خلوص کا ایک ذرّہ بھی پروردگارضائع نہیں کرتا۔سچی ریاضت کبھی رائیگاں نہیں ہوتی۔ اگر بے ریا ہم جستجو کریں تو ایک دن یہ سرزمین عدل سے بھر جائے گی،خالق کے نور سے جگمگا اٹھے گی۔ بیعت کا مکمل مفہوم کیا ہے؟ افتخار عارف نے بتایا "دست بدست دیگراں دانند و پیماں کردن" دوسرے کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر عہد کرنا۔ حکومت لازم ہے۔ اجتماعی حیات نظم و نسق چاہتی ہے۔ معاشرہ تبھی آہنگ میں ڈھل سکتاہے۔ اللہ نے آدمی کو آزادی بخشی۔ فرمایا: اچھے اور برے رجحانات ہم نے تمہارے ذہنوں میں الہام کر دئیے، اب چاہو تو شکر کرو اور چاہو تو انکار ہی کردو۔ آدمی سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کی زندگی میں مخل نہ ہو۔ فساد نہ پھیلائے کہ حریتِ عمل باقی رہے۔ عرب کہتے ہیں: العوام کالانعام۔ عام لوگ ریوڑ ہوتے ہیں اوریہ کہ الناس علیٰ دین ملوکہم۔ وہ اپنے بادشاہوں کی راہ چلتے ہیں۔ حکمران کا انداز غالب آتا ہے۔ ولید بن عبدالملک وجیہہ عمارتوں کا رسیا تھا۔دمشق کی جامع مسجد اسی کی یادگار ہے۔ اس دور میں عالیشان گھر رواج پا نے لگے۔ سلیمان بن عبدالملک خورونوش میں جنونی تھا۔ اس رغبت سے دیر تک وہ مرغ کھایا کرتا،عرب جسے دجاجِ سندھی کہتے تھے، کہ دراز آستین سے گھی نچوڑنا پڑتا۔ باورچیوں کی مانگ بڑھ گئی۔ دل پھینک تھا؛چنانچہ آوارگی فروغ پانے لگی۔اس کی انا پروری سے سر زمینِ ہند، افریقہ اور چین کی طرف بڑھتا فتوحات کا سیلاب تھم گیا۔ طارق بن زیاد سمیت تین عظیم جنرلوں کو معزول کیا او رمار ڈالا۔ اللہ کو مگرامّت پر رحم آگیا کہ دمِ رخصت عمر بن عبدالعزیز کو اس نے جانشین کیا۔ مدینہ کے گورنر تھے تو ستر اونٹوں پر ان کا سامان لاد کر لے جایا گیا۔ جودوسخا کے پیکر۔ جس گلی سے گزرتے،مہک اٹھتی۔ دین کی حمیت ایسی تھی کہ ایک بار کسی سے ناراض سلطان سلیمان نے سزا کا فرمان لکھنے کو شاہی مہر طلب کی تو اس سے کہا: کیا آپ نے قرآن طلب کیا ہے۔خشمگیں ہوا تو کہا:عم زاد! اللہ کی کائنات تمہارے دسترخوان سے بہت بڑی ہے۔ لوگوں کو جمع کر کے دستبرداری کا اعلان کر ڈالا۔ ان کے اصرار پر اقتدار سنبھالا۔ تمام دولت، حتیٰ کہ بیوی کا سب زیور بانٹ دیا۔ شہزادگی کو لپیٹ کر پھینک دیا اور اصحابِ رسولؐ ایسی زندگی بسر کی۔ اب معاشرہ اصلاح کو مائل ہوا۔ صدقہ و خیرات کی فراوانی، غریب پروری، عدل پہ اصرار، زہد و عبادت۔ حکمران آدمی کی سرشت میں ہے۔ اظہار الحق نے کہا تھا لہو میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے مخلوق کو حاکم درکار ہیں مگر من مانی کرنے والے بادشاہ نہیں۔ اس علم کے منتہی جیمز سمیت اکثر اینتھرو پالوجسٹ مانتے ہیں کہ قدیم انسان مواحد تھا۔ پھر وہ بھٹکا۔ بت پرستی شعار کی اور بادشاہوں کا غلام ہو گیا۔ محل سے دور جھونپڑی بناتا اور اپنی تقدیر سلطان سے وابستہ کر لیتا ہے۔ 1993ء میں نواز شریف کی لرزہ براندام حکومت کے بارے میں بیرسٹر اعتزاز احسن نے جو شعر پڑھا، وہ بھی اظہار الحق کا تھا۔ غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے تقدیر بادشاہ کے ہاتھ میں رہن ہو تو عام آدمی حقیر سے حقیر تر ہو تاچلا جاتاہے۔درباری جنم لیتے او رفروغ پاتے چلے جاتے ہیں۔مغل بادشاہ سری نگر کارخ کرتے تو دلّی کی آبادی نصف رہ جاتی۔ افسوس کہ خود اعتزاز احسن بھی اس باب میں کوئی زیادہ استثنیٰ نہیں۔