اِدھر سے اُدھر اور یہاں سے وہاں تک عجب سی ہاہا کار ہے۔ جو کچھ ہے‘ جو کچھ ہو رہا ہے‘ ان کے معنی و مفہوم کیسے متعین ہوں۔ مخمصہ ہی مخمصہ‘ ہر طرف گردو غبار کے بادل تیرتے پھرتے ہیں۔ آواز دو تو لوٹ کر اپنے تک ہی آ جاتی ہے۔ لفظ جو بے حرمت ہو چکے‘ لفظ جو اپنی قوت اور اپنا زور کھو چکے‘ ان لفظوں سے کیا اب بھی کوئی کام لیا جا سکتا ہے۔ الفاظ کچھ کہتے ہیں حقیقت کا کچھ اور بیان ہے۔ کس پہ یقین کریں کس پہ نہ کریں۔ کاہل اور تن آسان دنوں کے بعد جو تھکی ہاری شب امڈ کر آتی اور گھیر لیتی ہے چاروں اور سے۔ آنکھیں ہیں کہ چپ چاپ دیکھتی رہتی ہیں۔ دل سب کچھ سہتا رہتا ہے۔ بے رنگ بے بو‘ بے ذائقہ صبحیں اور شامیں۔ کوئی اپنے دل کو سمجھانے بجھانے جائے تو کہاں؟ ہاں یہ دنیا کی زندگی کھیل اور تماشا ہی تو ہے تو پھر اس درجہ سنجیدگی؟اور یہ بڑھ کر رنجیدگی کے درجے تک پہنچ جائے۔ یہ تو اور المیہ ہے اسی لیے شاید اسی لیے کوئی دن ایسا بھی ہوتا ہے جب میں اخباروں کا بنڈل کھولے بغیر اٹھا کر ایک طرف ڈال دیتا ہوں اور ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے بیٹھ کر ڈسکوری چینل لگا کر انسانی محنت و مشقت بلند عزائم اور حیران کن فتوحات کا خاموش تماشائی بن جاتا ہوں۔ وہ جنہیں دوسری زندگی پہ اعتبار نہیں اسی دنیا کو آخری ٹھکانہ سمجھتے ہیں کیسی کیسی مہمات طے کرتے ہیں جنگلوں‘ دریائوں اور سمندروں اور کڑے صحرائوں کا سفر جنہیں درپیش ہوتا ہے اور وہ سب کچھ ہمیں کیمرے کی آنکھ سے دکھاتے ہیں کہ جنہیں دیکھ کے حواس گم اور عقل ششدر رہ جائے۔ ان تک پہنچنے میں ہمیں جانے کتنی صدیاں چائیں کہ ابھی تو ہم یہی نہیں سمجھ سکے کہ ایک مملکت کو سلیقے‘ ایمانداری اور خلوص و دانائی کے ساتھ چلایا کیسے جاتا ہے۔ ہمیں تو ابھی یہی نہیں معلوم کہ دولت سے بھی قیمتی حقیقتیں ہیں جن کی دریافت کی لذت دولت سے حاصل ہونے والی آسائشوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ہم پیچھے کیوں رہ گئے اور وہ آگے کیوں نکل گئے۔ اگر اسی پر غور کر لیا جائے سوچ لیا جائے تو ایسا نہیں ہے کہ اس کا جواب نہ مل سکے۔ دکھ تو یہی اور المیہ بھی اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ ہم سوچنا نہیں چاہتے۔ سوچنا آتا بھی نہیں۔ یہ بھی نہیں جانتے کہ سوچنا بھی ایک اہم کام ہے جس کے ہم عادی نہیں‘ جس کی مسرت سے ہم آشنا نہیں۔ پورا معاشرہ جب اسٹاک ایکسچینج مارکیٹ کا شور و غوغا بن جائے اور سنجیدہ فکر ہی پہ مندی کا رجحان ہو اور کوئی یہ کہنے والا نہ ہو کہ آئو بھائیو! کچھ دیر بیٹھ کر سر جوڑ کر سوچیں کہ اس اذیت ناک صورت حال سے نکلیں تو کیسے؟ جمہوریت اور انتخابات ہرگز ہمارے درد اصلی کا درماں نہیں۔ جو بھی آئے گا سو مصلحتوں اور سمجھوتوں کے ساتھ۔ مڑ کر دیکھنے کی اسے مہلت ہی نہ ملے گی کہ کیا اور کیسے وعدوں کے ساتھ راج سنگھاسن پہ براجمان ہونے کا نادر موقع ملا ہے۔ ایک دائرہ ہے جس کے گرد کولہو کے بیل کی طرح آنکھوں پہ پٹی باندھے چکر کاٹے جاتے ہیں۔ دیواریں شہر کی کہتی ہیں‘ بدلو بدلو نظام بدلو‘‘ چہرے نہیں سماج بدلو‘ کوئی پوچھے کیا نظام کوئی خارجی مشینری ہے ڈی فریزر کی طرح جس کے کل پرزے بدل دیے جائیں تو یہ مشینری ٹھیک ٹھیک کام کرنے لگ جائے گی۔یا نظام انسانوں کی ہئیت اجتماعیہ کا نام ہے انسان ہی اس کے کل پرزے ہیں۔ وہ ٹھیک ہوں تندرست و توانائیوں تو نظام ازخود ٹھیک ٹھاک طریقے سے چلتا رہتا ہے اور جو انسان ہی اندر سے بیمار ہو تو نظام میں بھی سڑاند پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ ہو چکی ہے تو اصل مسئلہ تو انسان کو اندر سے بدلنے کا ہے۔ یہ پیمبری فریضہ ہے۔ انہوں نے اپنا فریضہ تو بحسن و خوبی ادا کیا لیکن انسان خود انسان بھی چاہے تو مشکل ہی سے خود کو بدل پاتا ہے۔یہ کوئی اور قوت ہے جو فرد کو اور معاشرے کے جملہ افراد کو دیکھتے ہی دیکھتے بدل ڈالتی ہے۔ تعلیم ذہن کو کشادہ اور علم سے متصف کرتی ہے لیکن جہاں معاملہ عمل کا آتا ہے جہاں سوال دل کی دنیا کو بدلنے کا ہے کہ آدمی ٹھیک طرح سے سوچے‘ صحیح طور پر دیکھے اور وہاں سے اس مقام سے دیکھے جہاں سے دیکھنا چاہیے کہ ایک خاص مقام سے چیزیں اور معاملات حقائق کے جس طرح نظر آتے ہیں کی اور مقام سے ویسے دکھائی نہیں دیتے۔ لہٰذا دیکھنے اور کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے صحیح مقام پر کھڑا ہونا بھی ضروری ہے اور یہ صحیح مقام وہ ہے جہاں انسان اپنی ذات سے بلند ہو کر اپنے تعصبات اور تاثرات سے قطع نظر کر کے اسی طرح اسی رنگ میں دیکھے جیسا کہ وہ ہیں۔ ہاں حقیقت جیسی ہے اسے اسی طرح نہ دیکھا جائے تو ہم وہ دیکھتے ہیں جو دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ نہیں دیکھ پاتے جو ہمیں دیکھنا چاہئیں۔انسان سوچنے والی مخلوق ہے۔ ذہن اور ذہن میں موجود عقل اور ارادے کی قوت وہ نعمتیں ہیں جن کو استعمال کیا جائے تو حیرت انگیز نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔ اگر کسی نے انسانی عظمت کے گن گائے ہیں تو دراصل یہ عقل انسانی کی عظمت کے ہی گیت ہیں۔ عروج آدم خاکی سے اگر انجم سہمے جاتے ہیں تو یونہی تو نہیں۔ کوئی بات تو انسان میں ہو گی کہ بلند ہو تو احسن الصالحین اور پست ہو تو اسفل سافلین میں شمار ہو۔ اس رواں صدی تک آتے آتے انسانوں نے ان دونوں منطقوں پہ خود کو پہنچایا بھی ہے اور گرایا بھی ہے۔ انسان کو سموچا قبول کرنا ہی حقیقت پسندی ہے۔ کوئی یہ سمجھے کہ نصیحتوں اور فضیحتوں سے انسان کو بدلا جا سکتا ہے تو یہ معصومانہ بھول ہی تو ہے۔ نصیحتیں اس تسلی کا نام ہیں کہ نصیحت کرنے والے نے اپنی بات پہنچا دی۔ آگے کیا ہوتا ہے؟ یہ اس کی کیا کسی کی بھی ذمہ داری نہیں۔ انسان کو دراصل نصیحتوں کی نہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ سمجھنا کہ کوئی کس نے بنایا؟ ماحول نے تعلیم و تربیت کے نظام نے‘ دوسروں نے آدمی اپنے ماضی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کون برا بننا اور خود کو برا کہلوانا چاہتا ہے۔ کوئی ایک بھی نہیں۔ جبر و اختیار میں کبھی کبھی جبر ہی کا حصہ زیادہ لگتا ہے۔ مگر انسان مجبور ہو کر بھی مختار ہے اور اپنے اختیار و ارادے کو کام میں لا کر وہ کچھ ممکن کر دکھا سکتا ہے جس کا تصور بھی محال ہو۔ مہاتما بدھ نے کہا تھا خواہشات ہی تمام دکھوں کی بنیاد ہیں۔ شاید اس لیے کہ خواہشات کا کوئی انت نہیں‘ کہیں خاتمہ نہیں خواہشیں ہیں کہ شیطان کی آنت کی طرح پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ بھیڑ جتنی بڑھتی جاتی ہے‘ شہر جتنے پھیلتے جاتے ہیں‘ انسان فطرت سے جتنا دور ہوتا جاتا ہے‘ خواہشوں کا انجانا سلسلہ دراز سے دراز تر ہی ہوتا جاتا ہے۔ اپنی موت سے آگاہ ہونے کے باوجود آدمی سامان زیست اکٹھا کرنے میں مگن رہتا ہے اور اس کا کوئی نہ ٹوٹا پھوٹا لنگڑا لولا جواز بھی رکھتا ہے عمل کو علم کے مطابق بنانے کے لیے آدمی اپنے علم میں ترمیم کر لیتا ہے تاکہ خود کو طفل تسلی دے سکے۔ بے چارہ انسان!یہ جو ہاہا کار ہے کچھ بھی نہیں۔ انسان کی حماقتوں اور بوالعجبیوں کی ایک داستان ناتمام ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اردگرد وہ سب ٹھیک ہی ہے اور یہ سب ہونے سے سب کچھ برسوں میں ٹھیک ہی ہو جائے گا۔ دل میں گمانوں کے لشکر در لشکر ہوں تو یقین کا ثبات بھی مشکل ہی سے ہوتا ہے۔ لیکن گمانوں میں بڑا گمان یہی ہے کہ تہہ سے جو کچھ اچھلے گا‘ گنبد نیلوفری کے رنگ بدلنے ہی سے ہو گا اور ایسا یہی قیاس ہے کہ بنیادی چیزیں رفتہ رفتہ ٹھیک ہو جائیں گی اس لیے کہ اب بگڑنے کے لیے رہ ہی کیا گیا ہے۔ سب کچھ تو بگڑ چکا اب سنورنے اور سدھرنے کا وقت آیا چاہتا ہے چاہے دس برس میں آئے یا پچاس برسوں میں۔