شائد کیا یقینامیں ہاکی کی اسیر رہنے والی آخری پاکستانی پیڑھی سے ہوں،میر ی یاداشت نے اب تک ہاکی کے بے بددل کمنٹیٹر ایس ایم نقی کی سمیع اللہ ،کلیم اللہ کے ناموں کی گردان محفوظ کررکھی ہے ایس ایم نقی جوش سے بھری آواز میں کہتے ’’گیند سمیع اللہ کے پاس۔۔انہوںنے ایک کھلاڑی کو ڈاج دیا آگے بڑھے بھارتی کپتان ان سے گیند چھینے کے لئے سامنے آئے انہوں نے کلیم اللہ کو پاس دے دیا کلیم اللہ تیز ی آگے بڑھے بھارتی کھلاڑی سائے کی طرح ان کے ساتھ ساتھ ۔۔۔انہوںنے ایک کو ڈاج دی اور گیند دوبارہ سمیع االلہ کودے دی ۔۔ سمیع اللہ ڈی کے پاس پہنچ گئے بھارتی کھلاڑی انکا حملہ ناکام بنانے کے لئے تیار ۔۔۔سمیع اللہ نے ایک کو ڈاج دی آگے بڑھے ،اسکوپ کرنا چاہتے ہیں اور اور ۔۔۔گول،سمیع اللہ نے پاکستان کی جانب سے گول کر دیا ‘‘۔ ہائے وہ دن اور افسوس یہ دن !80ء کی دہائی تک پاکستان اپنے قومی کھیل ہاکی پر فخر اور اسے اپناتا تھا،سکولوں ،کالجوں ،یونیورسٹیوں اورواپڈا،پی آئی اے،مختلف بنکوں کی ہاکی ٹیمیں ہوا کرتی تھیں،ہاکی کے میدان سجے اور بھرے ہوئے ملتے تھے ،میں پاکستان ائیر فورس بیس مسرور کے کیمپ نمبر دو اسکول میں پڑھتا تھا،اسکول آٹھ بجے لگتاتھا، ہم آدھا گھنٹہ پہلے ہی اپنی ہاکیوںکے ساتھ پہنچ جاتے تھے اور وہ ہاکیاں کیا ہوتی تھیں،کیکر کی ’’ایل‘‘ شکل کی موٹی ٹہنیاں جسے ہم اسکول کے بائیں جانب کیکر کے گھنے جنگلوں میں تلاش کرتے تھے،اس مفت کی ہاکی کے لئے ہمیں کیکر کے نوکیلے کانٹوں کی سخت مزاحمت برداشت کرنا پڑتی تھی،یونیفارم پھٹ جاتا،ہاتھوں میں کانٹے گھس جاتے اور گھر سے مار الگ پڑتی لیکن اس سب کے باجود فلائنگ ہارس سمیع اللہ ،حسن سردار ،اور اختررسول بننے کی دھن سوار رہتی تھی۔ پاک وہند کایہ خطہ ہاکی کے لئے ہمیشہ ہی سے بڑا زرخیز رہا ہے،تقسیم سے قبل کے ہندوستان کے پاس ہاکی کا کون سا اعزاز تھا جو نہیں تھا’’تقسیم ‘‘ کے بعد ہاکی کا یہ جنون اور مہارت بھی تقسیم ہوئی، ہمارے حصے میں ہاکی کے بہترین کھلاڑی آئے کہنے کو یہ ’’بے بی ‘‘ پاکستان تھا ،سائل نا پید تھے مہاجرین کی آباد کاری سب سے بڑا مسئلہ تھی روٹی کے لالے پڑے ہوئے تھے،ایسے میں کون کھیل تماشوں کی بات کرتا لیکن پاکستان نے اس کسمپرسی میں بھی عالمی کھیلوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا،1956ء کے اولمپکس میں ہم فائنل تک جاپہنچے اور حال یہ تھا کہ ہماری ٹیم کے پاس مکمل کٹ تک نہ تھی،ہمارا ایک کھلاڑی ننگے پیر ہاکی پکڑے میدان میں موجود تھا،میلبورن اولمپکس میں پاکستان رنر اپ رہا لیکن اس نے ہاکی کی دنیا میں سب کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی تھی، چار سال بعد ہونے والے 1960ء کے روم المپکس کے شروع ہی کے میچوں میں مخالفین کے گول کے تختے بجنے کی آوازوں نے پاکستان کے عزائم سب پر واضح کر دیئے تھے اس اولمپکس میں ہارٹ فیورٹ چھ بار کا چیمپئن بھارت تھا،1896ء سے شروع ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں 1928ء تک بھارت فاتح رہا تھا ،قیام پاکستا ن کے بعد 1948ء میں پاکستان نے قائد اعظم کی ہدائت پر اولمپکس میں شرکت کی اور چوتھی پوزیشن حاصل کی اسکے بعد 1956ء کے اولمپکس میںپاکستان اور بھارت فائنل میں آمنے سامنے تھے کانٹے کا مقابلہ ہوا جو بھارت نے ایک گول سے جیت تو لیا لیکن اسے اندازہ ہوگیا کہ یہ اعزاز وہ زیادہ عرصے اپنے پاس نہ رکھ سکے گا اور اس سے اگلے 1960ء کے اولمپکس میں ایسا ہی ہوا،عبدالحمیدحمیدی کی قیادت میں پاکستانی اسکواڈمیں نصیر بندہ،بریگیڈئیر عاطف،عبدالرشید،غلام رسول،منیر ڈار جیسے چیتا چست کھلاڑی موجود تھے، پاکستان نے پہلے ہی میچ میں آسٹریلیا کے تین بار ’’تختے‘‘ بجا دیئے،پاکستان کا اگلا شکار پولینڈ تھا جس کے گول کے تختے آٹھ بار بجے اس سے اگلا میچ جاپان کے خلاف تھا،جاپانی اس میچ میں سوائے بھاگ دوڑ کے کچھ نہ کرسکے ،پاکستان نے جاپانی ٹیم کو ادھیڑ کر رکھ دیااور صفر دس سے میچ جیت لیا،اگلے میچ جرمنی اور اسپین کے خلاف تھے پاکستان نے پاور پلے کھیلنے والی ان دونوں ٹیموں کوبھی دھول چٹا دی اور بھارت کی مزاج پرسی کرنے فائنل میں آگیا۔ ایسے ہی ستمبر کی نوتاریخ تھی تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرے اسٹیدیم میں پاکستان نے شروع ہی سے جارحانہ حکمت عملی اپنائی اور بھارت کا تختہ بجانے کی کوششیں شروع کر دیں،آخرکار موقع مل ہی گیاکپتان حمیدی نے ساتھی فارورڈ نورعالم اور نصیر بندہ کے ساتھ پیش قدمی کی اور بھارت کے ہاف میں پہنچ گئے۔ کپتان نے نور عالم کو پاس دیااور نور عالم نے بھارتی ڈی میں موجود ان کی بدقسمتی نصیر بندہ کو گیند دی جسے نصیر بندہ نے کمال مہارت سے دائیں طرف پھینکنے کا جھانسہ دے کر بائیں جانب گول میں پہنچادیا،ریفری نے لمبی سیٹی بجا کر گول کا اعلان کیا۔پاکستانی کھلاڑی ہاکیاں بلند کرکے فاتحانہ انداز میں واپس پلٹے اور اپنے گول کے دفاع پر ڈٹ گئے۔ بھارت نے اس کے بعد سرتوڑ کوشش کی لیکن ان کا کوئی فارورڈ’’نصیربندہ ‘‘ نہ بن سکا،پاکستان اولمپکس چیمپئن بن گیا، اس نے بھارت کی چوہدراہٹ کا خاتمہ کردیا۔۔۔ اور آج اسی ستمبر کے مہینے میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوتا ہے اور پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدرآصف باجوہ اس قومی کھیل کے خاتمے کی تجویز دیتے ہیں،باجوہ دکھی دل سے کہتے ہیں حکومت پیسہ نہیں دے سکتی توقومی کھیل ہی ختم کردے،ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ جونیئر او ر سینئر ٹیم کو باہرمیچ کھلانے لے جائیں،ہیڈ کوچ کہتے ہیں، دس فیصد کی جگہ ایک فیصدکوٹہ رہ گیا ہے ،ہمارے کھلاڑیوں کو جامعات میں داخلہ تک نہیں ملتا۔۔۔یہ خبر میرے سامنے ہے اور میں اپنے دل پر اداسی کا ناقابل بیاں بوجھ محسوس کر رہا ہوں،ہم کس قدر سفاک لوگ ہیں کتنی آسانی سے اپنی کامیابیاں اپنے طلائی لمحات کباڑ میں دے رہے ہیں برباد کر رہے ہیں اور ہمیں ملال تک نہیں !