کرشنا کولہی تو پاکستان کی پہلی دلت سینیٹر بن چکی ہے۔ وہ عورت جس کا بچپن وڈیروں کی نجی جیلوں میں گزرا۔ وہ عورت جس نے تعلیم اس طرح حاصل کی جس طرح کوئی جدوجہد کرتا ہے۔ وہ اپنے گھر سے بہت دور تک پیدل جاتی تھی۔ وہ اپنی کمیونٹی کے لوگوں کے طعنے سنتی تھی۔ اسے ہر طریقے سے مایوس کرنے کی کوشش کی گئی۔ وہ عورت جس نے جوانی میں رسول بخش پلیجو کے انقلابی لیکچرز سنے۔ وہ عورت جس نے سیاسی تعلیم اور تربیت کو این جی اوز کی ابھرتی ہوئی دنیا میں پیش کیا تو اسے بہت سراہا گیا۔ اس کا حوصلہ بڑھایا گیا۔ این جی اوز کی انگلی پکڑ کر وہ صحرائے تھر سے باہر نکلی تو اس کو محسوس ہوا کہ یہ دنیا کتنی بڑی اور کتنی مختلف ہے! کرشنا اس دنیا سے آشنا ہوئی جس دنیا میں صرف چالاکی کا سکہ چلتا ہے۔ وہ اس دنیا سے کامیابی کے طریقے سیکھنے لگی۔ جب کوئی کوشش کرتا ہے تب قسمت بھی اس کا ساتھ دینے لگتی ہے۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی نظر کرم کرشنا پر پڑی اور کرشنا کولہی شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی پہلی سینیٹر بن گئی۔ اس وقت تو کرشنا کولہی کے والدین اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان کی بیٹی کس مقام پر پہنچ چکی ہے؟ مگر جب وہ پاکستان کے ایوان بالا کی رکن بنی تھی تب اس کے والدین کو یہ پتہ بھی نہ تھا کہ سینیٹ کیا ہوتی ہے؟تھری کے ثقافتی لباس میں حلف لینے والی کرشنا کولہی اب اس پاور سرکل کا حصہ بن گئی ہے جس میں شیری رحمان بھی ہے اور سسی پلیجو بھی ہے۔ اب وہ سوشل میڈیا پر اپنی وہ تصاویر اپلوڈ کرتی ہے، جس میں وہ ملک کی مشہور شخصیات سے ملاقات کرتی نظر آتی ہے۔ وہ عورت جس کی جلد تھر کے آگ اگلتے سورج کی وجہ سے جھلس گئی تھی ۔ وہ عورت جس کو اپنے گاؤں کی طرف جانے والی گاڑی کا گھنٹوں تک انتظار کرنا پڑتا تھا اب وہ ایئرپورٹ کے لاؤنج میں بیٹھ کر موبائل فون پر باتیں کرتی ہے۔ وہ عورت جو زندگی کے سیاسی سفر میں بہت دور نکل گئی ہے ۔ وہ اب اسلام آباد کے حسین فضاؤں میں رہتی ہے۔ اس کے بارے میں اب تھر کے لوگ عام طور پر یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ ’’ہر کولہی کی قسمت کرشنا جیسی نہیں ہوتی‘‘ کرشنا کامیابی کی سیڑھیوں پر چڑھ کر بلندی پر پہنچ گئی ہے مگر اس کے لوگوں کا جیون تھر کے جہنم میں جل رہا ہے۔ کرشنا کا علاج تو ملک کے سب سے بڑے ہسپتال میں ہوتا ہے مگر تھر کے بچے اب تک مٹھی کے سرکاری ہسپتالوں میں مر جاتے ہیں۔ کرشنا تو آئے دن ان کانفرنسوں میں شرکت کرتی ہے جن میں بوفے لنچ کا اہتمام کیا جاتا ہے مگر اس کے قبیلے کے بچے بھوک کی وجہ سے بیمار رہتے ہیں۔ کرشنا تو سینیٹر ہونے کی وجہ سے بہت ساری مراعات کے ساتھ بہت اچھی تنخواہ لیتی ہے مگر اس کے قبیلے کی غریب عورتیں ’’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ کا کارڈ لیکر دو ہزار روپیوں کے لیے گھنٹوں تک دھوپ میں کھڑی رہتی ہیں۔ کرشنا تو اب عام پانی نہیں پیتی۔ وہ اب گھر میں بھی منرل واٹرپیتی ہے مگر تھر کی عورتیں اب تک اپنے سر پرپانی کے دو گھڑے رکھ کر چار پانچ کلومیٹر تک سفر کرتی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے کرشنا کولہی پر احسان کرنے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی حلقوں میں اس بات کو کیش کیا ہے کہ اس نے پاکستان کی پس ماندہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی عورت کو سینیٹ میں پہنچایا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کرشنا کولہی کے سینیٹر بننے سے عام طور پر تھر کے عوام اور خاص طور پر کولہی کمیونٹی کی زندگی میں کون سی تبدیلی آئی ہے؟تھر کے لوگوں کے لیے اب تک زندگی زہر کا جام ہے۔ وہ ہر دن اس جام سے ایک گھونٹ پیتے ہیں۔ وہ اس طرح جیتے ہیں جس طرح کوئی مرنے کی طرف بڑھتا ہے۔ کرشنا کولہی کی قسمت اچھی تھی کہ وہ اس جلتے ہوئے صحرا سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی مگر حقیقت یہ ہے کہ آج تک تھر کے لوگ اپنی جنم بھومی کو چھوڑ کر کسی محل میں جینے سے خوشی حاصل نہیں کرپاتے۔ تھر میں بسنے والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ باہر جائیں اور کامیابیوں کی بلندی پر پہنچ جائیں مگر جب وہ تھر سے دور رہنے کے بارے میں سوچتے ہیں تو ان کے سینوں میں کوئی حسرت کانچ کی طرح ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے۔ تھر کے لوگ عام طور پر پاکستان کے ہرے بھرے شہروں کو پسند کرتے ہیں ۔ انہیں دریاؤں والے علاقے اچھے لگتے ہیں۔ وہ ساحل سمندر پر جاتے تو ان کے اندر ایک مسرت کا احساس جاگ اٹھتا ہے مگر انہیں جلد اپنے تھر کی یاد آجاتی ہے۔ تھر کے لوگ اذیت پسند نہیں ہیں۔ مگر انہیں اپنے دیس سے محبت ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں زندگی کے بنیادی حقوق تھر میں حاصل ہوں۔ پیپلز پارٹی سندھ پر تیسری بار حکمرانی کرنے کی تیاری میں مشغول ہے مگر اس نے گذشتہ دس برسوں کے دوران تھر کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ اس نے نمکین پانی کو میٹھا کرنے کے جو آر او پلانٹ نصب کیے ہیں ان میں مشکل سے دس فیصد کام کر رہے ہیں۔ نوے فیصد پلانٹ بیکار ہیں۔ تھر کے عام لوگ بھی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ آر او پلانٹ کے ٹھیکے اس کمپنی کو دئیے گئے جس نے سب سے زیادہ کمیشن دیا۔ تھر میں اب تک خوراک کی کمی ہے۔ تھر میں اب تک بیمار ایڑیاں رگڑ کر مرجاتے ہیں۔ تھر میں اب تک پینے کا صاف اور میٹھا پانی ایک حسرت ہے۔ تھر میں اب تک انسانی حقوق کی پامالی عام ہے۔ تھر میں اب تک مخصوص وڈیرے عیاشی والی زندگی جیتے ہیں۔ تھر سرحدی علاقہ ہونے کے باعث بہت سارے مسائل کا شکار ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس علاقے میں دولت مند لوگوں کے لیے زندگی کسی طور پر مشکل نہیں۔ وہ دولت مند شخص مسلمان ہو یا ہندو؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تھر میں ارباب خاندان اور ملانی خاندان کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر مسائل ہیں تو صرف ان لوگوں کے لیے جن کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ وہ لوگ بہت بڑی اکثریت میں ہیں۔ ان لوگوں کے خاندانوں میں بہت سارے افراد ہیں۔ اگر اس خاندان میں کسی عورت کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا کارڈ بھی مل جائے تو وہ کارڈ ان کے لیے زندگی کے مسائل کم کرنے کے سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا۔ تھر کے لوگوں کے لیے جب تک وسیع پیمانے پر ترقیاتی منصوبے شروع نہیں ہونگے تب تک تھر کی ترقی ایک ایسے خواب کی طرح رہے گی جس کے مقدر میں تعبیر کا پیراہن پہننا نہیں ہوتا۔ تھر میں کوئلے کے ذخائر دریافت ہی نہیں بلکہ وہاں سے کوئلہ نکلنا شروع بھی ہوا ہے اور چند تھری لوگوں کو وہاں ملازمتیں بھی حاصل ہوئی ہیں مگر چند ملازمتیں تھر کے بہت بڑے مسائل کا حل نہیں۔ تھر کے لیے ایک پیکیج کی ضرورت ہے۔ تھر کے مسائل کا حل یہ نہیں کہ آپ ایک خاتون سے تھری لباس میں سینیٹ کا حلف اٹھوائیں اور دنیا کو دکھائیں کہ آپ نے تھر کے لوگوں کو ایوان بالا میں نمائندگی کا حق دیا ہے۔ کرشنا کولہی کے سینیٹر بننے سے اگر تھر کے مسائل حل ہوجاتے تو اس سے اچھی بات اور کوئی نہیں ہوسکتی تھی، مگر کرشنا کولہی کو اس لیے سینٹر نہیں بنایا گیا کہ وہ سینیٹ میں تھر کے لوگوں کی مظلومیت بیان کرے۔ کرشنا کولہی سینیٹ میں تھر کی نمائندہ نہیں۔ کرشنا کولہی سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی نمائندہ ہے۔ کرشنا کولہی سینیٹ میں تھر کی زبان نہیں۔ کرشنا کولہی سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے احسانات تلے دبی ہوئی وہ عورت ہے جو تھر کے درد بیان کرنے سے گھبراتی ہے۔ وہ اگر تھر کے بارے میں کوئی لفظ بھی بولتی ہے تو اس کو یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں پارٹی قیادت ناراض نہ ہوجائے۔ اگر آپ کرشنا کولہی سے تھر کے بارے میں پوچھیں گے تو وہ تھری لوگوں کے درد بیان کرنے کے بجائے اہلیان تھر پر پیپلز پارٹی کی طرف کیے گئے احسانات گنوانا شروع کر دے گی۔ پیپلز پارٹی کو اس بات کا پتہ ہے کہ تھر ایک پکار ہے۔ تھر درد سے بھری ہوئی صدا ہے۔ تھرمائی بھاگی کا گیت ہے۔ وہ گیت جو ہر مسافر کے پیروں کو جکڑ لیتا ہے۔ وہ گیت یہ بات بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ تھر درد کا گھر ہے۔ نیم کی درخت کی چھاؤں بہت اچھی ہوتی ہے۔ مگر نیم کے درخت کے پتے بہت کڑوے ہوتے ہیں۔ صحرائے تھر کی صدا مائی بھاگی نے اپنے مشہور گیت میں یہ کہا ہے ’’کھڑی نیم کے نیچے ہوں تو ہے کلی‘‘ اس تھری گیت کا مطلب ہے کہ میں نیم کے درخت کے نیچے تنہا کھڑی ہوں۔ تھر کی روح مائی بھاگی کی طرح نیم کے درخت کے نیچے تنہا کھڑی ہے۔ کاش! پیپلز پارٹی کو اس بار تھر کی تلخی کا احساس ہوجائے۔