اپوزیشن جب حکومت کی ناکامیاں گنوانی شروع کرتی ہے تو بہت دلچسپ انداز میں کچھ باتیں کی جاتی ہیں۔ جیسا کہ بلاول بھٹو زرداری فرماتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے کرپشن کے ریکارڈ توڑ دئیے۔ کسی شخص نے ایک بہت بنیادی سوال کیا کہ یہ ریکارڈ کس نے بنائے تھے جو اب توڑے جا رہے ہیں۔ اسی طرح سے بار بار طعنہ دیا جاتا ہے کہ دو سال ہو گئے کچھ بھی نہیں بدلا۔ اگر کچھ بھی نہیں بدلا تو اس سے پہلے کی حکومتیں تو دعوے دار تھیں کہ پاکستان کی قسمت بدل کر رکھ دی ہے تو اب مزید کیا بدلنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ ہم تو کرپٹ اور نالائق تھے، پی ٹی آئی تو بہت ایماندار اور محنتی ہے اور دعوے بھی تبدیلی کے تھے تو تبدیلی کیوں نہیں آ رہی۔اس سے کیا یہ مراد لی جا سکتی ہے کہ پرانی حکومتیں واقعی کچھ نہیں کر پائیں اور دوسرا یہ کہ عمران خان کے تبدیلی کے نعروں پر انکو بھی پی ٹی آئی کے حامیوں جتنا ہی اعتمادہے اس لئے وہ عمران خان کو بار بار پکار رہے ہیں کہ تبدیلی لا کر دکھائو۔ شاید اس ’’تبدیلی لا کر دکھائو‘‘ میں اپوزیشن چیلنج بھی کر رہی ہے کہ ہم نے جو کام ملک اور اسکے اداروں کے ساتھ کر دکھایا ہے تم اسکو بدل کر دکھائو۔ اپوزیشن کی اس قسم کی باتوں سے مجھے ایک لطیفہ نما حقیقی واقعہ یاد آ رہا ہے۔ ہمارے ایک دوست فوج میں تعینات تھے انکی یونٹ کسی دوردراز علاقے میں تھی۔ وہاں پر راشن پہنچانے کا انتظام ہر پندرہ روز کے بعد ہوتا تھا۔ ایک دفعہ وہ ٹرک جو راشن سے لدا ہوا تھا اس یونٹ سے چند کلو میٹر دور کچے راستے میں دھنس گیا اور زور لگانے کے باوجود نہیں نکل پا رہا تھا۔خیر یونٹ کو بتایا گیا انکے پاس ہی انجنئیرنگ یونٹ کے لوگ تھے انہوں نے پہلے جیپ سے رسہ باندھ کر اسکو نکالنے کی کوشش کی جو بے سود ثابت ہوئی۔ پھر بڑا ٹرک منگوایا گیا وہ بھی اس برے طرح پھنسے اور لدے ہوئے ٹرک کو نہ نکال سکا۔ آخر کار انہوں نے سوئس کا بنا ہوا ٹو ٹرک منگوا لیا جو کہ کسی بھی ایسی جگہ پر پھنسی ہوئی گاڑی کے لئے مجرب حربہ ہوتا ہے۔لیکن یہ ٹو ٹرک بھی ناکام ہو گیا۔ دھنسے ہوئے ٹرک کا ڈرائیور اقبال (بالا)تھوڑی دور کھڑا چھوٹی انگلی میں سگریٹ دبا کر اسکے کش لگا رہا تھا اور اس سارے تماشے سے محظوظ ہو رہا تھا۔ ہمارے دوست نے اسے دیکھا تو اس سے گویا ہوئے کہ ٹرک پھنسا ہوا ہے اور تم مزے سے کش لگا رہے ہو کچھ مدد کرو۔ اقبال ڈرائیور نے جواب دینے کی بجائے بہت فخر سے کہا ’’گڈی بالے پھسائی ہووے تھے نکل جاوے‘‘(گاڑی اقبال نے پھنسائی ہو اور نکل جائے)۔ اپوزیشن کا رویہ اس ڈرائیور والا ہے جو بار بار حکومت کو چیلنج کر رہے ہیں کہ ملک کو اس دلدل سے نکال کے دکھائو۔پی ٹی آئی نے وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں یہ چیلنج قبول کر رکھا ہے اور انکا دعویٰ بھی ہے کہ وہ کسی حد تک دلدل سے باہر آ چکے ہیں۔ لیکن کچھ بوجھ ہیں جو انکو شاید پوری طرح سے باہر آنے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔اس میں غیر منتخب مشیروں کو خاص طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم کو اور خاص طور پر وزیر اوعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو نااہلی کے طعنے دئیے جا رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی قسمت دیکھئے کہ وہ جب سے منتخب ہوئے ہیں اس دن سے انکی گورننس کے تجربے، انتظامی قابلیت ، خاموش طبعی یا سادگی اور ایک پسماندہ علاقے سے تعلق کے حوالے سے آئے روز سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ابھی انہیں وزیر اعلیٰ کے دفتر کے راستوں کا مکمل علم بھی نہیں ہوگا جب سے انکے خلاف ایک محاذ کھلا ہوا ہے۔ایک بھرپور مہم جاری ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔اس مہم کے دوران خواہش کو خبر بنانے والے حضرات چند مہینوں کے وقفے سے انکی تبدیلی کی خبر اڑاتے ہیں اور جب یہ خبر درست ثابت نہیں ہوتی تو دوسری خبر اڑائی جاتی ہے کہ طاقتور حلقوں کی نا پسندیدگی کے باوجود عمران خان وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ہٹانے کو تیار نہیں ہے اور عمران خان کی ان حلقوں سے لڑائی شروع ہو گئی ہے۔ پھر اس بنیاد پر باتیں، خبریں گھڑی اور پھیلائی جاتی ہیں۔ اتنی دیر میں حکومت کوئی ایسا کام کرتی ہے جس سے توجہ وقتی طور پر ادھر ادھر ہو جاتی ہے جیسا کہ، پٹرول کی قیمت، کرونا پر قابو پانے کے حوالے سے الزامات، عزیر بلوچ رپورٹ اور پی آئی اے کے پائلٹس کے جعلی لائسنس وغیرہ۔ جیسے ہی ایسی خبروں میں کمی ہوتی ہے پھر عثمان بزدار کی خبر وہیں سے شروع کی جاتی ہے کہ کارکردگی سے عمران خان خوش نہیں ہیں اور بہت جلد وسیم اکرم پلس منفی کر کے کسی او رکو پلس کر دیا جائیگا۔کچھ دن بعد پھر وہی کہانی دہرائی جا رہی ہو گی کہ عمران خان ڈٹ گئے ہیں اور پھر ایک دفعہ طاقتور حلقوں کی ناراضگی کا انہیں سامنا ہو گا جس کے نتیجے میں یہ پیش گوئی کی جائے گی کہ وزیر اعظم بزدار کو بچاتے بچاتے اپنی کرسی سے ہاتھ دھونے والے ہیں۔ یہ خبریں اور افواہیں ہی اب شاید اپوزیشن کی واحد امید رہ گئی ہیں جنکو اڑا کر وہ خود کوبھی طفل تسلّی دیتے ہیں اور اپنے ورکرز کو بھی امید دلائے رکھتے ہیں کہ صبح گیاکہ شام گیا۔ اگر ملکی سیاست کے منظر نامے کو مدّنظر رکھیں تو اپوزیشن اور ہمارے باخبر تجزیہ کاروں کی باتوں میں بڑا وزن ہے۔ انکو سنکر یقین کرنے کو دل کرتا ہے کہ بس حکومت کی رخصتی طے ہو چکی ہے۔ لیکن جب آپ علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں اور اس وقت پاکستان کی سٹینڈنگ کو دیکھتے ہیں توموجودہ قیادت اور حکومت مستحکم نظر آتی ہے۔ چین، امریکہ،روس، افغانستان، ایران، یورپ اور خطے کو دوسرے ممالک سوائے بھارت کے پاکستان کے ساتھ ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔بھارت کو بھی افغانستان کے ساتھ تجارت کے حوالے سے پاکستان رسائی دینے کا اعلان کر چکا ہے۔اسکے بعدا مید ہے کہ بھارت کی قیادت بھی عقل کے ناخن لے گی۔حرف آخر یہ کہ کوئی کہیں نہیں جا رہا لیکن خواہشیں خبر بن کر آتی رہیں گی۔