مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ کو بھارتی اکائی ڈیکلیئر کرنے کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس سولہ اگست کو ہوا، ایک دن پہلے سلامتی کونسل کی خاتون صدر(جو کہ اقوام متحدہ میں پولینڈ کی سفیر ہیں) کا ایک بیان میری نظروں سے گزرا جس نے مجھے چونکا کر رکھ دیا ، ان کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لئے جانے کا امکان ہے، سلامتی کونسل در اصل دنیا کے پانچ طاقت ور ترین ممالک، امریکہ، چین، برطانیہ،روس اور فرانس کے گٹھ جوڑ کا نام ہے، سلامتی کونسل میں دس غیر مستقل ارکان بھی شامل ہیں لیکن دنیا کے اس سب سے بڑے فورم میں ویٹو کا اختیار صرف پانچ مستقل ارکان کے پاس ہے، اگر پانچوں میں سے ایک ملک بھی کسی معاملے پر اٹک جائے تو بات آگے بڑھ ہی نہیں سکتی، جبکہ اطلاعات یہ تھیں کہ پاکستان کا فرانس کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کے ایشو پر سفارتی رابطہ نہیں ہو سکا اور یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ فرانس سولہ اگست کو سلامتی کونسل کے اجلاس کے خلاف تھا اور وہ اس کی تاریخ آگے لے جانا چاہتا تھا، لیکن اجلاس ہوا اور اسے پاکستان اپنی بہت بڑی سفارتی کامیابی بھی قرار دے رہا ہے، بند کمرے میں ہونے والے سلامتی کونسل کے اس اجلاس کے نتیجے کے حوالے سے میں ابھی تک بہت کنفیوژ ہوں۔ یقیناً یہ پاکستان کی ایک بڑی اخلاقی اور سفارتی فتح کہی جا سکتی ہے۔ چین بھی پاکستان کی طرح ایک متاثرہ فریق ہے، ہم مقبوضہ کشمیر میں بھارتی شب خون پر غم زدہ ہیں تو چین لداخ کو متنازعہ علاقہ قرار دیتا ہے،اور اس کے بڑے رقبے پر اپنا حق جتاتا چلا آ رہا ہے، بھارت سے اپنے مقبوضہ علاقے کی بازیابی کے لئے وہ جنگ بھی لڑ چکا ہے، چینی مندوب نے اجلاس کے بعد اقوام متحدہ کی عمارت کے اندر پریس کانفرنس بھی کی جس میں انہوں نے اقوام عالم کو خبردار کیا کہ کشمیر کے حالات انتہائی کشیدہ اور خطرناک ہیں، چین کی جانب سے مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی اظہار تشویش کیا گیا، جب پاکستان نے کشمیر کے حوالے سے سلامتی کونسل کو خط لکھا تھا تو چین ویٹو پاور رکھنے والے پانچ ممالک میں واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا، اور مستقبل میں بھی چین اپنی اہمیت کے اعتبار سے کشمیریوں کے لئے امید کی کرن بنا رہے گا۔کشمیریوں کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی جانب سے بھارت کے خلاف اور اپنے حق میں ایکشن کی ضرورت ہے، خاموش اجلاسوں کی نہیں، دنیا ایک سو بانوے ملکوں کا نام ہے اور سب جانتے ہیں کہ سلامتی کونسل صرف وہاں ایکشن لیتی ہے جہاں پانچ بڑوں کے مفادات خطرے میں ہوتے ہیں، شاید اسی لئے یہ الزام تسلسل سے سامنے آتا رہتا ہے کہ اقوام عالم کا معتبر ترین ادارہ سامراجی قوتوں کی ایجنٹی کے سوا کچھ نہیں کرتا، یہ وہی سلامتی کونسل ہے جس نے اپنے آقائوں کی خوشنودی کے لئے ایک قرارداد پاس کرکے عراق کو ہمیشہ کے لئے تباہ کر دیا، عراق پر حملے کی اجازت اس الزام پر دی گئی کہ وہ دنیا میں امن اور سلامتی کے لئے خطرہ بن گیا ہے اور جب عراق کو نیست و نابود کر دیا گیا تو پھر کہا گیا کہ صدام حسین کے پاس تو تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ دنیا کی سلامتی کے ضامن اس ادارے کو اجلاس سے صرف چند گھنٹے پہلے بھارت کی طرف سے دنیا کو ختم کر دینے کی دھمکی کی گونج بھی سنائی نہ دی، بھارت کا کہنا ہے کہ وہ اب ایٹمی ہتھیار پہلے استعمال نہ کرنے کی اپنی پالیسی کو بھی تبدیل کر سکتا ہے، کیا اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کے لئے