بلوچستان کی سنگلاخ دھرتی پر‘ روح کو تڑپا دینے والا منظر کئی دنوں سے ضبط کے آنسوئوں کی طرح کنار چشم رکا ہوا ہے۔ میرے احساس میں نظم کی یہ سطریں بار بار ابھرتی ہیں اب نہیں ہوتیں دعائیں مستجاب اب کسی ابجد سے زندان ستم کھلتے نہیں سبز سجادوں پر بیٹھی بیبیوں نے جس قدر حرف عبادت یاد تھے۔ پو پھٹے تک انگلیوں پر گن لئے اور دیکھا رحل کے نیچے لہو ہے شیشۂ محفوظ کی مٹی ہے سرخ۔!! نہ جانے اختر حسین جعفری نے ظلم‘ موت اور ماتم کے کون سے ایسے منظر دیکھے تھے کہ نظم کے ان مصرعوں میں ضبط کے سارے آنسو اور رکی ہوئی تمام سسکیاں پرو ڈالیں ،نظم کیا ہے کلیجے چیرتا ہوا ایک نوحہ روح کے اندر صدیوں کی اداسی انڈیلتا ہوا ایک منظر ہے۔ نظم کے طرح دار بے مثل شاعر اختر حسین جعفری آج اگر زندہ ہوتے اور سیاہ چادروں میں لپٹی سوگوار بیبیوں کے سامنے رکھی ہوئی ظلم گزیدہ‘ دریدہ بدن لاشوں کی قطاریں دیکھتے۔ جنہیں سفید لٹھے کی چادروں سے ڈھانپا گیا ہے۔ سفید لٹھے کی ان چادروں پر سرخ روشنائی سے یا حسینؑ لکھا ہے یہ منظر اختر حسین جعفری دیکھتے تو پھر کرب‘ رنج و ملال اور ظلم کی ان آخری حدوں پر ماتم کرتے۔ ان مظلوموں کے دکھ کو نظم کے کس پھول کا کفن اوڑھاتے۔!! برسوں پہلے اس طرح دار شاعر نے تو لکھا تھا کہ یا الٰہی مرگِ یوسف کی خبر سچی نہ ہو۔ یا پھر کچی آنکھوں سے جنازے دیکھنا اچھا نہیں۔!!مگر یہاں تو مرگ یوسف کی خبر بھی سچی ہے اور کچی آنکھوں سے مسلسل کئی راتوں سے جنازے دیکھے جا رہے ہیں۔ مظلوم ہزاری مزدوروں کی میتیں ‘ قطار در قطار پڑی ہیں اور اہل اقتدار کے سنگلاخ دل پھر بھی نہیں پگھلتے۔ رنج و ملال میں ڈوبی ہوئی سوگوار بیبیاں، کتنی راتیں ان میتوں کے ساتھ بیٹھے بیٹھے آنکھوں میں گزار چکی ہیں۔ اپنے کسی پیارے کی بے جان جسم کو ’’میت‘‘ کی صورت سامنے رکھ کر رات کاٹنا ایک صدی سے بھاری ہوتا ہے اور یہاں ان مظلوموں نے کتنی راتیں کاٹ دی ہیں۔ کتنی بار پو پھٹے کے منظر میں خون ناحق کی سرخی کو گھلتے ہوئے دیکھا ہے۔ظلم رنج و ملال کی اس آخری حد پر لزرتے ہوئے ان دلوں کو حکمران وقت کا دلاسہ چاہیے۔ وہ اس انتظار میں ہیں کہ وزیر اعظم پاکستان خود تشریف لائیں۔ اگر ان کے دلوں کو بھسم کرتی ان کی روحوں کو چیرتی ظلم کی اس ہولناکی کو محسوس کریں، مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے وزیر اعظم کے پاس ان فالتو کاموں کے لئے وقت نہیں ہے۔ یہ تو ظلم اور غم کے وہ منظر ہیں کہ انہیں دیکھ کر پتھر بھی پگھل جاتے ہیں۔ میرے پاس تو لفظ نہیں ہیں کہ اہل اقتدار کی اس بے حسی کا ماتم کر سکوں۔ ہم بدقسمتی سے یہاں سانحوں پر حادثوں پر سیاست کرنے کی روایت موجود ہے سو جب سیاست کرنا تھی تو عمران خان ہر ایسے موقع پر بنفس نفیس پہنچتے، میڈیا ٹاک کرتے۔ اس وقت کے حکمرانوں کی بے حسی پر انہیں شرم دلاتے۔ اس وقت ان کی باتیں سن کر ان کے چاہنے والے کیسے جھوم جاتے تھے کہ یہی وہی مسیحا ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔یہی ہے وہ نجات دہندہ جو ہمارے سارے زخموں کی رفوگری کرے گا۔مگر آج خواب ایسے عذاب میں ڈھلے ہیں کہ بیان ممکن نہیں۔ نہ جانے وزیر اعظم کو سوگواروں کے پاس جانے میں کیا امر مانع ہے۔؟ عدم تحفظ کے خدشات بلوچستان حکومت کی تبدیلی کے مطالبے کا سامنا یا پھر اپنی روایت کے مطابق وہ جنازوں اور تعزیت سے ویسے ہی گریز کرتے ہیں۔ بات سمجھ سے باہر ہے۔ ایک لمحے کے لئے آپ خود کو وزیر اعظم کی جگہ پر تصور کر کے بس یہ سوچیں کہ پانچ دنوں سے مظلوم میتیں اس لئے نہیں دفنا رہے کہ آپ آئیں گے تو آپ خود کانپ کر رہ جائیں گے آپ کی بھوک پیاس نیند سب اڑ جائے گی۔ دل بے سکون اور ر وح طمینان سے خالی ہو جائے گی اور اس وقت تک چین نہیں ملے گا جب تک آپ ان سوگواروں کے پاس پہنچ نہ جائیں۔ لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ آپ کے سینے کے اندر ایک عدد دھڑکتا ہوا دل ہونا چاہیے اگر آپ اس نعمت سے عاری ہیں تو پھر بھلے کوئی پھانسی بھی چڑھ جائے‘آپ کو کیا فرق پڑتا ہے۔آخری خبروں کے آنے تک مریم نواز اور بلاول بھٹو کوئٹہ سوگواروں کے پاس پہنچیں گے۔ لیکن ڈیڈ لاک تو برقرار رہے گا کیونکہ مطالبات ریاست کے حکمران سے ہیں۔ جب کوئی روح اللہ کے حضور حاضر ہو جاتی ہے تو جسموں کو سپرد خاک کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔ ہزارہ برادری اس بات کو سمجھ کر اپنے پیاروں کو سپرد خاک کریں۔ تاکہ اگلے سوال اٹھا سکیں اور میڈیا میں ان سلگتے ہوئے سوالات پر بات ہو سکے کہ ان مظلوموں کو ناحق قتل کرنے کی پلاننگ کہاں پر ہوئی۔ اس بدترین دہشت گردی کو کیوں نہیں روکا گیا۔ ہزارہ برادری کی نسلیں ختم کرنے میں کون سے دشمن کا کردار اہم ہے کیوں ریاست ہزارہ برادری کی حفاظت کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ اس سے جڑے بے شمار سلگتے ہوئے سوالات پر تبھی بات چیت کا سلسلہ شروع ہو گا جب سوگوار اپنے پیاروں کی میتیں دفن کر دیں گے تب تک دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ نہ جانے اختر حسین جعفری آج زندہ ہوتے تو اس دلخراش صورت حال کو نظم کے کس پھول کا کفن اوڑھاتے۔!! ٭٭٭٭٭