افغانوں کو گزشتہ چار دہائیوں سے کڑی آزمائشوں سے گزارا جارہا ہے، صرف اس لیے کہ وہ عالمی طاقتوں کے سامنے نہ جھکنے اور اپنی آزادی کو ہر قیمت برقرار رکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔ افغانوں نے اپنی آزادی کو تازہ اور جوان خون دے کر برقرار رکھا ہے، انہوں نے دو عالمی طاقتوں اور درجنوں حامی قوموں کو عبرتناک شکست سے دوچار کیاہے، ان عالمی طاقتوں کے حملوں کی وجہ سے افغانستان کی آدھی آبادی ترک وطن پر مجبور ہوئی۔ تقریباً تیس لاکھ افغانی شہری شہید اور اس سے دو گنا زخمی ہوکر معذوری کا شکار ہیں۔ یورپ کو عبرتناک شکست کے باوجودشاید ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کے جلال وجبروت کا زمانہ گزرنے ہی والا ہے۔انہیں قریب آئی خستگی اور کہنگی کا کوئی احساس نہیں ، خوفناک جنگی مشینوں ، جدید ترین ٹیکنالوجی، سنگ وآہن میں لپٹی پچاس ممالک کی افواج کو ننگے بھوکے افغان بہادروں نے مار بھگایا ہے، اس کے باوجود افغانستان کی ناکہ بندی کرکے انہیں بھوکوں مارنے کی سازش رچائی جارہی ہے۔ فرد کی زندگی اور اس کی یادداشت محدود سہی لیکن قومیں لامحدود وقت تک زندہ رہتی ہیں۔ قوموں کی یادداشت بھی ہمیشہ برقرار اور تازہ ہے۔ قومیں اچھے دنوں کو شاید بھول جائیں لیکن ظلم وجبر اور خوں آشامی میں گزرے دن ، بچوں کی ہلاکت ، بزرگوں کی تذلیل اور اپنی خواتین کی بے حرمتی کو کبھی نہیں بھول پاتیں ، افغانوں کا انتقام پوری دنیا جانتی ہے۔ وہ نسل در نسل اپنے انتقام اور نفرت کو پالتے رہتے ہیں تاوقتیکہ کہ اپنا حساب چکتا کردیں۔ یور پ اور امریکہ کے علاوہ اسرائیل کے یہودیوں کو بھی عنقریب مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑے گا اس لیے کہ وہ ’’تالیفِ قلب ‘‘کے دنوں کو بھی اپنی سفاک فطرت کی نذر کر بیٹھے ہیں، افغانوں کی مدد کے لیے پاکستان کے سوا کوئی بروئے کار نہیں آیا۔ پاکستان کی کوششیں بھی المیے کی وسعت کے لیے ناکافی ہیں۔ بائیس کروڑ پاکستانی بھوک اور روٹی بانٹ کر دو کروڑ افغان بھائیوں کو ہلاکت اور معذوری سے بچا سکتے ہیں۔ بس پاکستان کی حکومت اور امدادی اداروں کو اپنی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے تازہ ترین حالات پر امریکہ کے مشہور اور کثیر الاشاعت ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کی رپورٹ ایک نظر دیکھ لیں: جنوبی افغانستان سے آئی خواتین کے چہروں سے مایوسی عیاں تھی۔ ان کے بچے بھوک کی وجہ سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے تھے، وہ ان بچوں کی دوا کے لیے ہسپتال میں پہنچی تھیں، وہ چاہتی تھیں کہ ان کے بچوں کی سکڑی ہوئی شریانوں میں خون دوڑنا شروع کردے۔ کئی مہینوں سے انہیں دن میں ایک بار ہی کھانا ملتا تھا، اب وہ بھی کبھی کبھار ملتا ہے، اس سال ان کی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں، وہ دکانداروں سے آٹا ادھا ر لے کر گزارہ کررہی تھیں، اب انہوں نے ادھار آٹا لینا بند کردیا ہے۔ سرد ہوائیں چلنا شروع ہوچکی ہیں۔ ان کے لیے سخت موسم آن پہنچا ہے، اب ماؤوں کو اس خوف نے آن گھیرا ہے کہ ان کے بچے موسم سرما کا مقابلہ نہ کرسکنے کی وجہ سے موت کی آغوش میں جاسوئیں گے۔ وہ بہت خوفزدہ تھیں کہ اس سال موسم سرما اسقدر خوفناک لگ رہا ہے جس کے تصور سے ہی رگوں میں خون منجمد ہونے لگتا ہے، طالبان کو اقتدار میں آئے چار مہینے سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے، افغانستان میں حالات اس قدر خراب ہیں کہ بڑے پیمانے پر قحط پھیلنے کا خطرہ یقینی ہے، امدادی تنظیموں کو خدشہ ہے کہ موسم سرما کے دوران قحط سے لاکھوں بچے مارے جائیں گے۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہے جو گزشتہ بیس سالہ جنگ کے دوران مارے جانے والے افغان شہریوں کی تعداد سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کے غذائی پروگرام کے ایک اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ افغان شہری کئی دہائیوں سے غیر صحتمند غذائیت کا شکار ہے، لیکن اب بھوک کا خطرہ انتہائی شکل اختیار کرچکا ہے، خدشہ ہے کہ سرد موسم میں دو کروڑ اٹھائیس لاکھ شہری زندگی کے خطرے سے دوچار ہونگے جو ملک کی کل آبادی کا آدھے سے بھی زیادہ ہے، یہ صورتحال بدترین افلاس کی نشاندہی کرتی ہے۔ سابق حکومت کو غیر ملکی امداد کی شکل ملنے والے فنڈز بالکل بند ہوچکے ہیں، امریکی حکومت کی طرف سے لگنے والی پابندیوں نے افغانستان کو عالمی مالیاتی نظام سے الگ تھلگ کردیا ہے جس کی وجہ سے افغان بینک بالکل بند ہوکر رہ گئے ہیں، امدادی تنظیموں کی طرف سے انسانی ریلیف پروگرام میں رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں۔ ملک بھر میں لاکھوں شہری مزدوروں سے لے کر ڈاکٹروں ، اساتذہ اور سرکاری ملازمین اپنی آمدنی سے محروم ہیں۔ خوراک اور بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ لاکھوں خاندان انہیں حاصل نہیں کرسکتے ۔ بھوک سے نڈھال بچوں اور ماؤں کا ہسپتال میں سیلاب آیا ہوا ہے اور امدادی اداروں سے ملنے والی میڈیکل سہولتوں کی فراہمی بالکل بند ہے۔ مشکلات میں گھرا یہ ملک بدترین قحط کا سامنا کررہا ہے، اس کے کھیت ویران اور جانور بھوک سے مررہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس سال افغانستان میں گندم کی پیداوار پچیس فیصد تک کم ہے۔ دیہاتوں میں جہاں ستر فیصد آبادی رہتی ہے، ان کے پاس وسائل کا اور بھی فقدان ہے، خون جما دینے والا موسم شروع ہوچکا ہے، عالمی تنظیمیں بچوں کی ہلاکتوں کے بارے میں وارننگ دے رہی ہیں۔ مگر یہ بحران طالبان حکومت سے زیادہ امریکہ کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ دباؤ بڑھتا جارہا ہے کہ بحران کو بدتر بنانے والی معاشی پابندیاں ختم کی جائے۔ افغانستان کے لیے عالمی خوراک کے پروگرام کے ڈائریکٹر ’’میری ایلن میگ گرورٹی‘‘کا کہنا ہے ، ہمیں انسانی تقاضوں کو سیاست سے بالاتر ہوکر دیکھنے کی ضرورت ہے، اس بحران کے شکار لاکھوں افغان بچے ، خواتین اور مرد بے گناہ ہیں۔ جنہیں ایک تباہ کن موسم کی صورت میں موت کے منہ دھکیلا جارہا ہے۔ عشروں تک چھوٹے کسان موسم سرما کی تباہ کاری سے اس لیے محفوظ رہتے تھے کہ ان کے پاس گرمیوں میں ذخیرہ کی ہوئی گندم کھانے کے لیے موجود رہتی تھی مگر اس دفعہ پیداوار اسقدر کم ہوئی ہے کہ لاکھوں خاندانوں کے لیے گزارہ کرنا مشکل ہے۔ افغانستان میںانسانی المیہ اس وقت جنم دے رہا ہے جب پوری دنیا میںحالیہ برسوں کے دوران ’’کرونا ‘‘ کے نتیجے میں بحران اور بھوک میں اضافہ ہوا ہے، اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ برس انہی مہینوں کے مقابلے میں اس سال ستمبر اور اکتوبر میں تیس فیصد سے زائد افغان شہریوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے، جبکہ آنے والے مہینوں میں یہ قلت بلند ترین سطح پر پہنچنے کا خطرہ ہے۔ جب سے طالبان دوبارہ برسراقتدار آئے ہیں امریکہ اور دیگر ممالک اس کوشش میں لگے ہیں کہ طالبان سے معاشی پابندیاں اٹھائیں اور ان کی حکومت کو تسلیم کیے بغیر کسی طرح افغانستان میں انسانی المیے کو روکنے کی کوشش کی جائے مگر ابھی تک افغان عوام کو مدد فراہم کرنے کیلئے کوئی رستہ نہیں نکالا گیا۔ اقوام متحدہ کو تیز رفتاری سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، امریکی حکام کو افغانستان پر معاشی پابندیاں نرم کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ طالبان حکومت متعدد بار صدر جوبائیڈن اور ان کی حکومت سے اس امر کا مطالبہ کرچکی ہے کہ افغانستان پر عائد معاشی پابندیاں نرم کی جائیں۔ اس ضمن میں تھوڑی بہت امداد کی فراہمی کے لیے عالمی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام بھی کیا ہے مگر امداد کے پہنچنے سے پہلے ہی افغانوں کی ایک بڑی تعداد انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہوچکی ہے۔ انہیں بچانے کے لیے فوراً ہی انتہائی تیز رفتاری سے اقدامات نہ کیے گئے تو ایک خوفناک انسانی المیہ رونما ہوسکتا ہے ۔ بچے بھوک سے اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ وہ رونا بھی چاہتے ہیں تو ان کی آواز نہیں نکلتی ، انہیں سانس لینے میں بھی بڑی دقت پیش آرہی ہے۔ ان کی ہڈیاں ٹیڑھی ہوکر باہر کو نکلی ہوئی ہیں۔ جلد ڈھیلی ہوکر لٹک گئی ہے، ہسپتالوں میں عورتوں کا ہجوم ہے، (بشکریہ نیویارک ٹائمز) یہ ہجوم ایک دن ختم ہوجائے گا ، خوشی اور خوشحالی کے دن لوٹ آئیںگے، لیکن ظلم وناانصافی نے انتقام کی جو آگ سینوں میں بھڑکائی ہے وہ ایک دن ظالموں کے گھروں تک پہنچ کر رہے گی۔