10اگست بروز ہفتہ میں یہ کالم لکھ رہی ہوں ٹھیک ایک روز کے بعد 12اگست کو عیدالضحیٰ ہو گی۔ عید کی آمد پر اس کی تیاریاں ہر گھر میں اپنی اپنی بساط اور معاشی حیثیت کے مطابق ہو رہی ہیں بلا شبہ عید خوشیوں کا تہوار ہے۔ اپنوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا تہوار ہے۔ لیکن عید کی خوشیوں کے ان لمحات میں کشمیری مسلمانوں پر ٹوٹی ہوئی قیامت نے احساسات میں عجیب سی بے چینی اور ملال پیدا کر دیا ہے۔ بلکہ ملال کی کیفیت بھی کچھ احساس جرم والی ہے۔ ایک طرف کشمیری نوجوان پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے پر فخر سے گولیاں کھاتے ہیں۔ پاکستان کے نام پر شہید ہوتے ہیں‘ مائیں اپنے جوان بیٹوںکے لاشے پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کرتی ہیں اور دوسری طرف پاکستان کا افسوسناک رویہ ہے۔ کشمیر کے ایشو کو نظر انداز کرنا‘ سیاست کی نذر کرنا۔ منہ سے کہنا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور عملی طور پر اس ایشو کو بھلائے رکھنا تاوقتیکہ کبھی کشمیر کی سرزمین پر ہونے والا کوئی نہ کوئی سانحہ یا المیہ تحریک آزادی کشمیر کو عالمی خبروں کا موضوع بنا دے تو پاکستان کو بھی غفلت کی نیند سے بیدار ہونا پڑتا ہے اور پھر پاکستان کے داخلی امن کا انحصار بھی تو اسی بات پر ہے کہ کشمیر کا ایشو کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل ہو۔ پاکستان نے کشمیر کے ایشو پر کبھی کامیاب سفارت کاری نہیں کی۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ کشمیر جسے ہم نعروں اور تقریروں میں پاکستان کی شہ رگ کہتے ہیں اس کے ساتھ سلوک یہ ہوا کہ کشمیر کمیٹی کی سربراہی مولانا فضل الرحمن کو سیاسی رشوت کے طور پر پیش کر دی گئی۔ورنہ مولانا فضل الرحمن کا کشمیر کے ایشو سے کیا تعلق۔ ان کی خواہش کی اڑان تو بس یہیں تک ہے کہ ہر حکومت میں ان کی حصہ داری ہو تاکہ مفادات کا تحفظ بھی ہوتا رہے اور مالی مفادات میں بڑھاوا بھی۔ نہ ان کو انگریزی زبان پر عبور تھا کہ کشمیریوں کے موقف کو دنیا کے سامنے بہتر انداز میں پیش کر سکیں۔ اس وقت فخر امام کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ لیکن حقائق یہی ہیں کہ بس کاغذی کارروائی پر ہی کشمیر کمیٹی کشمیر کی خدمت کر رہی ہے۔ عملی طور پر کچھ بھی ایسا نہیں کہ کشمیریوں کو اس کا فائدہ ہو۔ میری رائے میں کشمیر کا ایشو اس بات کا متقاضی ہے کہ کشمیر کمیٹی کو ازسر نو تشکیل دیا جائے۔ اس کے ممبران اور چیئرمین کا تقرر اس بنیاد پر ہو کہ وہ کشمیر ایشو پر کتنی اتھارٹی رکھتے ہیں۔ انگریزی زبان بولنا اور لکھنا دونوں پر عبور ہو اور مکالمے کی صلاحیت سے مالا مال ہوں۔ کشمیر کمیٹی کا اصل کام یہ ہو کہ دنیابھر میں اپنے وفود لے کر جائے اور کشمیریوں کے اور پاکستان کے موقف کو دنیا کے سامنے پیش کرے۔ ہماری کوتاہی اور کم فہمی ہے کہ بھارت جس انداز میں دنیا کے سامنے اپنے ظلم دھونس اور دھاندلی کا پروپیگنڈا اپنے حق میں کرتا ہے پاکستان اس میدان میں بہت پیچھے ہے۔ کشمیر کمیٹی کے ذمہ یہ بھی کام ہونا چاہیے کہ چائنا‘ روس‘ امریکہ‘ برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک میں موجود بااثر پاکستانیوں کے ساتھ رابطہ کر کے انہیں بھی متحرک کرے کہ وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے ہر فورم پر کشمیر کے ایشو کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے رکھیں۔ کشمیر کے ایشو کو اجاگر کرنے‘ وہاں ہونے ولے ظلم و استبداد کی اصل تصویر دنیا کو دکھانے کے لئے کام کرنے کی ضرورت پاکستان کے اندر نہیں بلکہ پاکستان سے باہر ہے۔ عالمی منظر نامے پر رائے عامہ ہموار کرنے کی ضرورت جتنی اب ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ شاید تحریک آزادی کشمیر کے اس اہم اور نازک موڑ پر بھی ہم روایتی غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ صرف نعروں‘ ریلیوں جلسوں جلوسوں اور جذباتی تقریروں سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں حصہ ڈالنے کی کوشش ان کی عظیم قربانیوں کے ساتھ کسی مذاق سے کم نہیں۔ انٹرنیٹ کھولیں‘ کشمیر کے ایشو کو گوگل کریں تو آپ کو 100آرٹیکل میں 99آرٹیکل ایسے ملیں گے جس میں بھارتی تجزیہ کاروں نے انڈیا کے موقف کو پوری شدت اور حقیقت کے ساتھ سپورٹ کیا ہے۔ بمشکل تمام ایک لولا لنگڑا سا مضمون آپ کو ایسا بھی مل جائے گا جس میں انگریزی زبان میں پاکستانی موقف کی وضاحت کی گئی ہو۔آج صبح میں نے انٹر نیٹ پر بے شمار ایسے مضامین دیکھے اور چیدہ چیدہ پڑھے بھی جس میں مودوی سرکار کے صدارتی فرمان کو سراہا گیا اور دنیا کو اس حوالے سے قائل کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ سب کچھ عین قانون کے دائرے میں رہ کر ہوا ہے۔انہی مضامین میں پاکستان کی دگرگوں معاشی حالت سیاسی بنیادوں پر احتساب حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مضحکہ خیز محاذ آرائی کشمیر کے ایشو پر غیر سنجیدہ رویے کی کھل کر تضحیک کی گئی۔ ہم خود لاکھ تنقید کرتے رہیں لیکن دشمن کی زبان سے اپنے سیاسی و معاشی حالات پر طنز اور تضحیک آمیز حملے سچ مچ خون کھولا دیتے ہیں۔ اس وقت شدت سے احساس ہوا کہ پروپیگنڈا محاذ پر بھی بھارت پاکستان کو شکست دے رہا ہے اور اہل اختیار و اہل اقتدار کو حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں۔ کاغذ کی نائو بپھرے ہوئے پانیوں کے بیچ اس پے رخ ہوا کا اسے بھی پتہ تو ہے! لیکن شاید اہل اختیار کو ہوا کے رخ کا اندازہ نہیں ہے یہی ہمارا المیہ ہے اور یہی مظلوم کشمیریوں کی بدقسمتی کہ وہ آزادی کے حسین خواب کو لہو سے سینچ رہے ہیںہم اس کی تعبیر کے لئے صرف جذباتی اور کھوکھلے نعرے لگانے پر اکتفا کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے محاذ پر بھی پوری ایک ٹیم ہونی چاہیے جو انٹرنیٹ پر موجود ایسے تمام زہریلے‘ یک طرفہ بھارتی موقف کا بہ زبان انگریزی تاریخی حوالوں اور دلیل کے ساتھ جو اب دینے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ فی الحال تو ہم ویڈیو کمپین کو فارورڈ کرنے پر اکتفا کئے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں ایک تھنک ٹینک صرف کشمیر کے ایشو پر بنایا جائے اور اس کا یہ کام ہو کہ مختلف انگریزی ویب سائنس کے لئے ایسے آرٹیکل لکھے جن میں کشمیریوں کے حقیقی موقف کو دنیا کے سامنے لایا جائے اور دنیا کے مختلف فورمز پر اس ایشو پر سیمینار کروائے جائیں رائے عامہ بنانے اور ہموار کرنے والے عالمی اداروں سے منسلک صحافیوں اورریسرچرز کے ساتھ رابطہ کیا جائے اور ان تک کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے المیے کی اصل تصویر حقائق اور دلائل کے ذریعے پہنچائی جائے۔ انڈیا کے زہریلے پروپیگنڈا کا جواب دینے کے لئے یہ کم سے کم ہے جو پاکستان کر سکتا ہے۔ (جاری)