زرداری کو گوارا کرتے ہیں۔ اللہ نے آدمی کو اختیار بخشا ہے کہ اپنا حکمران خود چنے۔ عمر ابن خطابؓ نے امیر معاویہ سے کہا تھا: انسانوں کو ان کی ماؤں نے آزاد جنا تھا، کب سے تم انہیں غلام بنانے لگے۔ افتخار عارف کا شعر ہے۔ اب بھی توہینِ اطاعت نہیں ہو گی ہم سے دل نہیں ہوگا تو بیعت نہیں ہوگی ہم سے والٹیئر کا مشہور جملہ یہ ہے: انسان آزاد پیدا ہو اتھالیکن ہر کہیں وہ زنجیروں میں جکڑا ہے۔ پیغمبروں کی تعلیمات سے آشنا، مشہور چینی مفکر کنفیوشس کے نزدیک اس کا ایک ہی سبب ہے۔ نجیب لوگ سہم اور سمٹ جاتے ہیں تو ادنیٰ اور اچکے ان پر سواری گانٹھتے ہیں۔ "They are ruled by the inferiors"۔ ظالم حکمران مصلحت پسندی اور شخصی کمزوریوں کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ فصیح اور ذہین لوگ معمولی مفادکے لیے زرداروں کے دستر خوان پہ جا بیٹھیں تو آقاؤں کے لیے تاویل تراشتے، مایوسی پھیلاتے اور بہترین انسانوں کی مذمت کرتے ہیں۔ بار بار آزمائے گئے میاں محمد نواز شریف، عوام سے یکسر بے نیاز جناب آصف علی زرداری اورخوشامدیوں میں گھرے عمران خان کے قصیدہ خوان کوئی نئی مخلوق نہیں۔ جنیدِ بغدادؒ نے ایک موقع پر کہا تھا: یہ کاروبارِ دنیا ہے، ازل سے ایساہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ یہ کمزور اور خوف زدہ لوگ ہوتے ہیں۔ اللہ کو نہیں،وہ حاکموں کا اپنا رزاق سمجھتے ہیں۔سیدھی اور کھری بات کہنے والوں کو گالی دیاکرتے ہیں اور اپنے گریبان میں کبھی نہیں جھانکتے۔ اس مخلوق سے الجھنے کی بجائے نگاہ ہدف پر رکھنی چاہئیے۔ فتح و شکست اور عزت و ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ مردِ آزاد کا شیوہ اور شعار وہ ہوتا ہے، جو علامہ اقبالؔ کے ہم نفس سیّد سلیمان ندوی نے ایک شعر میں بیان کیا تھا۔ ہزار بار مجھے لے گیا ہے مقتل میں وہ ایک قطرہء خوں جو رگِ گلو میں ہے عاشورے میں ہم بہت روتے ہیں۔اہلِ عظمت کولوگ رویا ہی کرتے ہیں مگر زندگی صرف گریہ سے سنور سکتی تو سنور جاتی۔ جدوجہد درکار ہوتی ہے، جدوجہد۔ زندگی تگ و تاز سے سرفراز ہوتی ہے۔اول ذہنی، پھر عملی۔ اقبالؔ بتا گئے۔ ع ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ایک اور موقع اس قوم کو ملے گا کہ جس کی چاہے بیعت کرلے۔ ذہنوں کو آزاد کرنا چاہئیے۔ جب یہ نعمت نصیب ہو تو دوسروں کو بھی اس میں شریک کرنا چاہئیے۔ انتباہ و اشتعال اور جوشِ خطابت سے نہیں، صبر اور حکمت سے۔ مستقل مزاجی سے، دلیل کے ساتھ۔ قرآن کہتا ہے : طاغوت تارِ عنکبوت ہے، مکڑی کا جالا۔ ایمان اگرحقیقی ہو، پیمان اگر سچا ہو تو یقین پیدا کرتااور خود بخود جدوجہد میں ڈھلنے لگتا ہے۔ حکمران طبقات کے کرتوت اجاگر ہیں اور بدنام شخصیات کے بھی۔ وہ کہ جنہوں نے اقتدار میں دولت کے ڈھیر جمع کر لیے۔ خوش نما وعدے جن کا حربہ ہیں۔مایوس اورضعیف الاعتقاد ہی جن پر یقین کرتے ہیں۔ اہلِ رسوخ کی سرپرستی کے متلاشی منافقین اور ان سے متاثر بے یقین۔ الزامات کے جواب میں توانائی برباد کرنے کی بجائے لائحہ عمل تراشنا چاہئیے۔ منصوبہ بندی کے ساتھ ریاضت کو شعار کرنا چاہئیے، ایک نئی تخلیقی جدوجہد کہ ادبار بالاخر تمام ہو۔ خلوص کا ایک ذرّہ بھی پروردگارضائع نہیں کرتا۔سچی ریاضت کبھی رائیگاں نہیں ہوتی۔ اگر بے ریا ہم جستجو کریں تو ایک دن یہ سرزمین عدل سے بھر جائے گی،خالق کے نور سے جگمگا اٹھے گی۔