بارش آج پھر برسی۔ بھیگے ہوئے درختوں کے نیچے سے گزرتے ہوئے کچی مٹی کے سانس ٹھنڈے معلوم ہوئے‘ آسمان پر بادل یوں اڑے جا رہے تھے گویا کسی نے نیلے پانیوں پر بتاشے بکھیر دیے ہیں جن میں پانی نہیں امرت رس بھرا ہے۔ صاف سیاہ تارکول سے چمکتی سڑکوں کو چھوڑ کر میں اس کچے رستے پر چل رہا تھا جہاں کیچڑ میں قدم توازن نہیں رکھ پا رہے تھے۔ سامنے کسان برساتی پانی کو کھیتوں میں باندھ رہے تھے ۔کچھ کھیتوں میں دھان کی پنیری لگ رہی تھی۔ پنیری کیا تھی اچھے دنوں کی امید تھی جو ایک ایک تنکا کر کے پانی میں ڈوبے کھیت میں لگائی جا رہی تھی۔ پنیری پودا بنے گی پودے کے سر پر ایک تاج کھلے گا‘ تاج چاول کے دانوں سے بھرے گا‘ پھر کتنے ہی ہرے بھرے پودوں کے سر سے تاج کاٹے جائیں گے‘ تب جا کر کسان کی آس پوری ہو گی۔ وہ کیسا آوازوں کا کیمیا گر ہو گا جس نے راگ ملہار ترتیب دیا ۔ راگ میں موسم برسات کا مزاج بھرنا‘ اس مزاج سے ہم آہنگ سر باندھنا‘ تانوں کے اتار چڑھائو کے راستے بنانا‘ پھر جا کر وہ راگ بنا جس کو سن کر بادل آ جاتے ہیں۔ بارش سرگم بن جاتی ہے‘ مور کا رقص انسان میں حلول کر جاتا ہے۔ ایک طرف جستی چادروں کی چھت بوندوں سے جلترنگ بن جاتی ہے تو دوسری طرف پکی چھتوں کے پرنالوں سے گرتا پانی ایک جوش بھری دھن بن جاتا ہے‘ ساون اترتا ہے تو راگ بھی آسمانوں سے اتر آتے ہیں۔ ہر ذی روح اپنی بساط کے مطابق برسات سے فیض پاتا ہے۔ 1942ء میں بنی فلم تان سین میں خورشید بیگم کا گایا گیت‘ کالے بادلوا پیا بن برسو‘ جیسے موری اکھیاں برسیں‘ برسو رے۔ پھر ملہار والا یہ گیت کون بھول سکتا ہے۔ کہاں سے آئے بدرا۔ گھلتا جائے کجلا۔ نورجہان نے خورشید بیگم کے گانے کالے بادلوا کو آئوری بدلی کے بول دے کر گایا مگر رنگ نہ جما سکیں ‘ پھر یہ گانا کون بھلا سکتا ہے جو فلم گڈی میں جیا بہادری پر فلمایا گیا! بولے رے پپیہا رہا۔ اک من من پیاسا‘ اک من ترسے۔ پلکوں پر اک بوند سجائے۔ میں پیکوں ساون لے جائے۔ جا یہ پی کے دیس میں برسے۔ کیا غلام عباس کے گائے گیت‘ ایسے وہ شرمائے جیسے میگھا چھائے میں ساون کی بوندیں برستی نہیں سنائی دیتیں۔ یہ برسات کا کمال ہے کہ ہمیں بازار سیاست کو جانے والے راستوں پر چلتے چلتے کسی جادوئی دنیا میں پہنچا دیتی ہے۔ میرے جیسے لوگ جس مٹی سے بنے ہیں وہ بہار میں پھولوں کی کیاری بن جاتی ہے اور ساون میں آم کے گھنے پیڑ کے ایک پتے سے دوسرے پر چھلانگ لگانے والی بوندوں کا بستر۔ جوں جوں وجود بھیگتا ہے روح ایک سرشاری میں تر ہوتی جاتی ہے۔ ساون پہلے ظاہر کو دھوتا ہے پھر لگتا ہے باطن کی کثافتوں کو بہائے چلا جا رہا ہے۔ وجود پہلے گوشت اور ہڈیوں کا مجموعہ معلوم ہوتا ہے۔ پھر مٹی کا پتلا محسوس ہونے لگتا ہے اور پھر لگتا ہے یہ مٹی موسلا دھار بارش میں گھل کر گلیوں کا کیچڑ بن گئی۔ کیچڑ مٹیالے پانی میں بدلا۔ مٹیالہ پانی سبز ہوا‘ سبزہ کائنات میں گھلا‘ ساون تحلیل ذات کر دیتا ہے۔ میں بار بار برآمدے سے نکلتا ہوں‘ بارش کو خود پر برسنے دیتا ہوں پھر پانی میں گھلتا ہوں اور کائنات میں پھیل جاتا ہوں۔ بارش کئی منظروں میں اداسی بھر دیتی ہے۔ پرانی عمارت کی کھڑکی‘ لکڑی بوسیدہ ہونے کے باوجود اپنی جگہ پر ہے۔ کھڑکی کے پاس درخت ہے کھڑکی میں کوئی ذی نفس نظر نہ آئے تو لگتا ہے کہ گھر میں کوئی زندہ شخص نہیں ہے۔ ایک منظر باغ کا ہے۔ درختوں پر جھولے پڑے ہوئے ہیں۔ جھڑی لگی ہے ہوا راستہ دیکھتی ہے دل میں امنگیں لیے کوئی دلربا جھولوں کی طرف آئے‘ پھر تیز بارش میں نظر دھندلانے لگتی ہے‘ جھولے زور زور سے آسمان کی طرف اٹھتے ہیں۔ پتہ نہیں ان محبت کرنے والوں کی روحیں آ پہنچی ہیں جو ساون میں ایک دوسرے سے ملا کرتے تھے۔ ایک اور منظر بھی ہے لوگ گھروں میں دبکے ہیں۔ چراغ دین قلفیوں کی ریڑھی ایک مکان کے چھجے کے نیچے کھڑی کئے منتظر ہے کہ کوئی گاہک آئے۔ وہ چار گھنٹے سے اس فکر میں گم ہے کہ آج مال نہ بکا تو کل ادھار دودھ اور کھویا لینا پڑے گا۔ وہ پہلے ہی مقروض ہے۔ پانچ پانچ روپے کی پانچ سو قلفیاں بکیں تو پیسے پورے ہوتے ہیں۔ بارش اتنی تیز ہے کہ ایک گاہک بھی نہیں آ رہا۔ میں اسے دیکھتا رہتا ہوں۔ اس کی فکری مندی اداسی بن کر میرے اندر اتر جاتی ہے۔ میں اور قلفی فروش ایک ہی اداسی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اچھا ہے اس بار وہ شخص دکھائی نہیں دیا جو ہر سال بارشی لونگ شوز اوربرساتی پہن کر لکشمی چوک میں آ کھڑا ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ساری ضلعی انتظامیہ ہوتی۔ کمر تک پانی میں ڈوبا حکم دیتا کہ بارہ گھنٹوں میں نکاسی کا انتظام کیا جائے‘ پھر وعدہ کرتا کہ اگلے سال یہاں پانی جمع نہیں ہو گا۔ وہ پینتیس سال سے یہ ناٹک کر رہا تھا‘ کراچی میں شہزادہ اپنے حلقہ میں گیا۔ عورتیں خالی گھڑے اٹھا کر آ گئیں۔ مسلسل کئی عشروں کا اقتدار لیکن غریب پانی سے محروم۔ شہزادے کے کچھ درباری پانی بیچا کرتے ہیں۔ سپلائی کی لائنیں پنکچر کر کے پانی چراتے ہیں اگر کبھی آسمان والے نے زمین والوں سے ساون کے پیسے طلب کر لیے تو کیا ہو گا۔ مجھے لگتا ہے ساون کو ابھی معلوم نہیں کہ کراچی میں سرکاری کارندے اور بدمعاش پانی کو بیچتے ہیں۔ بارش تو ایون فیلڈ کے ان منحوس فلیٹوں کی کھڑکیوں سے بھی خوبصورت اور دھلی ہوئی دکھائی دیتی ہو گی بس وہاں اب احتساب عدالت کا فیصلہ نواز خاندان کی برساتوں کو بدنما کرتا رہے گا۔ فقیر کی کٹیا کے باہر مٹیالا پانی ایک دن بہہ جائے گا مگر ایون فیلڈ ہمیشہ کیچڑ میں ڈوبے رہیں گے۔