ایک بات یاد آئی اگرچہ اس کا ہو بہو تعلق آج کی صورتحال سے نہیں ہے۔ جب اقتدار پکے ہوئے پھل کی طرح ذوالفقار علی بھٹو کی جھولی میں ڈالا گیا تو اس قائد عوام، فخر ایشیا نے بڑی شان بلکہ شان بے نیازی سے جو سب سے پہلا اعلان کیا، وہ یہ تھا کہ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر مشہور صحافی زیڈ اے سلہری کو برطرف کیا جاتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں اور وہ اپنے دل میں اپنے مخالفوں کے بارے میں کیا جذبہ رکھتے ہیں۔ یہ جذبے کا لفظ میں نے احتیاط سے کام لیتے ہوئے استعمال کیا ہے۔ وگرنہ آپ جان سکتے ہیں یہاں کیا کہنا چاہیے۔ یہ کوئی ایسا فیصلہ نہ تھا جس کا تعلق ملک کے مستقبل سے ہو، بس سلہری صاحب کو بھٹو پسند نہ تھے اور یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ ان کا مخالف ایک ایسے ادارے میں براجمان رہے جوسرکار کی زیرنگرانی چلتا ہو، حکمرانوں کی اولین ترجیحات بہت اہم ہوا کرتی ہیں کیونکہ یہ بے ساختہ ہوتی ہیں، ان سے شخصیت کا اظہار ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب میں یہ بات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، اگرچہ وہ ایک مدبرانہ شان بھی رکھتے تھے اور نظریاتی آدمی بھی تھے۔ انہوں نے ایک اور صحافی سے بھی اپنے غصے کا اظہار یوں کیا تھا اور بھری پریس کانفرنس میں یہ تک کہا تھا کہ میں تمہیں فکس اپ کردوں گا۔ یہ فکس اپ کا لفظ ان دنوں بھٹو صاحب سے منسوب ہو کر بڑا پاپولر ہوا تھا۔ یہاں تک ایک مبینہ واقعے کے حوالے سے آغا شورش کشمیری نے اپنی ایک نظم میں اس کا ذکر کچھ یوں کردیا کہ چمپئی گالوں پہ زناٹے کا تھپڑ جڑ دیا اک اداکارہ نے طیارے میں فکس اپ کردیا ہمارے ہاں جو موجودہ تبدیلی آئی ہے، اس میں عمران خان کا بھٹو صاحب کا کوئی موازنہ نہیں ہے، سوائے اس کے کہ دونوں بڑی کرشماتی شخصیات کے مالک ہیں۔ دونوں مقبولیت کی ایسی لہر کے دوش پر سوار ہو کر اقتدار تک پہنچے ہیں کہ ان کی ہر جگہ بلے بلے ہو رہی ہیں۔ ان کے حوالے سے محیرالعقول باتوں کا اظہار ہورہا ہے۔ انقلاب ہویا تبدیلی دونوں کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ دنیا بدل سکتے ہیں، بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو صاحب نے بہت کچھ کیا۔ درست کیا، یا غلط، یہ الگ بحث ہے، مگر کیا، یہ ان کی بے پناہ صلاحیتوں کا اظہار تھا۔ عمران خان سے بھی ایسی توقعات ہیں۔ اس لیے 25 جولائی سے آج تک ایک مہینے میںساری نظریں ان پر لگی ہوئی ہیں۔ اقتدار سنبھالنے سے پہلے لوگوں نے کائونٹ ڈائون شروع کردیا ہے۔ ایک مہینہ گزر گیا ہے مگر دنیا ویسی کی ویسی ہے۔ کچھ ایسا ہی تاثر پایا جاتا ہے۔ میرے دل میں ایک دوسرا تاثر اور بھی قائم ہوا، وہ یہ کہ پہلے دن ہی سے یہ بات آنے لگی کہ نجم سیٹھی کی چھٹی کرادی جائے گی۔ سیٹھی صاحب سے ایک زمانے میں ان کے تعلقات اچھے تھے، مگر گزشتہ الیکشن کے زمانے میں 35 پنکچر لگانے کا شوشہ ایسا اٹھا کہ گلے میں ہی سے نہیں اترا۔ ایک زمانے میں عمران نے اسے سیاسی بات کہہ کر ایک طرح سے اس کی تردید کی تھی مگر ساتھیوں کے دبائو کی وجہ سے اسے چھوڑ نہ سکے۔ نجم سیٹھی نے پہلے تو کہا کہ وہ عدالت میں جائیں گے، پھر مصلحت اسی میں سمجھی کہ وہ اپنا استعفیٰ پیش کردیں۔ استعفیٰ پیش کردیا گیا اور اسے ایک لمحے کے توقف کے بغیر منظور بھی کرلیا گیا اور ساتھ ہی اعلان کردیا گیا کہ فلاں صاحب ان کی جگہ لیں گے گویا جانشین پہلے سے طے تھا۔ پھر خیال آیا، غلطی ہو گئی، وہ ایسے تقرر نہیں کرسکتے، آئین کی کچھ موشگافیاں پورا کرنا ہوں گی، فوراً ہی دوسری ٹویٹ آ گئی۔ ظاہر ہے عمران کو کرکٹ سے بے پناہ محبت ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس کھیل کے فروغ کے بارے میں ایک وژن رکھتے ہیں تاہم یہ مملکت خداداد پاکستان کی ترجیحات میں نہیں۔ اس طرح کے اقدامات اسی اشتعال کو ظاہر کرتے ہیں جو انتخابات کے دنوں میں دلوں میں برپا ہوا تھا۔ اچھی قیادت کی نشانی یہ ہے کہ وہ غصے کے ان ظاہری اظہار سے خود کو باز رکھے۔ ابھی تک بہت سے اعلانات کے پیچھے اشتعال کا رنگ نظر آنا ہے۔ ایک نہیں کئی باتیں ہیں۔ آخر کیا جلدی تھی کہ قید میں پڑے نوازشریف اور مریم نواز کو ای سی ایل پر ڈالا جاتا۔ وہ کہاں بھاگے جا رہے تھے، یہ اعلان کیا جاتا کہ میٹرو بس کے منصوبوں پرفرانزک تحقیقات ہوں گی۔ بھائی، کرلیجئے، ہونا چاہیے، آپ مگر کام کریں۔ شیخ رشید بھی ریلوے کا محکمہ سنبھالتے ہی اکڑ میں آ گئے، ہمیں اتنا خسارہ جہیز میں ملا ہے اور جو خسارہ آپ جہیز میں چھوڑ کر گئے تھے، اس کا حساب ہوگا یا نہیں۔ کہنا مجھے یہ ہے کہ اس طرح کا اشتعال یا بغض قیادت کو لے ڈوبتا ہے۔ اس حکومت ہی کے لیے نہیں ہر حکومت کے اچھے کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے مثبت منصوبوں کا آغاز کردے۔ ساتھ ساتھ پہلی حکومت کی غلطیوں اور کمزوریوں کو گرفت میں لینے کے کام پر بھی توجہ دیتی رہے۔ اگر وہ کچھ کرنے کے بجائے، پہلے والوں کی غلطیاں پکڑنے پر لگی رہے گی تو کچھ عرصے بعد ہی اسے یہ پریشانی لاحق ہو گی کہ وہ کچھ کرکیوں نہیں سکی۔ میں یہاں یہ عرض کرنا بھی چاہوں گا کہ حکومت اپنے چرب زبان ساتھیوں کو ذرہ مشورہ دے کہ وہ اپنی زبانیں بند رکھے تو اچھا ہے۔ اب آپ مخالفوں کی زبانیں بھی نہیں روک سکتے۔ آپکا اپنے مخالفوں کو سب سے بڑا جواب یہ ہوگا کہ آپ کچھ کرکے دکھائیں۔ ملک کو بے شمار چیلنج درپیش ہیں۔ لازمی نہیں کہ آپ نے ہر ایک کا جواب تیار کررکھا ہو۔ مگر یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ آپ اپنے مخالفوں کوفکس اپ کرنے میں لگے ہوئے ہیں یا آپ ماضی کی راکھ ہی کریہ رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں یہ کھیل چلتا رہا ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ اس کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلتا۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ جب موجودہ حالات میں کوئی نئی حکومت آتی ہے تو اس کی ٹیم نگاہوں میں نہیں جچتی۔ مجھے یاد ے کہ جب بھٹو صاحب اقتدار میں آئے تو پنجاب میں کوئی چار پانچ وزیر ایسے تھے جو اگرچہ پارٹی کے جانثار تھے مگر ان کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہ تھی۔ ان کے کئی لطیفے بھی مشہور ہوئے۔ کچھ تو مجھے اب تک یاد ہیں۔ کیا مزے کی بات تھی کہ ایک وزیر جیل خانہ جات نے اعلان کیا کہ ملک میں جیلوں کا جال بچھا دیا جائے گا۔ اس وقت عمران خان کو اس سے بھی بڑا چیلنج درپیش ہے۔ ان کی ٹیم پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔ یوں لگتا ہے، اس ٹیم کو عمران نے چلانا ہے نہ یہ کہ اس ٹیم کو عمران کے لیے طاقت بننا ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ پنجاب کی ٹیم تو ایسی ہے کہ اس ٹیم کے اندر تحریک انصاف کو تلاش کرنا مشکل ہورہا ہے۔ بھٹو کے پنجاب میں وزراء تو کم از کم ان کے ورکر تو تھے، صرف صلاحیتوں کی بات کی، اس میں ان کی اصل پہچاننا مشکل ہو رہا ہے۔ بہتر ہوگا کہ سیاسی الجھائو میں پھنسے رہنے کے بجائے پارٹی اپنے ایجنڈے پر عمل کرنا شروع کرے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ روڈ بنائے کہ آج ہم نے پچاس لاکھ مکانوں میں سے اتنے کی بنیادیں رکھ دیں بلکہ یہ کہ پتا چلے کہ اس حوالے سے منصوبہ بندی شروع ہو چکی ہے۔ میں نہیں کہتا ایسا نہیں ہوا ہوگا۔ ایسے کام خاموشی سے ہوتے ہیں۔ ان کا پتا اچانک چلتا ہے۔ خارجہ پالیسی میں ہم پہلے پلے ہی امریکہ سے الجھ گئے ہیں۔ بھارت سے سندھو سنڈروم میں لگے ہوئے ہیں۔ بھارت ہی نہیں، ملک کے اندر بھی یوں لگتا ہے کہ ورلڈ کپ 92ء کے ہیرو اقتدار میں آ کر ہمارے لیے جہاں گیری و جہانبائی کا ورلڈ کپ لے کر آئیں گے۔ مئی جون کے دن لمبے نہیں ہوتے۔ اب ہمیں ان میں سے نکل آنا چاہیے۔ اس لیے بھی کہ یہ تاثر نہ ابھرے کہ اس حکومت کی ترجیحات مخالفوں سے انتقام لینا یا سندھو سنڈروم کی جوت جگانے اٹھتا ہے۔ بس اب آگے بڑھئے، کرنے کے بہت سے کام ہیں۔ ابھی ہم اس میں الجھے ہوئے کہ گورنر ہائوسز کا کیا بنے گا اور گورنر کہاں رہیں گے۔ وزیراعظم کا ٹھکانہ کیسا ہوگا اور وہ کفایت شعاری کی کیا مثال قائم کریں گے۔ سابق وزیراعظم اپنا خرچہ خود دیتے تھے یا سرکار دیتی تھی۔ اس طرح کی بہت سے چھوٹی چھوٹی بے معنی بحثیں ان سے ریاست اور ریاست کے خزانے کو کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں۔ ہاں، البتہ جب نظام حکومت میں اسراف سے کام لیا جائے گا تو یہ یقینا اچھی مثال ہوگی۔ تاہم صرف اس کے سہارے حکومت نہیں چلتی بلکہ سچ پوچھئے تو ماہرین معیشت کہا کرتے ہیںبلکہ بعض اوقات Austerity کے نتیجے میں معیشت سست ہو جاتی ہے اور ملک کی ترقی رک جاتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان سب باتوں کے اثرات کیا ہوتے ہیں، اتنا معلوم کہ صرف اس طرح کی باتوں کے سہارے ملک نہیں چل سکتا۔ ملک کے معاملات صرف پروپیگنڈہ نہیں ہوتے، بلکہ کچھ کرکے دکھانے کا تقاضا کرتے ہیں۔ خدا کرے کہ حکومت جلد اس سمت رواں دواں ہو سکے۔