92سالہ ضعیف العمر‘مختلف جسمانی عوارض کے شکار نحیف و ناتواں سید علی گیلانی کی طبعی موت پر برصغیر پاک و ہند میں سوگ کی کیفیت‘بھارتی حکومت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعینات سات لاکھ فوج کی بدحواسی و درندگی سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ دلیر اور نڈر انسان پہاڑی کا چراغ ہے ۔اپنوں کی عقیدت و محبت کا مرکز اور بیگانوں کے دل و دماغ کی چبھن‘اپنے ایسے فرد فریدکی عزت کرتے اور بیگانے خوف کھاتے ہیں‘موجودہ صدی میں قائد اعظم‘ہوچی منہ‘آیت اللہ خمینی‘نیلسن منڈیلا‘ملا محمد عمر کے بعد سید علی گیلانی نے ثابت کیا کہ بزدل اور خوفزدہ لوگ دھرتی کا بوجھ ہیں ‘تاریخ میں کوڑے دان کی زینت بننے کے قابل ‘جبکہ بہادر اورجری صرف یاد رکھے جانے کے مستحق۔ افغانستان کو سپر پاور کا قبرستان تاریخ دانوں نے قرار دیا اور افغان سرزمین کے بہادر سپوتوں نے ایک صدی کے دوران تین سپر پاورز کو کلمہ لا الہ الا اللہ کی قوت ‘حریت و استقامت قومی غیرت کے بل بوتے پر پسپا کر کے اقوام عالم کو یہ باور کرایا کہ طاقت حق نہیں‘حق ہی طاقت ہے‘ ناقابل تسخیر‘ ناقابل زوال۔سید علی گیلانی اپنی زندگی میں جموں و کشمیر کی آزادی کا سورج طلوع ہوتے نہ دیکھ سکے‘جس کا اس مرد جری کو یقینا قلق ہو گا‘آزاد افغانستان کے کوہ و بیاباں میں گونجنے والا نعرہ مستانہ البتہ انہوں نے جیتے جی اپنے کانوں سے سنا ؎ افغان باقی‘کہسار باقی الحکم للہ‘الملک للہ زمانہ قدیم سے دو فلسفہ ہائے حیات انسانی سماج میں کارفرما رہے‘ ایک گروہ کا مطمح نظر اپنے حق ‘ عزت و وقار اور صادق نظرئیے کی حفاظت کے لئے ڈٹ جانا ‘ مرمٹنا یا فتح یاب ہونا اور دوسرے ہجوم کا مقصد حیات طاقت کے روبرو سجدہ ریز ہو کر اقتدار و مراعات کے مزے لوٹنا‘ابراہیمؑ و نمرود‘موسیٰ ؑو فرعون کی کشمکش ‘چراغ مصطفویؐ اور شرار بولہبی کے مابین چپقلش اور حسینؓ و یزید کی باہم معرکہ آرائی اسی فلسفے کے مظاہر ہیں اور حالیہ تاریخ میں آیت اللہ خمینی کی شاہ ایران رضا شاہ پہلوی‘بے سروسامان ملا محمد عمر کی بش جونیئر اور سید علی گیلانی کی جواہر لال نہرو سے نریندر مودی تک ہر بھارتی حکمران ‘سات لاکھ بھارتی فوج کے خلاف صف آرائی اس کا قابل فخر تسلسل‘بجا کہ معلوم تاریخ میں ایک طبقہ اس اُصول پر کاربند رہا۔ When rape is inavitable just relax and enjoy' it اس نے رُخصت اور آسانی‘عملیت پسندی کا راستہ چنا اور عزت و حمیّت کو مادی نفع و نقصان کے ترازو میں تولا‘چند روزہ فائدے کا سوچا‘ہر طاقتور کے سامنے سر جھکایا اور من کی مراد پائی‘ایک لحاظ سے فائدے میں رہے‘ مگر گھاٹے میں عزیمت اور صعوبت کی راہ پر چلنے والے بھی نہیں رہے ؎ نہ یزید کا وہ ستم رہا نہ زیاد کی وہ جفارہی جو رہا تو نام حسینؓ کا جسے زندہ رکھتی ہے کربلا زندہ آیت اللہ خمینی ہے نہ شاہ ایران رضا شاہ پہلوی ‘دونوں اپنے نیک و بد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گئے۔ آخری زندگی میں رضا شاہ پر جو بیتی کیا وہی’’طاقت حق ہے‘‘ کے فلسفے کا بطلان نہیں۔ بش جونیئر سے لے کر بائیڈن اور حامد کرزئی سے اشرف غنی تک ان دنوں امریکہ و برطانیہ کے غیر جانبدارمورخین‘محققین ‘مصنفین ‘تجزیہ کاروں اور دانشوروں کے روبرو کٹہرے میں کھڑے ہیں جبکہ امریکہ‘یورپ’ افغانستان اور پاکستان کی جیلوں میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے ملا عبدالغنی برادر‘ملا عبدالسلام ضعیف‘ملا عبدالقیوم ذاکر اور دیگر مظلوم حق پرست اپنی قوم اور عالمی برادری سے داد و تحسین وصول کرنے میں مگن۔افغانستان میں معرکہ حق و باطل برپا ہوا تو ساری عالمی برادری بش کی پشت پر تھی‘افغان قوم کے کم و بیش سبھی دانا اور عملیت پسند بھی‘ملا محمد عمر کا زاد راہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین‘جذبہ جہاد اور حق پرستوں کی مختصر جمعیت کے سوا کیا تھا؟آج مگر نظریہ حیات کی خاطر موت سے نہ ڈرنے والے سرخرو ہیں اور دنیوی راحت و لذت کے دلدادہ نادم و شرمسار‘تین لاکھ کی نمائشی فوج ستر پچھہتر ہزار گوریلوں کے مقابل یوں تحلیل ہوئی جیسے پانی میں بتاشہ۔ افغان نیشنل آرمی سے یاد آیا کہ جنگ عظیم کے دوران انگریز حکومت نے نواب صاحب بہاولپور سے فرمائش کی کہ وہ ایک فوجی دستے کو اتحادی فوج کا حصہ بنائیں کہ دیگر ابنائے وطن کے ساتھ ان کا نام بھی فاتحین میں لکھا جائے‘ایک نمائشی دستہ جس کا کام بینڈ کی دھن پر نواب صاحب اور ان کے انگریز مہمانوں کو سلامی دینا اور سارا سال ڈیرہ نواب صاحب کی گرمی میں شیشم کے درختوں کی چھائوں میں آرام کرنا تھا‘ دوسرے مسلح جتھے کے ساتھ محاذ جنگ پر روانہ کر دیا گیا۔نوابی سہولتوں کی عادی یہ بے چاری فوج لڑنے کے قابل ہوتی تو ریاست بہاولپور انگریزوں سے قبل لاہور کے سکھ حکمرانوں کی باجگزار نہ رہتی‘ محاذ جنگ پر پہنچتے ہی یہ بے چارے پہلی گولی چلنے سے قبل ملایا میں قید ہو گئے ‘بہاولپور کے ایک شاعر نے ان مظلوم قیدیوں کی حالت زار یوں بیان کی ؎ کھڑی ڈیندی ہاں سنیہڑے انہاں لوکاں کو اللہ آن وساوے ساڈیاں جھوکاں کوں پیر پیغمبرا‘سلطان سکندرا میں مر گئی‘وے میں مر گئی توں کجھ تے ڈسا انہاں لوکاں کوں اللہ آن وساوے ساڈیاں جھوکاں کوں چھڑن منجھیاں‘رِنگن کٹیاں چھاٹاں پلاواں‘چھاٹاں پلاواں ہائے ترس نئی آنداں انہاں لوکاں کوں اللہ آن وساوے ساڈیاں جھوکاں کوں کونجاں وانگوں ونیڑ ولاواں اللہ ہنڑمیڈا‘اللہ ہنڑ میڈا ہائے کیا میں ڈساواں اناں لوکاں کوں اللہ آن وساوے ساڈیاں جھوکاں کوں کینکوں جانی‘ڈکھ سنڑاواں کوئی نئی میڈا وے کوئی نئی میڈا ہائے کیویں ڈیواں دھاں انہاں لوکاں کوں اللہ آن و ساوے ساڈیاں جھوکاں کوں نواب صاحب اس منظوم فریادسے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنی فوج کی دھن بنوائی جو ریاست کے پاکستان کے ساتھ ادغام تک فوجی تقریبات میں گائی اور بجائی جاتی تھی۔ جو ریاست اور معاشرہ طاقت کے سامنے جھکنے اور شکم پروری کی خاطر نظرئیے‘اُصول‘ اخلاق اور مقصد قربان کرنے پر تل جائے وہ بالآخر ایسی دھن پر سردھنتا اور آنسو بہاتا ہے: کھڑی ‘ڈیندی ہاں سنیہڑے انہاں لوکاں کوں اللہ آن وساوے ساڈیاں جھوکاں کوں