نسلی قومیت کا نعرہ بلند کرنے کی جتنی سزا کرد قوم نے بھگتی ہے دنیا میں شائد ہی کسی اورقوم کے مقدر میں اسقدر خرابی آئی ہو۔ ان کے دماغوں میں قومیت کا یہ خنّاس جنگ عظیم اول سے بہت پہلے ایک بہت بڑی سازش کے تحت مغربی مورخین اور مفکرین نے اپنی تحریروں سے ڈالاتھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے لارنس آف عریبیہ نے عربوں کے دماغ میں عرب قومیت کے ناسور کو دوبارہ ابھارا اور انہیں خلافت عثمانیہ کے خلاف بندوق اٹھانے پر آمادہ کیا۔ کرد جن کے دامن میں صلاح الدین ایوبی جیسی شخصیت تھی جس کا اوڑھنا بچھونا امت مسلمہ کی بقا، تحفظ اور سلامتی تھا۔ جس کی جنگی اخلاقیات سید الانبیاء ﷺ کی تعلیمات پر عمل درآمد کا پرتو تھیں۔ لیکن مغربی مفکرین اور مفسرین نے اسے ایک کرد قومی ہیرو اور اس کی قوم کو ایک دلیر، جنگجو اور سرفروش قوم بناکر پیش کیا۔ دراصل یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ یہ تو کردوں کی نسلی برتری تھی کہ مسلمانوں نے صلیبی جنگوں میں متحدہ یورپ کو شکست دے دی ورنہ اس میں اسلام کا کوئی کمال نہیں ہے۔ حالانکہ تاریخ گواہ ہے کرد اسلام قبول کرنے کے بعدہی بحیثیت ایک گروہ پہچانے گئے اور انہوں نے خود کو اسلام اور مسلم قومیت کا ہراول دستہ ثابت کیا۔انکی اسلام سے پہلے کی تاریخ انہیں اس پورے علاقے کے پہاڑوں اور صحراؤں میں پھیلا ہوا ایک انبوہ بتاتی ہے کہ جس پر کبھی رومن چڑھ دوڑتے اور کبھی ایرانی۔ کردوں کے ساتھ وہی شاطرانہ طریقہ استعمال کیا گیا جو جنگ عظیم اول کے دوران باقی مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔ پہلے انہیں مسلمان، مسلم شناخت اور مسلم امہ سے علیحدہ کرنے کے لیے نسلی قومیت پر فخر کرنا سکھایا، اور پھر اسی نسلی قومیت کو قومی ریاستوں کی سرحدوں میں تقسیم کردیا تاکہ یہ رہتی دنیا تک ایک شناخت کی تلاش میں خاک و خوں میں نہاتے رہیں۔ مثلا عرب دنیا کو عظمت رفتہ یاد دلا کر خلافت عثمانیہ سے علیحدہ کروایا اور پھر انہیں مصر سے لے کر عراق تک دو درجن کے قریب چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کردیا اور اس تقسیم پر بین الاقوامی سرحدوں کی مہر لگا دی گئی۔ مادر وطن وہی ہے جس کی سرحد کی لکیر عالمی طاقتوں نے دنیا کے نقشے پرسازش اور قوت سے کھینچی ہے اور جسے اب عالمی برادری تسلیم کرتی ہے۔ یہ لکیر جسے بین الاقوامی سرحد کہتے ہیں بہت مقدس ہے۔اب اس جغرافیے کے اندر آنے والی زمین کے ایک ایک انچ کے ٹکڑے کے لئے جان دینا ہی وطنیت ہے، قومیت ہے، جانثاری و شہادت ہے۔ ان جغرافیائی لکیروں کے مفاد کا تحفظ وہاں بسنے والے تمام افراد کا بنیادی فریضہ ہے اور اس سے انکار غداری ہے۔ کرد بیچاروں کے ساتھ تو المیہ یہ ہوا کہ پہلے انہیں نسلی برتری کی لوریاں دے کر مسلم امہ سے علیحدہ تشخص اختیار کرنے کی طرف راغب کیا گیا اور پھر جب جنگ عظیم اول کے بعد انکے علاقے کو تقسیم کیا جانے لگا تو اس عظیم جنگجوکرد قوم کو، جس کی فتح کی تمام داستانیں اسلام سے وابستہ تھیں، انہیں پانچ ملکوں کی سرحدوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ یہ ساڑھے تین کروڑ کردوں کا گروہ ان پانچ قومی ریاستوں میں بانٹ دیا گیا جویوں تو بظاہر مسلمان ریاستیں کہلاتی ہیں لیکن تھیں قومی ریاستیں۔ ترکی میں ڈیڑھ کروڑ، ایران میں نوے لاکھ، شام میں تیس لاکھ، عراق میں اسی لاکھ اور اردن میں دس لاکھ کرد، ایک ایسے عذاب میں مبتلا کر دیے گئے کہ انہیں کرد نسلی برتری اور جنگجو نسلی عظمت کے خواب دکھا کر اپنے ہی ہم وطنوں سے اس نعرے کی بنیاد پر مسلسل لڑایا دیا گیا۔ ان کو پہلے یہ خواب دیا گیا کہ ان کی اپنی ایک ریاست ہونا چاہیے، جس میں صرف نسلی طور پر کردقوم آباد ہو۔ کردوں کو اگر مسلمان یا اسلام کے تصور سے وابستہ رہنے دیا جاتا تو وہ جن ممالک میں بھی تقسیم کردیے گئے تھے وہاں آباد دیگر مسلمانوں کے ساتھ مل کر اسلام کی برتری کے خواب دیکھتااور اس کی عظمت رفتہ کو واپس لانے کے لئے نسل، رنگ اور زبان سے بالاتر ہوتے۔ اگر ایسا ہوتا تو ایک دن اقبال کے اس شعر میں دیکھا گیا خواب پورا ہو جاتا بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا نہ افغانی رہے باقی نہ تورانی نہ ایرانی لیکن ایسا کون ہونے دیتا۔کیونکہ ان بتان رنگ و بو پر ہی تو جدید تہذیب کی عمارت استوار ہے۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ آج جس قومیت پرستی کی بنیاد پر سیکولر، لبرل اور جمہوری معاشرے کی اساس رکھی جاتی ہے بالکل اسی بنیاد پر کیمونسٹ تحریک کے اولین خوشہ چین قومیت پرستی کے راستے کیمونسٹ انقلاب کا خواب دکھاتے تھے۔ 1917 ء میں جب روس میں بالشویک انقلاب آیا تو ستمبر 1920 ء میں موجودہ آذربائیجان کے شہر باکو، جو اس وقت سوویت یونین کا حصہ تھا، میں مشرقی اقوام کی کانگریس ''Congress of the people of the East'' بلائی گئی۔ یہ کانفرنس روسی کیمونسٹ پارٹی نے منعقد کروائی تھی،جس میں مشرقی دنیا یعنی ایشیا اور جنوب مشرقی علاقوں میں آبادی نسلیں قومیتوں کے ان تمام رہنماؤں کو مدعو کیا گیا تھا جو نوآبادیاتی طاقتوں،یعنی برطانیہ، فرانس وغیرہ سے آزادی کی تحریکیں چلا رہے تھے۔ کیمونسٹ مفکرین نے طویل تقریریں کیں اور ان حریت پسند رہنماؤں کے سامنے یہ تصور پیش کیا کہ اسوقت آزادی کی تمام تحریکیں دراصل ایک بہت بڑے عالمی استعمار اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام مغرب نے استحصال کے لئے بنایا ہے۔ سرمایہ دار بہت چالاک ہے وہ مزدور اور کسان کو باہمی تعلق کی بنیاد پر کبھی منظم نہیں ہونے دے گا، اس لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ تم لوگ قومیت کی بنیاد پر منظم ہوکر آزادی حاصل کرو اور پھر جب تم آزاد ہو جاؤ تو اپنے ملکوں میں مغربی سرمایہ دارانہ نظام کی بجائے کیمونسٹ بالشویک نظام قائم کرو۔ سوویت یونین ایسی تمام نسل پرست اور قوم پرست تحریکوں کو مالی اور عسکری طور پر مدد فراہم کرے گا۔ اس کانفرنس میں 1275 مندوب شریک ہوئے جن میں آٹھ کرد رہنما بھی تھے۔ اسی کانفرنس میں بلوچ اور پشتون قوم پرست بھی شریک ہوئے تھے۔ یہ تمام لوگ اس کانگریس سے یہ نعرہ لے کر آئے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں گے اپنی قوم کو آزاد کرائیں گے تاکہ وہاں سرمایہ دارانہ نوآبادیاتی قبضہ ختم کرکے کیمونسٹ منصفانہ نظام قائم کرسکیں،یعنی مزدور اور کسان کی بادشاہت۔ جنگ عظیم اول کی گرد بیٹھی تو خلافت عثمانیہ اور برطانیہ، فرانس، اٹلی، جاپان، رومانیہ اور یونان کی اتحادی قوتوں کے درمیان 24 جولائی 1923 ء کو ایک معاہدہ طے پایا کہ جسے معاہدہ لوزین (Treaty of Lausanne) کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت عراق، شام، ترکی، اٹلی اور ایران کی مقدس سرحدی جغرافیائی لکیریں کھینچ دی گئیں،اور ان سرحدوں میں کردوں کی ساڑھے تین کروڑ کی آبادی پانچ مختلف ملکوں ترکی، ایران، شام، عراق اور اردن میں تقسیم کردیا گیا۔ یہ وہی کرد تھے جنہیں آزادی کا خواب خلافت عثمانیہ سے لڑنے والی اتحادی طاقتوں نے دکھایا تھا اور انہیں عربوں کی طرح ترکوں سے علیحدہ کردیا تھا۔ وہ قومی سطح پر امت مسلمہ کی خلافت کے غدار ٹھہرے، لیکن معتوب اس لئے ہو گئے کہ وہ مغرب کے مقابلے میں کیمونسٹ قوم پرستی کا پرچم تھامنے لگے۔ اس دن سے لے کر آج تک کرد ان قومی ریاستی سرحدوں کے درمیان آباد ہیں۔ روزانہ قتل کر تے ہیں اور قتل ہو تے ہیں۔ کبھی انہیں عظیم کردستان کا خواب دکھایا جاتا ہے اور کبھی عراقی کردستان، شامی کردستان، ترک کردستان اور ایرانی کردستان جیسی علاقائی خود مختاری کے نعرے انکا مقدر بنائے جاتے ہیں۔ 1991ء تک کرد قوم کیمونسٹ قوم پرست اور سیکولر قوم پرستوں میں بٹی ہوئی تھی لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد تمام کے تمام امریکہ کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے،ویسے ہی جیسے پاکستانی کیمونسٹ ہو گئے تھے۔ (جاری ہے) نسلی قومیت کا نعرہ بلند کرنے کی جتنی سزا کرد قوم نے بھگتی ہے دنیا میں شائد ہی کسی اورقوم کے مقدر میں اسقدر خرابی آئی ہو۔ ان کے دماغوں میں قومیت کا یہ خنّاس جنگ عظیم اول سے بہت پہلے ایک بہت بڑی سازش کے تحت مغربی مورخین اور مفکرین نے اپنی تحریروں سے ڈالاتھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے لارنس آف عریبیہ نے عربوں کے دماغ میں عرب قومیت کے ناسور کو دوبارہ ابھارا اور انہیں خلافت عثمانیہ کے خلاف بندوق اٹھانے پر آمادہ کیا۔ کرد جن کے دامن میں صلاح الدین ایوبی جیسی شخصیت تھی جس کا اوڑھنا بچھونا امت مسلمہ کی بقا، تحفظ اور سلامتی تھا۔ جس کی جنگی اخلاقیات سید الانبیاء ﷺ کی تعلیمات پر عمل درآمد کا پرتو تھیں۔ لیکن مغربی مفکرین اور مفسرین نے اسے ایک کرد قومی ہیرو اور اس کی قوم کو ایک دلیر، جنگجو اور سرفروش قوم بناکر پیش کیا۔ دراصل یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ یہ تو کردوں کی نسلی برتری تھی کہ مسلمانوں نے صلیبی جنگوں میں متحدہ یورپ کو شکست دے دی ورنہ اس میں اسلام کا کوئی کمال نہیں ہے۔ حالانکہ تاریخ گواہ ہے کرد اسلام قبول کرنے کے بعدہی بحیثیت ایک گروہ پہچانے گئے اور انہوں نے خود کو اسلام اور مسلم قومیت کا ہراول دستہ ثابت کیا۔انکی اسلام سے پہلے کی تاریخ انہیں اس پورے علاقے کے پہاڑوں اور صحراؤں میں پھیلا ہوا ایک انبوہ بتاتی ہے کہ جس پر کبھی رومن چڑھ دوڑتے اور کبھی ایرانی۔ کردوں کے ساتھ وہی شاطرانہ طریقہ استعمال کیا گیا جو جنگ عظیم اول کے دوران باقی مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔ پہلے انہیں مسلمان، مسلم شناخت اور مسلم امہ سے علیحدہ کرنے کے لیے نسلی قومیت پر فخر کرنا سکھایا، اور پھر اسی نسلی قومیت کو قومی ریاستوں کی سرحدوں میں تقسیم کردیا تاکہ یہ رہتی دنیا تک ایک شناخت کی تلاش میں خاک و خوں میں نہاتے رہیں۔ مثلا عرب دنیا کو عظمت رفتہ یاد دلا کر خلافت عثمانیہ سے علیحدہ کروایا اور پھر انہیں مصر سے لے کر عراق تک دو درجن کے قریب چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کردیا اور اس تقسیم پر بین الاقوامی سرحدوں کی مہر لگا دی گئی۔ مادر وطن وہی ہے جس کی سرحد کی لکیر عالمی طاقتوں نے دنیا کے نقشے پرسازش اور قوت سے کھینچی ہے اور جسے اب عالمی برادری تسلیم کرتی ہے۔ یہ لکیر جسے بین الاقوامی سرحد کہتے ہیں بہت مقدس ہے۔اب اس جغرافیے کے اندر آنے والی زمین کے ایک ایک انچ کے ٹکڑے کے لئے جان دینا ہی وطنیت ہے، قومیت ہے، جانثاری و شہادت ہے۔ ان جغرافیائی لکیروں کے مفاد کا تحفظ وہاں بسنے والے تمام افراد کا بنیادی فریضہ ہے اور اس سے انکار غداری ہے۔ کرد بیچاروں کے ساتھ تو المیہ یہ ہوا کہ پہلے انہیں نسلی برتری کی لوریاں دے کر مسلم امہ سے علیحدہ تشخص اختیار کرنے کی طرف راغب کیا گیا اور پھر جب جنگ عظیم اول کے بعد انکے علاقے کو تقسیم کیا جانے لگا تو اس عظیم جنگجوکرد قوم کو، جس کی فتح کی تمام داستانیں اسلام سے وابستہ تھیں، انہیں پانچ ملکوں کی سرحدوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ یہ ساڑھے تین کروڑ کردوں کا گروہ ان پانچ قومی ریاستوں میں بانٹ دیا گیا جویوں تو بظاہر مسلمان ریاستیں کہلاتی ہیں لیکن تھیں قومی ریاستیں۔ ترکی میں ڈیڑھ کروڑ، ایران میں نوے لاکھ، شام میں تیس لاکھ، عراق میں اسی لاکھ اور اردن میں دس لاکھ کرد، ایک ایسے عذاب میں مبتلا کر دیے گئے کہ انہیں کرد نسلی برتری اور جنگجو نسلی عظمت کے خواب دکھا کر اپنے ہی ہم وطنوں سے اس نعرے کی بنیاد پر مسلسل لڑایا دیا گیا۔ ان کو پہلے یہ خواب دیا گیا کہ ان کی اپنی ایک ریاست ہونا چاہیے، جس میں صرف نسلی طور پر کردقوم آباد ہو۔ کردوں کو اگر مسلمان یا اسلام کے تصور سے وابستہ رہنے دیا جاتا تو وہ جن ممالک میں بھی تقسیم کردیے گئے تھے وہاں آباد دیگر مسلمانوں کے ساتھ مل کر اسلام کی برتری کے خواب دیکھتااور اس کی عظمت رفتہ کو واپس لانے کے لئے نسل، رنگ اور زبان سے بالاتر ہوتے۔ اگر ایسا ہوتا تو ایک دن اقبال کے اس شعر میں دیکھا گیا خواب پورا ہو جاتا بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا نہ افغانی رہے باقی نہ تورانی نہ ایرانی لیکن ایسا کون ہونے دیتا۔کیونکہ ان بتان رنگ و بو پر ہی تو جدید تہذیب کی عمارت استوار ہے۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ آج جس قومیت پرستی کی بنیاد پر سیکولر، لبرل اور جمہوری معاشرے کی اساس رکھی جاتی ہے بالکل اسی بنیاد پر کیمونسٹ تحریک کے اولین خوشہ چین قومیت پرستی کے راستے کیمونسٹ انقلاب کا خواب دکھاتے تھے۔ 1917 ء میں جب روس میں بالشویک انقلاب آیا تو ستمبر 1920 ء میں موجودہ آذربائیجان کے شہر باکو، جو اس وقت سوویت یونین کا حصہ تھا، میں مشرقی اقوام کی کانگریس ''Congress of the people of the East'' بلائی گئی۔ یہ کانفرنس روسی کیمونسٹ پارٹی نے منعقد کروائی تھی،جس میں مشرقی دنیا یعنی ایشیا اور جنوب مشرقی علاقوں میں آبادی نسلیں قومیتوں کے ان تمام رہنماؤں کو مدعو کیا گیا تھا جو نوآبادیاتی طاقتوں،یعنی برطانیہ، فرانس وغیرہ سے آزادی کی تحریکیں چلا رہے تھے۔ کیمونسٹ مفکرین نے طویل تقریریں کیں اور ان حریت پسند رہنماؤں کے سامنے یہ تصور پیش کیا کہ اسوقت آزادی کی تمام تحریکیں دراصل ایک بہت بڑے عالمی استعمار اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام مغرب نے استحصال کے لئے بنایا ہے۔ سرمایہ دار بہت چالاک ہے وہ مزدور اور کسان کو باہمی تعلق کی بنیاد پر کبھی منظم نہیں ہونے دے گا، اس لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ تم لوگ قومیت کی بنیاد پر منظم ہوکر آزادی حاصل کرو اور پھر جب تم آزاد ہو جاؤ تو اپنے ملکوں میں مغربی سرمایہ دارانہ نظام کی بجائے کیمونسٹ بالشویک نظام قائم کرو۔ سوویت یونین ایسی تمام نسل پرست اور قوم پرست تحریکوں کو مالی اور عسکری طور پر مدد فراہم کرے گا۔ اس کانفرنس میں 1275 مندوب شریک ہوئے جن میں آٹھ کرد رہنما بھی تھے۔ اسی کانفرنس میں بلوچ اور پشتون قوم پرست بھی شریک ہوئے تھے۔ یہ تمام لوگ اس کانگریس سے یہ نعرہ لے کر آئے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں گے اپنی قوم کو آزاد کرائیں گے تاکہ وہاں سرمایہ دارانہ نوآبادیاتی قبضہ ختم کرکے کیمونسٹ منصفانہ نظام قائم کرسکیں،یعنی مزدور اور کسان کی بادشاہت۔ جنگ عظیم اول کی گرد بیٹھی تو خلافت عثمانیہ اور برطانیہ، فرانس، اٹلی، جاپان، رومانیہ اور یونان کی اتحادی قوتوں کے درمیان 24 جولائی 1923 ء کو ایک معاہدہ طے پایا کہ جسے معاہدہ لوزین (Treaty of Lausanne) کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت عراق، شام، ترکی، اٹلی اور ایران کی مقدس سرحدی جغرافیائی لکیریں کھینچ دی گئیں،اور ان سرحدوں میں کردوں کی ساڑھے تین کروڑ کی آبادی پانچ مختلف ملکوں ترکی، ایران، شام، عراق اور اردن میں تقسیم کردیا گیا۔ یہ وہی کرد تھے جنہیں آزادی کا خواب خلافت عثمانیہ سے لڑنے والی اتحادی طاقتوں نے دکھایا تھا اور انہیں عربوں کی طرح ترکوں سے علیحدہ کردیا تھا۔ وہ قومی سطح پر امت مسلمہ کی خلافت کے غدار ٹھہرے، لیکن معتوب اس لئے ہو گئے کہ وہ مغرب کے مقابلے میں کیمونسٹ قوم پرستی کا پرچم تھامنے لگے۔ اس دن سے لے کر آج تک کرد ان قومی ریاستی سرحدوں کے درمیان آباد ہیں۔ روزانہ قتل کر تے ہیں اور قتل ہو تے ہیں۔ کبھی انہیں عظیم کردستان کا خواب دکھایا جاتا ہے اور کبھی عراقی کردستان، شامی کردستان، ترک کردستان اور ایرانی کردستان جیسی علاقائی خود مختاری کے نعرے انکا مقدر بنائے جاتے ہیں۔ 1991ء تک کرد قوم کیمونسٹ قوم پرست اور سیکولر قوم پرستوں میں بٹی ہوئی تھی لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد تمام کے تمام امریکہ کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے،ویسے ہی جیسے پاکستانی کیمونسٹ ہو گئے تھے۔ (جاری ہے)