آج میں ادھر ادھر کی چند یادیں تازہ کرنا چاہتا ہوں۔ بعض لوگوں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو بڑے لوگ تھے اور ان سے یادیں وابستہ ہیں۔ منیر نیازی‘ پروین شاکر‘ شمس الرحمن فاروقی اور بے نظیر بھٹو۔ چاہوں تو 25دسمبر کے حوالے سے اپنے قائد اعظم کو بھی یاد کر لوں۔ ایسے ہی آج کے حالات سے منہ چھپانے کو دل چاہتا ہے۔ لیکن ان یادداشتوں میں بہت سی خوبصورت دنیائیں چھپی ہوئی ہیں۔ تازہ ترین خبر تو شمس الرحمن فاروقی کی ہے جن کا ان دنوں ہی انتقال ہوا ہے۔ ان کے مرنے کی خبر سن کر مرا پہلا تاثر یہ تھا کہ اب ہندوستان کی ادبی دنیا میں کوئی فرد ایسا نہیں ہے جس کی خاطر میں اس ملک کی طرف دیکھوں ۔ میں ان سے دوبار ملا ہوں۔ انہوں نے اردو ادب میں بہت ہی قیمتی خزانہ چھوڑا ہے۔ پہلے پہلے ان کا نام ایک کھلا ذہن رکھنے والے نقاد کے طور پر سامنے آیا ہم جو حسن عسکری اور سلیم احمد جیسی تنقیدی بصیرت کے قائل تھے۔ ان پر توجہ دینے لگے پھر انہوں نے کچھ کام ایسے کئے جو کسی ایک شخص کے بس میں نہیں ہے۔ مثال کے طور پر کسی شاعر کا اس طرح تجزیہ کرنا جیسا ’’شعر شور انگیز‘‘ میں انہوں نے میر تقی میر کے کلام کا کیا ہے‘ کسی ایک انسان کے بس میں نہیں۔ اس انداز تنقید کی جزیات پر تو ہم جیسے بھی اعتراض کر سکتے ہیں۔ مگر اس کی چاروں جلدیں اگر پڑھنے کی ہمت ہو تو آپ کو حیران کن زاویے کھلتے نظر آئیں گے۔ اتنا مبسوط مطالعہ اس سے پہلے شاید کسی انسان کے بس میں نہیں تھا۔ کسی جن کا بلکہ جنوں کا کارنامہ محسوس ہوتا ہے۔ اس کی خبر مجھے ان کے ایک قول سے ملی جو انہوں نے داستان امیر حمزہ کے بارے میں کہا تھا۔تحسین فراقی اس کے راوی ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی نے ایک دن کہا کہ مرے سوا برصغیر پاک و ہند میں شاید ہی کوئی شخص ہو گا جس نے داستان امیر حمزہ کی 46کی 46جلدیں ‘ ساری کی ساری پڑی ہوں انہوں نے اردوداستان پر جو لازوال کام 5جلدوں میں کیا وہ اس مغز ماری کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس نقاد نے ایک ناول بھی لکھ مارا۔ اس سے کم سے کم یہ اندازہ ہوا کہ ایک ادب فہم آدمی کی مار کہاں کہاں تک ہے۔ ناول کا نام ہی غور طلب ہے: کئی چاند تھے سرآسماں۔یہ جو میں اکھڑی اکھڑی سی باتیں کر رہا ہوں شاید اس لئے کہ شمس الرحمن کسی ایسے سرسری تذکرے کا تقاضا نہیں کرتا۔ مری ان سے پہلی ملاقات سلیم احمد کے مسکن عزیز پر ہوئی تھی۔ سلیم بھائی نے انہیں کھانے پر مدعو کر رکھا تھا۔ ہمیں تو وہاں موجود ہونا ہی تھا۔دوچار گھنٹے کی نشست بھی رہی۔ خوب نوک جھوک۔ دسترخواں پر سلیم بھائی کی آپا(والدہ) کی مرغ مسلم کی ایک خاص ترکیب سے تیار کردہ پلیٹیں دھری تھیں۔شمس الرحمن فاروقی بڑے موڈ میں بولے سلیم بھائی نے بڑے مرغے پال رکھے ہیں۔ ان کا اشارہ اس بحث کی طرف تھاجو کھانے سے پہلے برپا ہوئی تھی۔ قیام الدین صدیقی جو سلیم بھائی کے میرٹھ سے دوست تھے۔ اور مشہور ہاکی سٹار اصلاح الدین کے چچا تھے‘ جھٹ بولے‘ پالے نہیں ہیں‘ باہر سے آتے ہیں‘ کٹتے یہاں ہیں۔ اس کی داد جیسی شمس الرحمان فاروقی نے دی اس سے پتا چلتاتھا وہ فقرہ لگانا ہی نہیں۔سہنا بھی جانتے تھے۔ آخری بار مجلس ترقی ادب کے دفتر میں برادرم تحسین فرا قی نیانہیں مدعو کر رکھا تھا۔ بس چند احباب تھے۔ مہمان اس دن خوب رواں تھے۔ سبھی نے حصہ لیا‘ مگر یوں لگتا تھا وہ ادب کے بارے میں بہت باتیں کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کا حق تھا۔ خوب محفل جمی تھی جس میں شہر لاہور کے چند چیدہ چیدہ اہل دانش موجود تھے۔ اب خبر آئی ہے تو میں ان دو ملاقاتوں کے درمیان کے وقفے میں بہت کچھ یاد کر رہا ہوں۔ ان کی کتابیں اتفاقی ہیں‘ انہیں پھر سے دیکھوں۔ ضرور دیکھوں گا‘ مگر ابھی تو میں ان کے غیر معمولی کام کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔ ہندوستان کا ادبی افق ویران ہو گیا ہے۔ ادیبوں کی بات شروع ہوئی تو دوسرا تذکرہ پروین شاکر اور منیر نیازی کا ہو جائے۔ پروین کی دوسری کتاب سرورق جب شائع ہوئی تو اس پر واحد فلیپ میرا تھا۔ میں نے گویا کوئی اس طرح کی بات کی تھی کہ خوشبو سے صدبرگ کا سفر ایک لڑکی کے عورت بننے کا سفر ہے۔ پھر ایک ایسی بات عرض کی تھی جس کی داد برسوں لیتا رہا کہ عورت بننا اتنا مشکل ہے کہ میں نے بڑی بڑی عورتوں کو اس خوف سے مرد بنتے دیکھا ہے۔ یہ بات خود مجھے اتنی اچھی لگی کہ برسوں اس پر مضمون باندھتا رہا۔ اس آئیڈیل عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور سے منسوب ایک قول نقل کیا جس پر شیخ اکبر ابن عربی نے پورا مضمون باندھ دیا کہ خوشبو‘ عورت اور نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ عرض کیا اس آئیڈیل عورت کا بیسویں صدی میں کوئی ہلکا سا عکس بھی دکھا دے تو تاریخ انسانیت کا بہت بڑا کارنامہ ہو گا۔ کچھ ایسا ہی عرض کیا تھا۔ اس سے پہلے خوشبو پرمضمون باندھتے ہوئے میں نے اپنی بات کا آغاز اس بات سے کیا تھا کہ سلیم احمد نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ عورت کی طرح شاعری بھی پورا آدمی مانگتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر شاعر خود عورت ہو تو وہ کس چیز کا تقاضا کرے گی۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب نہ ہماری نام نہاد نسانی تنقید دے سکی نہ میں کسی نتیجے پر پہنچ سکا۔ البتہ یہ کہہ کر جان چھڑا لیتا ہوں کہ کسی بھی تہذیب کی بنیاد اس مساوات (ایکولیشن) پر ہے جو اس تہذیب میں مردو زن کے درمیان قائم ہوتی ہے۔ رہے ہمارے خاں صاحب جنہیں دنیا منیر نیازی کہتی ہے۔مرے شہر ساہیوال کے رہنے والے تھے جہاں مجید امجد کی سرپرستی میں انہوں نے اپنے ادبی جریدے کا آغاز کیا تھا۔ ایسا منفرد مزاج شاعری کی دنیا میں بھی کم پایا جاتا ہے جس میں نہ گھسی پٹی روحانیت ہے۔نہ جعلی انقلابیت‘ اس کی ہربات نرالی تھی اور اس منفرد انفرادیت کی دنیا نے ان کو داد بھی دی۔ وہ بھی انہی دنوں ہم سے رخصت ہوئے۔ آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل بھی جائے۔ آخری ذکر میں بے نظیر کا کرنا چاہتا ہوں وہ 27دسمبر کو شہید کر دی گئیں۔میں اس وقت چینل چلانے کے لئے کراچی سے لاہور لایا گیا تھا۔ بھیگتی آنکھوں سے ہم نے چینل آن کر دیا۔زیادہ لکھنا نہیں چاہتا۔ اسی دن مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ چینل چلنے والا نہیں۔ محترمہ کے انتقال سے چند دن ہی پہلے میں نے دوبئی میں ٹی وی ون کی طرف سے ان کا انٹرویو کیا تھا۔ اختتام پر جہاں بی بی نے چاکلیٹ اور کتابیں دیں وہاں یہ بھی کہا کہ ساتھیوں نے بتایا تھا کہ آپ سیاسی طور پر ہمارے ساتھ نہیں ہو‘ مگر پیشہ ورانہ طور پر آپ کوئی غلط بات نہیں کرو گے۔ میں تو ڈری ہوئی تھی‘ مگر انٹرویو کا تو پتا ہی نہیں چلا۔ مجھے علم ہے کہ بی بی کی ہدایت پر وہ انٹرویو پارٹی میں مقبول ہوا۔ یہاں میں بی بی پر پیپلز پارٹی پر اور خود بھٹو پر بہت کچھ لکھ سکتا ہوں۔ یہ سب چھوڑیے تاریخ کتنے ورق پلٹ گئی اور دنیا کیا سے کیا ہو گئی۔ اب میں چاہوں تو اپنے قائد اعظم کا تذکرہ بھی کر سکتا ہوں یا بیلنس رکھنے کے نواز شریف کا ذکر بھی چھیڑ سکتا ہوں جن کا یوم پیدائش بھی 25دسمبر بیان کیا جاتا ہے۔ مگر یہاں اتنا ہی کافی ہے،ہرچندیادیں صرف اس لئے ہیں کہ بتا سکوں کہ ہماری دنیا بہت وسیع تھی‘ ہم نے جانے کیوں اسے مختصر کر دیا ہے اور یہ کہ یہ دنیا بہت خوبصورت تھی۔ ہم نے اسے بدصورت بنا ڈالا ہے۔