پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ اتحاد نے حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے اپنی نشستوں سے مستعفی ہونے کا اعلان تو کیا ہے جس کے بعد اب ہر جانب سے سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں کہ آیا اس فیصلے پر عمل ہو گا بھی یا نہیں؟ اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ کیا استعفے دینے سے حکومت کو وہ نقصان پہنچے گابھی ،جس کا اپوزیشن کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے؟سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان استعفوں سے حکومت کے لیے اتنا بڑا بحران پیدا ہو پائے گا کہ سسٹم پوری طرح رک جائے گا؟ اور ایسا ہونے پر کیا کیا جائے گا؟پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ اْن کے استعفوں سے تمام تر حکومتی سسٹم بیٹھ جائے گا۔جمہوری عمل رک جائے گا،حکومت کو چاہیے کہ بحران سے بچنے کے لیے انتخابات پہلے کروا لے۔پیپلز پارٹی کے پاس سندھ میں صوبائی حکومت ہے جس پر وہ بلا شرکت غیرے حکومت کر رہی ہے۔انتخابات سے تین سال پہلے ایسا قدم اٹھانا اور اپنے سیاسی آپشن ختم کرنا ایسی جماعت کے لیے جو ایک صوبے میں حکومت میں ہے، بہت مشکل ہو گا۔’پیپلز پارٹی کا معاملہ اس لیے بھی مختلف ہے کیونکہ مارچ 2021 میں جب سینیٹ کے الیکشن ہوں گے اور باقی تمام اپوزیشن جماعتیں سینیٹ میں اپنی نشستیں ہار جائیں گی تو اس دوران پیپلز پارٹی وہ جماعت ہو گی جس کی نشستوں کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، بلکہ ہو سکتا ہے کہ ایک آدھ سیٹ کا اضافہ ہو جائے۔تو اگر پیپلز پارٹی صوبائی اسمبلیوں سے استعفیٰ دے دیتی ہے، تو اس کو دوسری جماعتوں سے زیادہ نقصان ہو گا۔اگر ماضی کو دیکھا جائے تو اس دوران سیاسی جماعتوں نے اسمبلیوں سے استعفے دینے کی دھمکیاں تو دیں مگر اس پر عملدرآمد کے حوالے سے نتائج منقسم رہے۔ اور دیکھنے میں آیا کہ اس عمل کو زیادہ کامیابی نہیں ملی۔پرویز مشرف نے صدر بننے کے لیے دوبارہ الیکشن کروائے تو اس موقع پر سیاسی جماعتوں نے یکجا ہو کر آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی اے پی ڈی ایم کے تحت یکجا ہو کر استعفے دینے کا اعلان کیا۔لیکن پیپلز پارٹی پیچھے ہٹ گئی باقی جماعتوں نے استعفیٰ دے دیا لیکن اس کا فائدہ نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی کے پیچھے ہٹ جانے اور اسمبلی میں موجود ہونے کے بعد مشرف کے انتخابات کی ساکھ اور مضبوط ہو گئی، جو نہ ہو پاتی اگر تمام سیاسی جماعتیں ایک ساتھ استعفیٰ دے دیتیں۔اس دوران متحدہ مجلسِ عمل کے اندر بھی پھوٹ پڑ گئی اور وہ بعد میں علیحدہ ہو گئی۔ ایم ایم اے سے منسلک جماعت جمعیت علما اسلام کی خیبر پختونخواہ میں حکومت تھی اور انھوں نے استعفے دینے سے انکار کر دیا تاکہ ان کی حکومت قائم رہے۔ایسی صورتحال کا فائدہ حکومت کو ہو جاتا ہے کیونکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ سب جماعتیں ایک ساتھ استعفے نہ دیں اور باز رہیں۔جب تحریکِ انصاف نے اسمبلی سے استعفے دیے لیکن وہ منظور نہیں ہوئے۔ ’بعد میں انھوں نے اپنے استعفے واپس لے لیے اور اس دوران تکنیکی بنیادوں کو وجہ قرار دے کر انھوں نے الاؤنس بھی وصول کر لیے۔اس وقت تمام تر لڑائی اس بات پر ہے اپوزیشن ریاست اور حکومت کے درمیان اچھے تعلقات کو خراب کرنا چاہتی ہے۔استعفے دینے سے پارلیمان اور حکومت کا کام رْک جاتا ہے۔ ’جب یہ استعفے دیں گے تو اس سے جمہوری عمل رْک جائے گا۔ جب پارلیمان میں آدھے حصے کی نمائندگی ہی نہیں ہو گی تو یہ ایک قومی بحران بن جائے گا۔ وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ کہ اگر حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے استعفے دیے تو وہ فوراً خالی نشستوں پر انتخابات کروا دیں گے۔یہ خاصا مشکل ہو گا۔ اگر استعفوں کے ذریعے اپوزیشن اتنا بڑا بحران پیدا نہیں کر پاتی تو ایسی صورتحال میں وہ باہر نکل جائے گی۔ حکومت کے پاس انتخابات کی طرف جانے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں رہے گا۔ ضمنی انتخابات اس کا حل نہیں ہیں۔ ضمنی انتخابات اتنے بڑے پیمانے پر نہیں ہو سکتے۔ پھر صرف عام انتخابات ہی ہو سکیں گے۔لانگ مارچ سے پہلے حکومت اور سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت کے امکان ہیں، تو اس کا انتظار کرنا چاہیے۔1977 میں اپوزیشن جماعتوں پر مبنی پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) نے قومی اسمبلی کے انتخابات کے نتائج کو غیر منصفانہ اور جعلی ہونے کا الزام لگا کر رد کر دیا تھا۔ان جماعتوں نے اس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے استعفیٰ طلب کیا اور جب انھوں نے نئے انتخابات کروانے کی حامی بھری تو وہ ان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہوئے۔مگر اس شورش کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کا فائدہ اٹھا کر اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیا الحق نے بھٹو حکومت کو برطرف کر کے مارشل لا لگا دیا تھا۔ 2014 میں جنرل راحیل شریف نے ملک میں جاری تحریکِ انصاف کے دھرنے ختم کرنے کے لیے بات چیت کرنے اور دونوں فریقین کے درمیان صلح کروانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکی۔اب سیاسی جماعتوں اور حکومت کے درمیان بات چیت کا بھی عندیہ دیا جا رہا ہے جس کی تصدیق خود وزیرِ اعظم عمران خان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کی۔انھوں نے کہا کہ کرپشن کے مقدمات سے ہٹ کر وہ دیگر معاملات پر سیاسی جماعتوں سے بات کر سکتے ہیں۔اب دیکھا یہ جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم اتحاد سے دور دور جا رہی ہے۔ لورا لائی کے جلسے میں بلاول شریک نہیں ہو ئے اب کہا جا رہا ہے کہ 19 جنوری کو الیکشن کمیشن کے سامنے پی ڈی ایم کے احتجاج میں بھی بلاول شریک نہیں ہونگے، کہا جا رہا ہے کہ حکومت اور پیپلز پارٹی میں کچھ مفاہمت ہوتی جا رہی ہے’اگر حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان کوئی معاملات طے پا جاتے ہیں، تو پھر شاید پیپلز پارٹی استعفی نہ دے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون پہلے پلک جھپکتا ہے۔سیاسی ماہرین کے مطابق پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مختلف حکومتوں کے خلاف احتجاجی لانگ مارچ کو حزب اختلاف کی جماعتوں نے زیادہ تر دھمکی کے طور پر استعمال کیا۔ پاکستانی سیاست میں لانگ مارچ اور دھرنے اہمیت تو رکھتے ہیں، لیکن اکثر حکومتیں ان سے زیادہ پریشان نہیں ہوتیں۔ کوئی بھی اتحاد خواہ اس میں کتنے ہی بڑے اور معتبر نام ہوں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا، جب تک اسے عام آدمی کی حمایت حاصل نہیں ہو جاتی۔ عام آدمی کے مسائل کو سمجھنے کے لیے آپ کو اس تک پہنچنا ہو گا، ہماری سیاسی جماعتوں کا عوام کے ساتھ اس نوعیت کا رابطہ بالکل بھی نہیں ہے جس نوعیت کا ایک سیاستدان رکھتا ہے۔ آپ کے بڑے جلسوں اور دھرنوں سے عام آدمی کو کوئیسروکار نہیں ، سیاسی جماعتیں ابھی تک عوام کو سڑکوں پر نہیں لا سکیں، ایک تو وجہ سردی ہو سکتی ہے، دوسری وجہ اپوزیشن کے جلسوں میں حکومت کی نا اہلی کی باتیں تو کرتی ہے لیکن ان جماعتوں پر جو الزامات ہیں اس حوالے سے عوام کو مطمئن نہیں کر پا رہیں۔