ایک فلسفی نے کہا تھا کہ کسی بھی جنگ میں پہلا قتل سچ کا ہوتا ہے۔ جنگوں نے ہمیشہ انسانی سماج کو تباہی اور بربادی کا تحفہ دیا۔ساحر لدھیانوی نے بھی اپنی شہرہ آفاق نظم’’ اے شریف انسانو‘‘میں جہاں کہا ’’جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے‘ جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی‘‘۔ وہاںآفاقی سچانی بیان کر تے اقوام عالم کومتنبہ بھی کیا تھا کہ جنگ: آگ اور خون آج بخشے گی بھوک اور احتیاج کل دے گی ساحر نے بھوک اور احتیاج کل دینے کی بات کی مگر عالمی ادارے روس یوکرائن جنگ کے دوران ہی عالمی غذائی عدم تحفظ کے خطرے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے کہا ہے کہ یوکرائن جنگ کی وجہ سے غریب ممالک میں بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عالمی سطح پر غذائی عدم تحفظ ہو ہوا دی ہے اگر یوکرائن کی برآمدات کو بحال نہ کیا گیا تو دنیا کو برسوں تک قحط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دنیا بالخصوص غریب ممالک میں غذائی قلت بڑے پیمانے پر بھوک اور قحط سالی کا روپ اختیار کر سکتی ہے۔ جنرل انتونیو گوٹیرش کے انتباہ کو اس لئے بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیںکیونکہ یوکرائن جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی کورونا وبا کی وجہ سے عالمی معیشت کے سکڑائو، ٹرانسپورٹ کی بندش کی وجہ سے گندم کی قیمت میں 60 فیصدہوا تھا۔ جنگ کے بعد جہاں تیل کی قیمتوں میں اضافہ غذائی اجناس کے مزید مہنگے ہونے کی وجہ بنے گا۔ وہاں روس اور یوکرائن کی گندم تک عالمی رسائی نہ ہونے سے گندم کی قیمت میں 30فیصد اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کیونکہ دنیا کوجتنی گندم برآمد کی جاتی ہے اس کا 30 فیصد روس اور یوکرائن سے برآمد کیا جاتا ہے۔2021-22ء میں عالمی گندم کی برآمدات میں روسی سپلائزر کا 16فیصد جبکہ یوکرائن کے پروڈیوسر کا حصہ 10فیصد تھا۔ یوکرائن جنگ کے بعد روس پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے دنیا روس کی گندم سے محروم ہو جائے گی۔یوکرائن کو یورپ کی فوڈ باسکٹ کہا جاتا ہے یوکرائن کی بندرگاہوں میری پول اور اوڈسیہ کے عالمی تجارت کے لئے بند ہونے سے یوکرائن کی گندم بھی عالمی منڈی کو میسر نہ ہو گی ۔ اگر اس کی خشکی کے راستے سپلائی کی جاتی ہے تو ٹرانسپورٹ اخراجات گندم کی قیمت میں کئی گناہ اضافہ کر دیں گے۔ صرف یہی نہیں کہ دنیا کو روس اور یوکرائن کی گندم میسر نہیں ہو گی ۔دنیا کے دوسرے بڑے گندم پیدا کرنے والے ممالک چین اور بھارت نے بھی عالمی سطح پر بڑھتی کشیدگی اور بے یقینی کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اپنے عوام کے بڑھتے غذائی عدم تحفظ کے احساس اور دیگر وجوہ پر گندم برآمد کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ پاکستان دنیا میں گندم پیدا کرنے والا ساتواں بڑا ملک ہے مگر موسمی اثرات کے باعث گندم کی پیداوار متاثر ہونے سے پاکستان بھی 30لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے پر مجبور ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر تائیوان چین کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے یہاں تک کہ تائیوان کو اقوام