تھایہی وجہ تھی کہ بنگالی مسلمان صوبہ بنگال میں اکثریت میں ہونے کے با وجود قیام پاکستان کی تحریک میں پیش پیش رہے بلکہ پاکستان کی خاطر انہوں نے بنگال کا بٹوارہ بھی گوارا کر لیا ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مشرقی بنگال میں ہی مسلم لیگ کی بنیاد پڑی اور پاکستان کے حق میں99فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ پھر تاریخ کا بنیادی سوال یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں آباد بنگالی قیام پاکستان کے تھوڑے عرصے بعد ہی پاکستان کے اس قدر خلاف کیوں ہو گئے ۔ انہوں نے اپنے لئے ایک آزاد مملکت کے بارے میںکیوں سوچنا شروع کر دیا یقینا اس کے اسباب معاشی اور سیاسی تھے۔ اس سانحہ میںبین الاقوامی سیاست کے عمل دخل سے انکار نہیں کیا جا سکتا، تاہم اس کا سب سے بڑا سبب معاشی ہی تھا اور اس لئے بنگالی سمجھتے تھے کہ ان کی بد حالی کا ذمہ دار مغربی پاکستان ہے۔ ایک مسئلہ زبان کا بھی تھا، اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کا اعلان سے بنگالی خوش نہیں تھے ۔ مغربی پاکستان میں حکمرانوں کو یہ خوف تھا کہ اگر بنگالیوں کو اکثریتی آبادی کی بنیاد پر نمائندگی دے دی گئی تو وفاق میں ان کی حیثیت کمزور پڑ جائیگی ۔پہلے پیریٹی کا اصول اس لئے اپنا یا گیا کہ دونوں صوبوں کومساوی نمائندگی مل جائے۔ شیخ مجیب نے عوامی لیگ کے پلیٹ فارم سے مشرقی پاکستان کی محرومیوں کو اجاگر کیا۔ اس وقت یحیٰ خان نے ون مین ون ووٹ کا اعلان کرکے مشرقی حصے کے لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر جذبات کی لہریں بہت تیز و تند تھیں۔ مغربی پاکستان میں یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ محبت کازم زم بہہ رہا ہے جبکہ حقیقتاً ایسا کچھ نہیں تھا۔ بات بہت آگے نکل چکی تھی، جب 1970کے انتخابات ہوئے تو بنگالیوں نے یکطرفہ فیصلہ دے دیا۔ راجہ تری دیو رائے اور نو ر الامین کے علاوہ تمام نششتوں پر عوامی لیگ نے فیصلہ کن برتری حاصل کر لی تھی اور تمام اندازے اور دعوے الٹ گئے تھے ۔ اس مرحلے پر بھی ہوش مندی اور دانش مندی سے حالات کو سنبھالا جا سکتا تھالیکن پھر جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس بد ترین سیاسی المیے نے تاریخ کے ورق پر بعض ایسے سوالات رقم کئے جو آج بھی جواب طلب ہیں۔ پھر آج ہم سقوط ڈھاکہ کے المیے پر نظر ڈالتے ہوئے اپنی صورت حال کا جائزہ لیں تو مایوسی ہوتی ہے۔ میں رواداری ، افہام و تفہیم اور تحمل و برداشت کے بجائے، اشتعال انگیزی ،مبارزت اور ایک دوسرے کی توہین و تضحیک کی روایات چل پڑی ہے۔ عقل حیران ہے کہ ہم کس دیوالیہ پن کا شکار ہو گئے ہیں۔ آخر تبدیلی کیا آئی، مسائل تو وہیں موجود ہیں بلکہ بتدریج بڑھ ری ہے۔ مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے اور بے روزگاری کے سبب غربت بڑھ رہی ہیں۔ حکومت کے دعوے اور ترقی اور بہترین کے اعشاریے تو اس وقت سمجھ آئیں گے ، جب آ پ کی کارکردگی کے اثرات غریب کی ہنڈیا اور چولہے تک پہنچیں گے۔ ہماری یہ باتیں آپ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا کریں لیکن سن ضرور لیا کریں کیونکہ یہی حقیقت ہے۔ جناب وزیر اعظم آپ بنیادی طور پر ا یک سوشل ریفارمر ہیں۔ سیاست میں خوشگوار تبدیلی اورعوام کی مشکلات کو کم کرنے کے لئے منصوبہ بندی در حقیقت سوشل ریفارمز کے زمرے میں آ تی ہیں۔ اپنی کارکردگی کا بوجھ ماضی کے حکمرانوں کے کندھوں پر نہ ڈالیں یہ ہماری قومی تاریخ میں تواتر سے ہوتارہا ہے۔ اس قسم کے بہانے کرنا ہر حکومت کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے کہ سابقہ حکومتوں نے ریکارڈ توڑ قرضے لئے اور بے انتہا کرپشن کی۔ آپ اس بات کو اپنی مجبوری اور کمزوری نہ بنائیں اور ایسا کام کرکے دکھائیں جس کا عکس عام لوگوں کی زندگی میں آسودگی کی صورت میں نظر آئے۔ پہلے بھی آنے والے حکمران ماضی کے حکمرانوں کو برا بھلا کہتے رہے ہیں لیکن ایک دوسرے کو ڈاکو ، چور، لٹیرے، جیب کترے اور فراڈیے جیسے الفاظ استعمال نہیں کرتے تھے۔ آپ کے مشیر اور وزیر اس حوالے سے ملک میںسیاسی اور اخلاقی زوال کی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ میں تو حیران ہوں کہ ہماری سیاست میں گالم گلوچ کا کونسا رواج قائم ہو رہا ہے۔ عام لوگ آپ کو فالو کرتے ہیں، آپ انکی کیا تربیت کر رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ہر عروج کے نصیب میں زوال لکھا ہوتا ہے اورہر چڑھتے سورج کو شام ڈھلے غروب ہونا پڑتا ہے۔ تاریخ بڑی سنگدل ہوتی ہے اسے حکمرانوں کی ذاتی ایمانداری سے کوئی غرض نہیں ہوتی ، وہ تو بڑے لوگوں کے صرف کارنامے دیکھتی ہے۔جناب وزیر اعظم مجھے یوں محسوس ہوتا ہے آپ دلدل پر عمارت تعمیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا پھر ریت کے گڑھوں میں پانی جمع کر رہے ہیں۔ آپ یقیناً جاڑے کے موسموں میں اس غریب پاکستانی، جس کے تن پر پورے کپڑے بھی نہیں ہے انہیں کمبل دے رہے ہیں لیکن اگرآپ اس غریب کا بھلا چاہتے ہیں تو انہیں کمبل بے شک نہ دیں، بس دری کھینچنے والے کا ہاتھ پکڑ لیں۔ خدا کے لئے اس قوم سے انصاف کر جائیں،عام لوگوں کے تکلیف اور مسائل کا احساس کریں۔ اگر چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو سلیوٹ کریں تو پھر کچھ کرکے دکھائیں۔ آپکا یہ انداز کہ تم لوگ مجھے نہیں جانتے کہ میں کیا کر سکتا ہوں، کسی نہیں چھوڑوں گا اور سب کو دیکھ لو گااور اپوزیشن بھی یہ ہی لب و لہجہ اختیار کر رہی ہے۔ تاریخ کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ یہ ماننے کے با وجود کہ آپ ایک عظیم کرکٹر اور زبردست سوشل ریفارمر ہیں لیکن جب قدرت نے لوگوں کا مقدر بدلنے کا موقع دیا تو اس نے وہ موقع ضائع کردیا۔