بھارت کی یہ وارننگ کوئی معنی نہیں رکھتی کہ اس کا کسی نے جواب تک نہ دیا، جس وقت سلامتی کونسل کا اجلاس جاری تھا ان لمحات میں بھی نئی دہلی سے یہ بیانات داغے جاتے رہے کہ آرٹیکل تین سو ستر بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے اور اندرونی مسئلہ رہے گا، بھارتی داداگیریوں کو نظر انداز کرنا اس شک کی تصدیق کرتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست کو جو کچھ ہوا، اس کے لئے نریندر مودی کو نام نہاد عالمی منصفوں کی آشیرباد حاصل تھی، ورنہ کیسے ممکن ہے کہ مودی ڈھنڈورہ پیٹتا پھرے کہ جو کام بھارت کی ساری سابقہ حکومتیں بہتر سالوں میں نہ کر سکیں اس نے بہتر دنوں میں کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭٭٭ نریندر مودی کھلی دھمکیاں دے رہا ہے کہ اب اس کا اگلا نشانہ آزاد کشمیر ہے، بھارت لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے، پاکستانیوں کو ٹارگٹ اور فوجیوں کو شہید کرنے کے پے در پے دو واقعات سامنے آ چکے ہیں، کیا اقوام متحدہ کی آنکھ اس وقت کھلے گی جب پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے گا؟ کیا پانچ بڑے اندر خانے خطے کی تباہی کا منصوبہ تو نہیں بنا چکے؟ اگر انیس سو سنتالیس میں سلامتی کونسل کے حکم پر بھارت نے سری نگر سے اپنی اضافی فوج نکال لی تھی تو آج بھارت کو کیوں حکم نہیں دیا جا رہا کہ وہ فوری طور پر مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی پوزیشن کو پانچ اگست والی سطح پر واپس لائے، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل پہلے ہی مشکوک ادارے کہلاتے ہیں، بھارت کو کشمیریوں پر بربریت کا لائسنس دے کر ان اداروں نے اپنی رہی سہی ساکھ بھی ختم کرلی ہے ٭٭٭٭٭ سامراج اور اس کے’’مستقل دوستوں‘‘ کا ذکر تو ہم نے خوب کر لیا اب کچھ بات اپنوں کی بھی ہوجائے، اپنے جو خود اپنے بھی دشمن دکھائی دیتے ہیں۔۔۔۔۔ اقوام عالم کی طرح ایک تنظیم مسلمان ممالک کی بھی ہے، او آئی سی،،(آرگنائزیشن آف اسلامک کو پریشن) تنظیم تعاون اسلامی، اس میں دنیا کے ستاون مسلمان یا مسلم اکثریت والے ممالک شامل ہیں، دنیا کے ایک ارب بیس کروڑ سے زیادہ مسلمان او آئی سی کو اپنے مفادات کی نگہبان تصور کرتے ہیں، بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو قیدی بنائے جانے کے گیارہ دن بعد اس تنظیم کی جانب سے ایک بیان جاری ہوا ہے جس میں نریندر مودی سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ سری نگر سے کرفیو ہٹایا جائے، یہ ہے عالم اسلام کی سب سے بڑی تنظیم کا حال، او آئی سی کا ماضی بھی حال کی طرح ’’بہت تابناک‘‘ رہا ہے، افسوس کہ یہ تنظیم ایک تجارتی ادارے کی شکل اختیار کر چکی ہے، صرف سال میں ایک بار اسلامی ملکوں کے وزراء خارجہ کا اجلاس بلوا لیا جاتا ہے، فوٹو سیشن ہوتا ہے، خبریں چھپ جاتی ہیں، باہمی میل ملاقاتیں ہوتی ہیں، اللہ اللہ خیر صلہ۔۔۔۔۔۔او آئی سی کا مستقل دفتر اس وقت جدہ میں قائم ہے اور وہیں کا ایک شخص پچھلے پانچ سال سے اس عالمگیر اسلامی تعاون تنظیم کا سیکرٹری چلا آ رہا ہے سن انیس سو پچاسی سے انیس سو اٹھاسی تک ہمارے شریف الدین پیرزادہ نے بھی اس تنظیم کے سیکرٹری کے طور پر فرائض انجام دیے تھے، پچھلی تین دہائیوں سے مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے، مسلمان ملکوں کی تاریخ پر مٹی ڈالی جا رہی ہے اورجن ستاون مسلمان ملکوں پر مشتمل یہ تنظیم ہے انہی میں سے کئی ممالک ایسے بھی ہیں جنہیں ان کے انجام تک پہنچا دیا گیا ہے اور کئی رکن ممالک کو انجام کے قریب لیجایا جا چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