سوویت یونین شکست وریخت کا شکار ہو کر سمٹ رہا تھا، تو امریکیوںنے روس کو گھیرنے کے لئے یورپ کی سرحد پر واقع آزاد ہونے والی ریاستوں میں ’جمہوریت ‘اور ’انسانی حقوق‘ کے نام پر’ سرمایہ کاری‘ کا فیصلہ کیا تھا۔’سرمایہ کاری‘ کے ذریعے خود مختار ملکوں میںامریکی ’مداخلت ‘ کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن یہ ابھی کل کی بات ہے جب نہرو کا بھارت افغانستان پرانخلاء کے بعد بھی تنہا روسیوں کے ساتھ کھڑا تھا۔اُدھر چین ابھرا تو اِدھر بھارت کے اندرمودی کا زمانہ طلوع ہوا۔ نوے کی دہائی کے اخیر میں اس وقت کے ہمارے وزیرِ اعظم، صدر کلنٹن سے ذاتی تعلقات استوار کرنے، بھارت سے خفیہ مذاکرات اور افغانستان میں اسامہ بن لادن کی گرفتاری سمیت امریکی اہداف کے حصول کے لئے اداروں سے بالا بالاخدمات بجا لانے کے لئے کوشاں تھے کہ چار جرنیلوں نے ان کے ارمانوں کا خون کر دیا ۔کارگل کے نتائج ہمارے لئے کچھ بھی نکلے ہوں ، امریکہ اور بھارت کے مابین ’اسٹریٹیجک اتحاد‘ کے دریچے ضرور واہو گئے۔امریکی خواہش کے بر عکس،پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو چین کے مقابلے میںخطے کے اندر بھارت کی بالا دستی مگر ہر گز منظور نہیں تھی۔ چنانچہ افغانستان میں طالبان پردبائو کے ذریعے امریکی مفادات کی نگہبانی کے لئے ہمارے پالیسی ساز وںکی آمادگی کے باوجود ’انڈیا فیکٹر‘ہر لمحہ ان کی آنکھوں کے سامنے رہا۔گزرتے برسوں ہماری اسی سوچ کو امریکیوں نے ’دوغلی پالیسی‘ کا نام دیا۔آخری تجزیئے میں نتیجہ اخذ کیا گیاکہ پاکستانی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ہی خطے میں بھارتی بالادستی اور افغانستان میں امریکی اہداف کی راہ میں رکاوٹ ہے۔نئی صدی کے پہلے عشرے کے آخری برسوں میں امریکی اور پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے درمیان مخاصمت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لئے ففتھ جنریشن وار فیئرکے نام سے جنگ کی ایک نئی جہت خطے میں متعارف کروائی گئی۔پاکستان اور چین کوبدنام کرنے کی خاطر قائم کئے گئے اور حال ہی میں بے نقاب ہونے والے بھارتی ’فیک نیوز نیٹ ورک‘ کی بنیاد بھی اسی دور میں رکھی گئی تھی۔ سال 2011ء تک اپنے عروج کو پہنچنے والی اس جنگ میں مرکز گریز علاقائی گروہ ،غیر ملکی فنڈنگ سے چلنے والی این جی اوز، پاکستانی مغرب زدہ لبرلز پر مشتمل راتوں رات کہیں سے ابھر آنے والی نام نہاد سول سوسائٹی،پاکستانی میڈیا کا ایک موثر حصہ بالخصوص ایک بڑا انگریزی اخبار،مغربی نشریاتی اداروں کی اردو اور مقامی زبانوں کی نشریات والے اور حسین حقانی نیٹ ورک کی آڑ میں مغربی دارالحکومتوں میں سرگرمِ عمل دیسی کارندے دن رات سویلین بالا دستی، انسانی حقوق ، شخصی آزادیوں اور دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کے نام پر پاکستانی سلامتی کے اداروں کو آڑے ہاتھوں لیتے۔ اگرچہ ڈان لیکس جیسے واقعات سلامتی کے اداروں کے خلاف اسی منظم مہم کا تسلسل تھے، تاہم اس سکینڈل کے مرکزی کردار کھلے بندھوںاداروں پر اسی وقت حملہ آور ہوئے جب میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کو سزائیں ہوئیں اور انتخابات کے نتیجے میں عمران خان برسرِ اقتدار آگئے۔باپ بیٹی مخاصمت پر اترے تو مغربی ایماء پر اداروں کے خلاف برسوں سے کارفرما عناصر نے بھی اپنی امیدیں انہی سے وابستہ کر لیں۔یہی عناصر ان مین سٹریم سیاسی پارٹیوں سے ملکر ہمارے ہاں جبکہ بھارت میں مودی کے حامی عمران خان کو بیک زبان ہو کر ’سلیکٹڈ وزیراعظم ‘ کہتے۔کوئی تو وجہ تھی کہ مودی نے عمران خان کی طرف سے مذاکرات کی ہر پیشکش کو رد کیا۔ میڈیا کے مغرب پسند حصے میں ہماری افغان پالیسی کو مسلسل حدفِ تنقید بنایا جاتا اور انسانی حقوق کے حوالے سے افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت سے ہمدردی رکھنے عناصرکی بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں سرگرمیوں کی حمایت میںدن رات مضمون چھپتے اور ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز چلتے۔ حکومت کی نالائقی، نا اہلی اور مہنگائی پر قابو پانے میں ناکامی کا واویلہ تواتر سے ہوتا۔ اس باب میںہمارے ایک بڑے انگریزی اخبار اور مغربی نشریاتی اداروں کی اردو نشریات میں چھپنے والی رپورٹوں کی سرخیوں میںکئی مواقع پر حیران کن حد تک مماثلت نظر آتی ۔ میاں صاحب لندن پہنچے توعسکری قیادت کو نام لے کرحدفِ تنقید بنانے لگے۔ صاحبزادی کا ایک عرصے سے خاموش ٹویٹرہینڈل بھی آگ اگلنے لگا۔صدر بائیڈن نے حکومت سنبھالی تو پہلی ہزیمت جو اُن کے حصے میں آئی وہ افغانستان سے امریکی پسپائی تھی۔عمران خاں کے غیر محتاط بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔نتیجے میںجہاں ایک طرف صدر بائیڈن پورا سال وزیرِ اعظم عمران خاں کوبوجہ نظر انداز کرتے رہے تو دوسری طرف لندن میںحسین حقانی نیٹ ورک کے زیرِ اثر کارروائیوں اور ملاقاتوں میں تیزی آگئی۔تحریک عدم اعتماد کاغلغلہ اٹھا توصورتِ حال کچھ یوں تھی کہ ایک طرف پورے کا پورا ریاستی بندو بست اوراسی کے زیرِ اثرمیڈیا کا مغرب نواز حصہ عمران حکومت کے خلاف ناقص حکمرانی، کمزور معیشت ، مہنگائی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا شور مچاتے ہوئے روائتی سیاست دانوں کے ساتھ کھڑا تھا تو دوسری طرف پاکستانیوں کی اکثریت بالخصوص مڈل کلاس جم کر عمران خاں کی پشت پر کھڑی ہو چکی تھی۔ یہ وہی پڑھی لکھی مڈل کلاس تھی کہ جسے گزرے برسوںپے در پے میڈیا بریفنگز میں بتایا جاتا رہا تھاکہ پاکستان کو ففتھ جنریشن جنگ کا سامنا ہے ۔ نقشوں ، چارٹوں اور گرافس کی مدد سے سمجھایا جاتا تھاکہ کس طرح سوشل میڈیا پرہمارے عسکری اداروں کے خلاف بیرونی عناصر کے ساتھ ساتھ کئی ایک مقامی عناصر بھی ایک مربوط نیٹ ورک کا حصہ بن کر سر گرم عمل ہیں۔آج کھلاڑی تو سب وہی ہیں، گول پوسٹ مگربدل گئی ہے۔ سازش ہوئی یا نہیں، پورے کا پورا سسٹم آج عمران خان کے خلاف ہے۔صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی پارلیمنٹ چھوڑ چکی ہے۔ کوشش ہے کہ جماعت کے پچیس تیس ارکان کو توڑ کر قومی اسمبلی میں واپس لایا جائے۔میڈیا مینجمنٹ کے حوالے سے صاحبزادی کی ایک کے بعد ایک آڈیو لیک ہو رہی ہے۔حکومت مخالف ٹی وی چینلز دبائو میں ہیں جبکہ نا پسندیدہ صحافی مقدمات بھگتے پھر رہے ہیں۔ اس بیچ معیشت کی صورت حال خوفناک ہو چکی ہے۔ مہنگائی اس قدر ناقابل ِ بیان حدوں کو چھو رہی ہے کہ اچھے خاصے متمول گھرانوں پر سراسیمگی طاری ہے۔ حالیہ ہر سروے تحریک انصاف کی ہر گزرتے دن بڑھتی مقبولیت کی گواہی دے رہا ہے مگرریاست اسے ضمنی انتخابات میں دیوار سے لگانے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔مغربی ایماء پر عمران حکومت کے خلاف برسوں کار فرما رہنے والے نام نہاد جمہوریت پسندلبرلزکا ہدف حیران کن طور پر اب’ اپنی حدود سے تجاوز کرنے والے ادارے‘ نہیں، محض عمران خان ہیں ۔ گذشتہ چار برس سویلین بالا دستی کا واویلہ کرنے والے انگریزی اخبارکوبھی اب سب ہرا نظر آتاہے۔ ایک برطانوی ندی میں خراماں کشتی میں نیم درازد و عدد’مطمئن‘ افرادسمیت ایک ایک کرداربیچ چوراہے برہنہ پڑا ہے ۔بچے بچے کی زبان پرہے کہ مسلم کریسنٹ کے ایک کونے پر اسرائیل تو دوسرے پر چین کے مقابلے میںبھارتی اجارہ داری مقصود ہے۔ افغانستان میں تومغربی پٹھوئوں کی حکومت درکار ہے ہی، پاکستان کے باب میں بھی امریکی اہداف سے اب کوئی بے خبر نہیں۔