خیر سے ہم وہ ہو گئے ہیں جن سے یہ مقولۂ زریں منسوب ہے کہ ہم آپ کے ہاں آئیں گے آپ ہمیں کیا دیں گے اور اگر ہم آپ کو بلائیں تو آپ ہمارے لئے کیا لائیں گے۔ سارے جگ میں شہرت ہو گئی اور ابھی تھمی کہاں ہے‘ ہوئے جا رہی ہے۔ خیر ‘ یہ تو جملہ تمہید یہ تھا‘ آمدم برسر مطلب کہ خبر یہ ہے کہ اس ہفتے زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید دو ارب ڈالر کی کمی ہو گئی ہے۔ ایک معاصر کی اطلاع ہے کہ سعودیہ نے جتنی رقم دی تھی‘ وہ اس انتباہ کے باوجود کہ خبردار‘ خرچ مت کرنا‘ بس سنبھال کر رکھنا‘ ساری کی ساری خرچ ہو گئی ہے اور ماہرین کے مطابق ذخائرمیں بس ڈیڑھ ماہ تک کفایت کرنے کے لئے ہی رقم بچی ہے۔ یہ بھی خرچ ہو گئی تو کیا ہو گا؟ شاید ہمارا وفد پھر کابل کے دورے پر جائے۔ سنا ہے‘ اشرف غنی خاصے کنجوس واقع ہوئے ہیں لیکن وفد بھی کچھ لئے بغیر کہاں پلٹے گا۔ ادھر ایک باخبر ذریعہ’’کہ نام ان کا ڈاکٹر فرخ سلیم ہے‘ فرماتا ہے کہ سعودی عرب سے ملنے والے ایک ارب ڈالر محض پندرہ دن میں صاف ہو گئے۔ پورس بارڈر(شگاف زدہ سرحد) کا تو سنا تھا‘ یہ پورس ریزرو کا اب پہلی بار سن رہے ہیں۔ شگاف کو اگر عربی لفظ مان لیا جائے(بالجبر) تو پورس کا ترجمہ ہو گا۔ ’’مشگف‘‘ اور یوں ایک نئی اصطلاح ’’مشگف ذخائر‘‘ کی سامنے آگئی۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ حکومت پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ قرضے لے رہی ہے۔ اتنی رقم کہاں جا رہی ہے۔ ماضی کی حکومتیں قرضے لیتی تھیں تو منصوبوں پر خرچ کرتی تھیں کہیں موٹر ویز بن رہے ہوتے تھے تو کہیں ہسپتال‘ کہیں سڑکیں تو کہیں بجلی گھر‘ کہیں پل تو کہیں ہسپتال۔ اس حکومت نے پانچ ماہ کی مدت میں آدھی اینٹ بھی کہیں نہیں لگائی۔ بلکہ پہلے سے لگی بھی اکھاڑ رہی ہے۔ پھر یہ رقم کس’’بلیک ہول‘‘ میں جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ بلیک ہول کائنات کے ان شگافوں کو کہتے ہیں جہاں اردگرد سے ہر نوع کا مادہ کھینچ کھینچ کر غائب ہو جاتا ہے اور کوئی سراغ بھی نہیں رہتا۔ یہ دولت آخر جا کہاں رہی ہے؟ ٭٭٭٭٭ اسی شگافیات کا ایک شاخسانہ اس رپورٹ میں بھی جھلکتا ہے جو عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی نے دی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ پاکستان کی معاشی حالت خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد کم ہو رہاہے‘ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ رپورٹ میں دیگر معاملات کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی ساکھ تیزی سے گر رہی ہے۔ ساکھ وغیرہ کا تو خیر کوئی مسئلہ نہیں‘ لیکن باقی امور پر نگاہ تشویش دوڑانے کی ضرورت ہے۔ مثلاً یہ کہ معاشی حالات خطرناک ہوتے چلے گئے تو مہنگائی کی شرح میں کتنا اضافہ ہو گا۔ ٭٭٭٭٭ ریاست مدینہ سے یاد آیا‘ پچھلے ہفتے پیپلز پارٹی بہت برہم تھی۔ اس کی ترجمان نفیسہ شاہ نے کہا کہ عمران خاں حکومت ریاست مدینہ نہیں‘ ریاست اسرائیل بنا رہی ہے جہاں پاکستانیوں سے فلسطینیوں کے جیسا سلوک ہو رہا ہے۔ عام حالات میں کوئی بھی اپوزیشن کسی بھی حکومت کو ایسا طعنہ دیتی تو وہ بری طرح ناراض ہوتی اور سخت جواب دیتی لیکن تحریک انصاف تو لگتا ہے ‘ بس مسکرا کر رہ گئی۔ دراصل ایک ’’تبدیلی‘‘ اس معاملے میں بھی آ گئی ہے۔ ممکن ہے حکومت نے اسے خراج مذمت کے بجائے خراج تحسین سمجھا ہو اور خوش ہوئی ہو۔ صورت حالات کچھ ایسی ہی ہے۔ کیا خیال ہے۔ ٭٭٭٭٭ ویسے اسرائیل کی خوش قسمتی پر غور کریں‘ وہ دنیا کا واحد ملک ہے جس کا پوری دنیا میں‘ سوائے ایک چھوٹے سے گروہ کو جسے فلسطینی کہتے ہیں‘کوئی دشمن نہیں۔ چار پانچ عشرے پہلے تک پوری مسلم دنیا اس کی دشمن تھی‘ آج پوری مسلم دنیا اس سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہی ہے۔ کچھ دوستی فرنٹ ڈور سے ہے ’ کچھ بیک ڈور سے۔ دوستی میں دونوں ڈور چل جاتے ہیں۔ اسرائیل فلسطین دشمنی ہزاروں سال سے ہے جب یہودیوں کے دو اور فلسطینیوں کا ایک ملک ایک ہی‘ اس خطے میں تھے۔ اسرائیل‘ یہوداہ اور فلسطین۔ اب یہوداہ کا ملک تو اسرائیل میں ضم ہے‘ فلسطینیوں کا ملک آدھا اسرائیل کے قبضے ہے‘ آدھے کو ہر چند آزاد کہیں پر وہ نہیں ہے۔ اسرائیل کے سارے دوست ہیں‘ فلسطینیوں کا ایک بھی نہیں۔ ٭٭٭٭٭ وزیر ریلوے شیخ جی نے انکشاف کیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے معشوق ہیں‘ اللہ انہیں پسند کرتا ہے۔ اس انکشاف کی بنیاد لازماً کوئی الہام ہو گا۔ اب پتہ نہیں‘ یہ الہام انہیں براہ راست ہوا یا بنی گالہ کے توسط سے موصول ہوا۔ کچھ عجب نہیں چند روز تک شیخ جی کی طرف سے کوئی اور الہام بھی سامنے آ جائے۔ لگتا ہے شیخ جی اپنے گرو جی (حالیہ) سے متاثر ہیں۔ وہ ماضی میں دو سے زیادہ بار اپنا ’’موازنہ‘‘ کر چکے ہیں جس پر مذہبی حلقے چیں بچیں بھی ہوئے تھے لیکن پھر بات آئی گئی ہو گئی۔ ان موازنوں کے بعد انہوں نے اپنی گھر والی کو مولانا روم اور ابن عربی سے کہیں زیادہ علم والی قرار دیا۔ کہیں زیادہ کے الفاظ انہوں نے ہاتھ لہرا کر ادا کئے تھے۔ چنانچہ شیخ جی نے سوچا ہو گا۔ گرو جی کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ میں بھی کیوں پیچھے رہوں۔ ٭٭٭٭٭ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں کم یاب پرندوں کے شکار میں دو گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ بااثر سیاسی حضرات شکار کرتے ہیں اور انہیں روکنے والے افسروں کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔ ایک سیاسی صاحب قصور گئے‘ غیر قانونی شکار کیا۔ انہیں ٹوکنے والے عاصم کامران کو اٹھا کر راجن پور پھینک دیا گیا۔ صاحبوں کو معلوم ہو کہ خاں صاحب کھلاڑی ہی نہیں‘ شکاری بھی ہیں۔ جنگلات میں طیور بے نوا کا شکار کرتے۔ ان کے کئی ویڈیو کلپ نیٹ پر موجود ہیں۔ اور تو اور‘ وہ باڑوں میں بند دیسی مرغیوں کے شکار کا شوق بھی رکھتے ہیں۔ چنانچہ اب تو یہی ہو گا۔