مولانا فضل الرحمان نے اپنے دھرنوں سے کیا کھویا؟ کیا پایا؟اب نواز شریف واپس لوٹیں گے یا نہیں؟وہ رعایت جو میاں کوملی؛ کیا وہ رعایت زرداری کو مل پائے گی؟تحریک انصاف کی حکومت کی نئی حکمت عملی کیا ہوگی؟کیا مریم نواز اپنی خاموشی کو ختم کریں گی؟کیا بلاول بھٹو زرداری حکومت کے لیے مشکلات پیدا کریں گے؟کیا وہ مشکلات پیدا کرنے کے ہنر سے آگاہ ہیں؟کیا عوامی نیشنل پارٹی دوسرا جنم لے سکے گی؟کیا بلوچستان کے بطن میں ایک نیا بحران جنم لے رہا ہے؟کیا کشمیر پر کڑک پالیسی منظر عام پر آئے گی؟کیا الطاف حسین اپنی تباہ شدہ کشتی پر بھارت کے ساحل پر لنگر انداز ہو سکیں گے؟ ایسے اور بھی کئی سوالات ہیں جو آپ کی طرح میرے ذہن میں بھی گردش کر رہے ہیں۔ مگر اس بحران کے دور میں لاہور کی سرد ہوتی فضاؤں میں فیض میلے نے جو گرمی پیدا کی ہے۔ اس گرمی سے یہ موم جیسے سوالات پگھل رہے ہیں ۔ فیض احمد فیض کے اشعار تحرک اور توانائی کا سبب بن کر ابھی تک میرے دل میں سلگ رہے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کیا وہ خواب کبھی تعبیر کا پیراہن پہن سکیں گے؟ ’’لوگ مرجاتے ہیں مگر ان کے خواب نہیں مرتے‘‘ یہ الفاظ میرے ذہن میں پوری شدت کے ساتھ ابھر آئے ہیں۔ یہ الفاظ قرۃ العین حیدر کے ایک کردار نے کتنے یقین سے کہے تھے۔ وہ یقین کا دور تھا۔ ہم مسلسل بے یقینی کی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ایک ملک اور ایک ناول میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ ناول کے خالق کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کون ساکردار کہاں تک چلے گا؟ کون سا کردار راستے میں رک جائے گا؟ کون سا کردار اچانک ناول کی کہانی میں گم ہوجائے گا؟ مگریہاں تو کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ کون سی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور کون سی حکومت کا سرکاری سفر ادھورا رہ جائے گا؟ اس قدر بے یقینی اور اس قدر تجسس سے بھرے ہوئے ماحول میں ملک کس طرح ترقی کرے گا؟ حکمران جب اپنے کیے ہوئے وعدے بھول جاتے ہیں تو پھر ملکی سیاست میں اعتماد کافقدان پیدا ہوجاتا ہے۔ ہمارے ملک اور معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ بے اعتمادی ہے۔ ہم ایک ہونے کی بات کرتے ہیں مگر ایک نہیں ہوتے۔ ہمیں محبت ایک نہیں کرتی۔ ہم مفادات کے تحت ایک ہوجاتے ہیں۔ جب مفادات بدل جاتے ہیں تو ہم بھی اپنا رخ پھیر لیتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم قوم سے محبت کے دعوے تو کرتے ہیں مگر قربانی نہیں دیتے۔ ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں مگر اپنے اندر میں ہم فاشسٹ رویوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہم قوم کے لیے قربانیاں گنواتے ہیں مگر قوم کے بچے سرکاری ہسپتالوں کے دروازوں پر پیدا بھی ہوتے ہیں اور مر بھی جاتے ہیں مگر قوم کے محسن ہوائی ایمبولنس میں اڑ کر اپنا چیک اپ کرواتے ہیں۔ وہ جب بہت مہنگا علاج کروانے کے بعد واپس لوٹ آتے ہیں تو ہم انہیں ملک میں موجود مسائل اور ماحول میں موجود بے یقینی کی باتیں بتانے کے بجائے ان کی آمد میں ناچتے ہیں؛ نعرے مارتے ہیں اور ان پر پھول نچھاور کرتے ہیں۔ ہم ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جیسا سرحد سے فتحیاب ہوکر لوٹنے والے سپہ سالار سے کیا جاتا ہے۔ حالانکہ کشمیر کی خاموشی ہمیں طعنے دے رہی ہے۔ حالات کا بدلنا آسان نہیں ہوتا۔ ہم ہر ستم پر اپنے ہونٹ سی کر رکھتے ہیں۔ کشمیر کو اوپن ایئر جیل میں تبدیل کیا گیا ہے مگر ہم خاموش ہیں۔ بابری مسجد پر نا انصافی کی بجلی گرادی گئی ہے مگر ہم خاموش ہیں۔ جب خاموشی شدید ہوجاتی ہے تب ماحول میں تبدیلی کی تمنا مچلنے لگتی ہے۔ فیض امن میلے کے موقعے پر جن طالب علموں اور جن طالبات نے فیض کے گیتوں پر رقص کیا اور انہوں نے آرٹ کے انداز میں فیض سے اپنی محبت کااظہار کیا ؛ ان اعمال میں ایک نئے دور کی نوید تھی۔ فیض میلے کی وڈیوز دیکھ کر مجھے قرۃ العین حیدر کے ایک کردار کے یہ الفاظ یاد آگئے کہ ’’لوگ مرجاتے ہیں مگر ان کے خواب نہیں مرتے‘‘ فیض صاحب بظاہر تو انسان تھے مگر اصل میں وہ ایک خواب تھے۔انسان تو مٹی سے بنا ہے اور مٹی میں جاکر اس کو مٹی ہونا ہے مگر خواب مٹی سے نہیں بنتے۔ اس لیے خواب لافانی ہوتے ہیں۔ خواب ایسے مسافر ہوتے ہیں جو تب تک چلتے رہتے ہیں جب تک منزل نہ آجائے۔ فیض کے خواب بھی منزل کے راستے پر رواں دواں ہیں۔ انسان گھر بناتے ہیں۔بچے پیدا کرتے ہیں۔ بچے بڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے گھر بناتے ہیں اور اپنے رشتوں میں الجھ جاتے ہیں۔ زندگی ’’آگ کا دریا‘‘ جیسے ناول کا پلاٹ نہیں تو اور کیا ہے؟ہم بار بار جنم لیتے ہیں اور بار بار مرجاتے ہیں۔ مگر چلتے رہتے ہیں۔ ہم کب تک چلیں گے؟ اس سوال پر میں نے بہت غور کیا ہے مگر جواب سمجھ میں نہیں آ رہا۔ فیض میلہ کے بارے میں جب ملک کی بھولی بسری گلوکارہ نیرہ نور سے ایک صحافی نے پوچھا تب اس نے بڑے دکھ سے کہا کہ اب وقت بہت تبدیل ہوگیا ہے۔ کیا وقت تبدیل ہوگیا ہے؟ یا ہم تبدیل ہوگئے ہیں؟ فیض کی شاعری تو تبدیل نہیں ہوئی۔ فیض کے خواب تو تبدیل نہیں ہوئے۔ خواب سیاسی نعرے نہیں کہ تبدیل ہوجائیں۔سیاستدان تو وہ مخلوق ہیں جو شاعروں کو بھی اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اب شہباز شریف ایسی حرکتوں سے کسی حد تک باز آگیا ہے جب وہ بھٹو بننے کے شوق میں ڈائس پر موجود مائیک گرانے کی شعوری کوشش کرتا تھا۔ جب وہ حبیب جالب کے اشعار پڑھتا تھا۔ کیا غیر جمہوری اور مفاد پرست لیڈروں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انقلابی شاعروں کا کلام پڑھیں؟ ہم اس بارے میں جو بات کریں گے وہ غیر جمہوری کہی جائے گی۔ حالانکہ جمہوریت کے بھی آداب ہوتے ہیں۔سندھ کے بہت بڑے شاعر شیخ ایاز نے لکھا ہے ’’سیکریٹریٹ میں ایک بیوروکریٹ فیض احمد فیض کے یہ اشعار گنگنا رہا ہے: پیو کہ مفت لگادی ہے خون دل کی کشید گراں ہے اب کہ مۂ لالہ فام کہتے ہیں شیخ ایاز نے اس نثری نظم میں یہ بھی لکھا ہے کہ فیض نے تو اپنی شاعری محنت کش طبقات کے لیے لکھی تھی۔ عوام کا خون چوسنے والا بیوروکریٹ فیض کے انقلابی اشعار کس طرح گنگنا سکتا ہے؟ ایک بار کسی انٹرویو میں قرۃ العین حیدر نے کہا تھا کہ پاکستان میں پبلشر میری کتابوں کی رائلٹی تو دور مجھ سے اشاعت کی اجازت تک نہیں مانگتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ میری کتاب ’’آگ کا دریا‘‘ اور فیض احمد فیض کی شاعری سب سے زیادہ چھپی اور پڑھی گئی ہے۔ فیض احمد فیض کے حوالے سے نیرہ نور کی ’’کھوکھلے دور‘‘ کی بات سن کر مجھے اچانک قرۃ العین حیدر کا ناول ’’آگ کیا دریا‘‘ یاد آگیا۔ اس ناول کی ابتدا میں قرۃ العین حیدر نے مشہور انگریز شاعر ٹی ایس ایلیٹ کی نظم Hollow Men کا ترجمہ لکھا تھا۔اس نظم کو یاد کرکے مجھے بہت افسوس ہوا۔ اس افسوس میں میں نے نیرہ نور کی بات درست ہے۔ ہم واقعی کھوکھلے دور میں جی رہے ہیں۔ مگر یہ دور کھوکھلا کیوں ہے؟ یہ دور کھوکھلا اس لیے ہے کہ اس دور کے سیاسی رہنما کھوکھلے ہیں۔ ان کے اندر ایک خلا ہے۔ اس خلا میں وہ خود بھی بھٹک رہے ہیں اور اس ملک کو بھی بھٹکا رہے ہیں۔ تبدیلی کب آئے گی؟ کیا صرف تمنا سے تبدیلی آسکتی ہے؟ اس بارے میں فیض احمد فیض نے کتنی خوبصورت بات کی ہے ’’یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں‘‘