اَمریکہ اور چین کے مابین برِاَعظم اَفریقہ میں اَثرورسوخ کے مقابلہ کی نئی جنگ شروع ہوگئی ہے، جس کی تازہ مثال اَمریکی صدر جو بائیڈن اور اَفریقی ممالک کے رہنماؤں کے مابین 13 دسمبر سے 15دسمبر تک واشنگٹن میں منعقد ہونے والی تین روزہ سربراہی کانفرنس ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران ہونے والی اِس سطح کی یہ پہلی کانفرنس ہے جس میں تقریباً پچاس اَفریقی رہنماؤں نے شرکت کی ہے۔ اَمریکہ معدنی ذخائر سے مالا مال برِاَعظم اَفریقہ میں اپنا اثرسوخ دوبارہ بڑھانا چاہتا ہے۔ بین الاقوامی امور کے ماہرین کے مطابق اَفریقی ممالک اور چین کے مابین باہمی تجارت سمیت اِنفراسٹرکچر کی تعمیر کے منصوبوں میں تعاون اِتنی وسعت اِختیار کرچکا ہے کہ اَمریکہ کے لیے افریقہ میں چین کے اَثرورسوخ کا مقابلہ کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے حالانکہ اَمریکی صدر جو بائیڈن اِس معاملے میں ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے خود سفارتکاری کررہے ہیں جبکہ ان کے پیش رو صدر ٹرمپ کی افریقہ میں دلچسپی کافی کم رہی۔ 2014 میں اَمریکی صدر باراک اوبامہ کے افریقی رہنماؤں کے مدعو کرنے کے بعد یہ پہلا اَمریکی۔ اَفریقی سربراہی اِجلاس ہے۔ اَمریکی صدر بائیڈن نے اِس کانفرنس کے دوران یہ عزم ظاہر کیا ہے کہ اَمریکہ آئندہ تین سالوں میں افریقی ممالک میں 55بلین ڈالر کی سرمایہ کاری گا جبکہ وائٹ ہاؤس کے اِعلامیہ کے مطابق امریکہ 2025 تک افریقی ملکوں میں صحت کے شعبے میں کارکنوں کی تربیت کے لیے 4بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ اِس سربراہی اِجلاس میں اَمریکی خلائی اِدارے ناسا کو بھی شامل کیا گیا ہے کیونکہ امریکہ چاند، مریخ اور اِس سے آگے کے خلائی سفر کے لیے بین الاقوامی تعاون کا خواہاں ہے جبکہ افریقی ملک روانڈا اور نائجیریا ’’آرٹیمس معاہدے‘‘پر دستخط کرکے اس کثیر ملکی معاہدے میں شامل ہوگئے ہیں۔ جس میں اَمریکہ سمیت یورپی ممالک، جاپان اور کئی لاطینی امریکی ممالک بھی شامل ہیں۔ یہ بات بھی دلچسپی کی حامل ہے کہ اَمریکہ اِس خلائی منصوبے کو بھی ایک ایسے وقت میں وسعت دے رہا ہے جب چین خلائی منصوبوں اور ٹیکنالوجی میں تیزی سے آگے کی جانب قدم بڑھا رہا ہے جبکہ امریکہ اور روس کے مابین جاری کشمکش کی وجہ سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوگیا ہے ،جس نے اَمریکہ اور روس کے مابین خلائی شعبے میں جاری تعاون کو بھی خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ دوسری طرف چین،افریقہ بزنس کونسل کی رپورٹ کے مطابق، چین گزشتہ 13 سالوں سے افریقہ کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے اور 2021 میں افریقہ کا چوتھا سب سے بڑا دو طرفہ سرمایہ کار تھا۔ افریقہ کی ترقیاتی حکمت عملی، جیسے کہ افریقی یونین (AU) کا ایجنڈا 2063 اور افریقی کانٹینینٹل فری ٹریڈ ایریا۔ بی آر آئی اور اے ایف سی ایف ٹی اے کا گہرا تعاون، اَفریقہ کو ایک مزید مربوط براعظم بنانے کے ساتھ ساتھ اَفریقہ کو عالمی سپلائی چین سے جوڑنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ 2021 تک، افریقہ کے ساتھ چین کی تجارت میں 20 گنا اضافہ ہوا تھا، اور اَفریقہ میں اس کی سرمایہ کاری میں سَال 2000 کے مقابلے میں سو گنا اِضافہ دیکھنے میں آیا۔ تقریباً چار ہزار کے قریب چینی کاروباری اداروں نے برِاَعظم اَفریقہ میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اور یہ تمام فیکٹرز چین اور افریقہ کے مابین ٹھوس تعاون کو ظاہر کرتے ہیں جبکہ دونوں فریقوں میں سپلائی چین کے شعبے میں بھی قابلِ قدر ترقی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ 2013 میں ’’بیلٹ اینڈ روڈ اِنی شِی اِٹیو‘‘کا باضابطہ اعلان ہونے سے پہلے ہی، چین اَفریقی ممالک کے اَربن ڈویلپمنٹ کے شعبے میں بڑی سطح پر سرمایہ کاری کر رہا تھا۔ اَب جب اَمریکہ اور چین کے مابین تجارتی مسابقت شدت اَختیار کرگئی ہے اور اَمریکہ عالمی سیاست میں اپنی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے چین کو اِیک چیلنج سمجھتا ہے اور اس کے بروقت تدارک کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم ستون قرار دے چکا ہے جس کی تازہ مثال گزشتہ جمعہ کے روز اپنے طویل منصوبہ بندی کے نتیجے میں اَمریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں قائم ہونے والا"چائنا ہاؤس" یونٹ کا اِفتتاح ہے جسے باضابطہ طور پر "آفس آف چائنا کوآرڈینیشن" کہا جاتا ہے، جو یہ یقینی بنائے گا کہ اَمریکہ بیجنگ کے ساتھ مقابلے کو "ذمہ داری سے منظم" کرنے کے قابل ہے۔ دوسری جانب بنیادی ڈھانچے کی وجہ سے ہونے والی اِقتصادی ترقی کے کامیاب چینی تجربے کی وجہ سے کئی اَفریقی رہنما چین کی طرف دیکھ رہے ہیں تاکہ وہ اپنے تجربات کو اپنے ممالک تک پہنچا سکیں۔ افریقہ کے بنیادی ڈھانچے کے بڑے اور مرکزی منصوبے جس میں نائیجیریا میں 12 بلین ڈالر کی کوسٹل ریلوے، 4.5 بلین ڈالر کی لاگت کا ادیس ابابا – جبوتی ریلوے، اور 11 بلین ڈالر کا میگا پورٹ اور تنزانیہ کے ٹاؤن باگامویو میں اقتصادی زون کا منصوبہ شامل ہے چینی شراکت داری کے ذریعے تیار کیے جا رہے ہیں۔ اَمریکہ اور چین کے مابین عالمی قیادت کے لیے بڑھتے ہوئے مقابلے، چین کے برِاَعظم اَفریقہ میں قائم تجارتی اَثرو سوخ اور سعودی عرب سمیت مشرقِ وسطی کے ممالک کے ساتھ تعاون بڑھانے کے لیے چینی اِرادوں کے تناظر میں امریکی صدر بائیڈن اور اَفریقی ملکوں کے سربراہوں کا اِجلاس اَمریکہ کی افریقی ممالک میں اَپنا اثرورسوخ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ افریقہ میں چین کے بڑھتے ہوئے اِقتصادی تعاون کی وجہ سے ابھرنے والے سیاسی عزائم کی روک تھام کی اِیک منظم کوشش معلوم ہوتی ہے۔ اَگرچہ سربراہی اجلاس کی کاروائی یہ آشکار کرتی ہے کہ اَفریقی ممالک کا جھکاؤ اَمریکہ کی طرف نہیں ہے تاہم یہ ضرور ہے کہ چین اور اَمریکہ کی کشمکش سے افریقی ممالک فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے معاشی اور سیاسی مفادات حاصل کرسکیں گے تاہم افریقی ممالک کے آپس کے تنازعات مثال کے طور پر کانگو اور اِیتھوپیا کا باہمی تنازعہ اور امریکہ چین کی کشمکش کی وجہ سے افریقی ممالک بھی اَمریکہ اور چین کے حمایت یافتہ گروہوں میں تقسیم ہوسکتے ہیں۔