متحدہ کی آزاد ملک کی حیثیت سے رکنیت بھی حاصل نہیں مگر امریکہ جس طرح چین تائیوان کی جلتی پر تیل ڈال رہا ہے اور امریکی صدر بائیڈن نے چین کو جنگ پر مجبور کرنے کے لئے ایشیائی ممالک کا دورہ کرکے کوارڈ اتحاد کوجنگ کی تیاریوں کا اشارہ دیا ہے اور تائیوان کی عسکری مدد کا اعلان کیا ہے اگر یہ جنگ ہوتی ہے تو نہ صرف دنیا تیسری عالمی جنگ دیکھے گی بلکہ دنیا بالخصوص افریقی ممالک میں کروڑوں لوگ جنگ کے بغیر ہی فاقوں سے مر جائیں گے۔افریقہ کے بعد سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں یقیناً یورپ کے بجائے غریب ممالک ہوں گے جس کی وجہ سے ماہرین کے مطابق غذائی اجناس کی قیمتیں ہوں گی۔ امیر ممالک کے عوام کا فاقوں سے مرنے کا اندیشہ اس لئے نہیں کیونکہ اول تو امریکہ اور کینیڈا جو بالترتیب 26اور 25ملین ٹن گندم برآمد کرتے ہیں جو عالمی برآمدات کا 25فیصد ہے اس کے علاوہ یورپی پروڈیوسرز میں فرانس میں 19ملین ٹن اور جرمنی میں 9.2ملین ٹن گندم پیدا ہوتی ہے غذائی قلت کی صورت میں امریکہ ،کینیڈا، جرمنی اور فرانس بھی اپنی گندم غریب ممالک کو بیچنے کے بجائے اپنے یورپی اتحادیوں کو فروخت کریں گے۔ دوسرے امیر ممالک معاشی لحاظ سے اس قدر مضبوط ہیں کہ وہ مہنگی گندم خرید کر اپنے لوگوں کا پیٹ بھر سکتے ہیں۔قحط سالی کا سامنا یورپ نہیں بلکہ غریب ممالک کو ہو گا ماہرین کے ان خدشات کو مفروضے قرار دینا اس لئے بھی ممکن نہیں کیونکہ اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن برائے ایشیا اور بحرالکاہل (ای ایس سی اے پی) نے یوکرائن جنگ سے شدید متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست جاری کی ہے جس میں سری لنکا کے ساتھ پاکستان کو بھی شامل کیا ہے۔ دنیا میں گندم پیدا کرنے والے ساتویں بڑے ملک کو یوکرائن جنگ سے متاثرہ ممالک میں شامل اس لئے کیا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت گندم کی موجودگی کے باوجود بھی جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی بحران کا سامنا کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ جوناتھن ٹرلی جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں پبلک انٹرسٹ لاء کے پروفیسر ہیں جوناتھن نے موجودہ عالمی حالات پر چشم کشا تبصرہ کیا ہے۔ کہتے ہیں جنگ لوگوں کے لئے جہنم ہو سکتی ہے لیکن جن ممالک کی معیشت کا انحصار ہی جنگ پر ہو ان کے لئے تو جنگ ہی جنت ہے۔ عمران خان نے اپنی حکومت گرانے کا الزام امریکہ پر لگایا ہے اور کہا ہے کہ ڈونلڈ لو نے پاکستان کے خلاف سازش کی یہ دیکھنا اب پاکستان کی قومی سلامتی کے اداروں کا کام ہے کہ کیا سازش صرف عمران حکومت کو گرانے کی حد تک تھی یا پھر پاکستان کو معاشی طور پر دیوالیہ کر کے تباہ کرنے کا ارادہ بھی ہے۔افواج پاکستان یقیناً دن رات پاکستان کے خلاف تمام سازشوں پر نظر رکھے ہوئے اور پاکستان کی بقا کے لئے ہر ممکن اقدام بھی کریں گے پاکستانیوں کو بھی اس خطرے کو سمجھنا ہوگا کہ وہ کہیں دشمنوں کے ہاتھوں میں تو نہیں کھیل رہے۔ قوم سید سہیل احمد کی بات جتنی جلدی سمجھ لے بہتر ہے: کھیل ہے تو سیع پسندی استحصال کا جنگ دہشت گردی و شدت پسندی نام ہے کہہ گیا امریکہ میدان جنگ ہے ارض پاک بعد افغان و عراق ہم کو یہیں پہ کام ہے