مکہ کے سرجھکانے کے بعد،ہادی عالمؐ کے سامنے عثمان بن طلحہ چابیاں لے کر حاضر ہوئے۔ماضی قریب میں قبیلہ بنی شیبہ کے اسی فرزند نے خانہ کعبہ کا دروازہ کھولنے سے انکار کیا تھا۔مگر صادق و امینؐ نے چابیاں اسے لوٹا دیں۔باوجود کہ وہ مسلمان نہ تھے۔اللہ تعالیٰ کا بھی فرمان ہے:امانتیں اہل افراد کو دیں۔ ایمان و یقین کی پختگی۔ حق پر ہونے کا اعتماد۔اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پر بھروسہ، مومن کا اثاثہ قرار دیا گیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اہل پاکستان نے سب سے بڑی امانت‘ ووٹ کا کبھی درست استعمال کیا؟ 74برسوں میں کوئی ڈھنگ کا امانت دار‘باصلاحیت، سلیقہ مند‘باشعور ‘خلقِ خدا کا غمگسار‘فکر و تدبر اور حکمت و دانش کا داعی حکمران چنا؟ہر معرکے کے بطن سے ایک اور معرکہ پھوٹتا ہے۔چھانٹی کا عمل جاری رہتا ہے‘تاکہ اہل اور نااہل کی شناخت ہو سکے۔ امین اور خائن کی پہچان ہو ۔مگر ہم کب تک کھوٹے اور کھرے کی پہچان میں لگے رہیں گے۔22کروڑ انسان‘سب کا مستقبل مخدوش ہے۔آنے والے دن کا منظر سورج کی مانند واضح ہے۔فیصلے کا وقت آ پہنچا،مگر سیاسی قیادت قوتِ فیصلہ سے محروم۔ معاشی خسارہ بڑھتا جا رہا،قرض116ارب ڈالرکو چھو رہا۔مگر ہر برس ملک میں 2 ہزار ارب ٹیکس چوری کر لیا جاتا ہے۔معاشی ناکامی کی پہلی سیڑھی سود کا جاری رکھنا ہے۔یکم جولائی 1948ء کو قائد اعظم نے اسٹیٹ بنک کا افتتاح کرتے فرمایا تھا:ہم ایسا بینکنگ نظام وضع کریں گے، جو اسلام کی معاشرتی و معاشی نظام زندگی سے ہم آہنگ ہو۔74برس گزرے، ہم بانی پاکستان کے الفاظ کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔حالانکہ اسلام نے سود سے خلاصی میں عزت اور وقار سے زندہ رہنے کا ایک راستہ دیا۔آئین پاکستان کی شق نمبر 38(F) بھی کہتی ہے: حکومت سود کا خاتمہ کرے۔اس سے اسلامی قدریں ابھریں گی۔مسلم تہذیب و تمدن کا چرچا ہو گا۔ہم سرخرو ہونگے۔ایسے سرخرو ہونگے کہ عظمت، رفعت و بلندی ٹوٹ ٹوٹ کر برسے گی۔وگرنہ بربادی ہی بربادی۔ جناب نبی کریم ؐ نے خطبہ حجتہ الوداع میں ارشاد فرمایا:آج سے تمام آثار جاہلیت کالعدم اور ساقط ہیں۔ہر قسم کا سود ممنوع ہے۔کبھی سوچا‘غور و فکر کیا؟آپؐ نے جس عہد‘ ماحول اور حالات میں خطبہ دیا،وہ آج کے زمانے سے یکسر مختلف تھا۔ دنیا وسیع نہ تھی۔ امریکہ کے دونوں براعظم گوشہ گمنامی میں تھے۔ آسٹریلیا دریافت نہ ہوا تھا۔ افریقہ کے بڑے حصے پر آفتاب تمدن کی روشنی نہ پہنچ سکی تھی۔ایشیا و یورپ کے کئی علاقے اجاڑ اور غیر آباد تھے۔ عرب‘ چین‘ ہندوستان ‘ ایران ‘ اسکینڈے نیویا‘ فرانس اور سپین میں تہذیب و تمدن کی ابتدائی شعائیں پھوٹ رہی تھیں۔کہیں تیز‘ کہیں مدھم۔ ریاست مدینہ کمزور تھی۔مگر مکہ کی گرم لُو سے بھری گلیوں میں غیظ و غضب سے بھرے قریش سرداروں کے درمیان جن لوگوں نے کلمہ پڑھا تھا،وہ قول و فعل کے پکے تھے۔قید و بند کے اذیت ناک مہ و سال گزارے۔مگر جھکنے سے انکار کرتے رہے۔فوراً فرمان رسولؐ پر عمل کیا۔مگر موجودہ امتیوں کا م رویہ اس کے برعکس ہے ۔ وفاقی شرعی عدالت نے 1991ء میں 57 صفحات پر فیصلہ تحریر کیا۔جس میں 28 مروجہ قوانین غیر آئینی اور سودی کاروبار ممنوع قرار دیا تھا۔تب وزیر اعظم میاں نواز شریف نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا،حکم امتناعی لینے میں کامیاب ٹھہرے۔مگر 23 دسمبر 1999ء کو سپریم کورٹ کے فل بنچ نے تاریخ ساز فیصلہ سود کی حرمت کا دیا۔اس فیصلے کے خلاف ایک نجی بنک نے اپیل دائرکی۔تب سے لے کر 3 دسمبر 2021ء تک اس کیس میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی۔دنیا سودی نظام سے دور جا رہی ہے۔عدالتی معاون انور منصور خان نے بتایا :آئی ایم ایف بھی کہہ رہی ہے کہ سود کے بغیر نظام چل سکتا ہے۔ 1965ء سے لے کر اب تک آنے والے تمام آئین سودی نظام کے خاتمے کی بات کرتے ہیں۔ ریاست مدینہ کی طرز پر ریاست بنانے کے دعویدار کہاں ہیں؟کیا ابھی گریباں میں جھانکنے کا وقت نہیں آیا؟ فرمان رسولؐ ہے: اَعمَالُکُم عُمَّالُکُم۔ جیسے اعمال‘ ویسے عمال۔ تاریخ شاہد ہے ،لیڈر نہیں قومیں سرگرم ہوتی ہیں۔بزدل ‘ کام چور‘مردہ قوموں کو زندہ لیڈر عطا نہیں کئے جاتے۔ہماری ناکامیوں کے سائے دراز ہوتے جا رہے ۔پولیس پہلے برباد تھی ،اب یکسر تباہ۔سیالکوٹ واقعہ تازہ ترین مثال ہے۔وقت ریت کی طرح ہاتھوں سے نکل رہا ہے ۔توجہ چاہیے ،بہت توجہ ،ورنہ خسارہ ہی خسارہ ۔ رانا ثناء اللہ نے دھمکی دی: ای وی ایم مشینوں کو پولنگ پر آگ لگائیں گے۔بعض لوگوں کو کیڑے نکالنے کی عادت ہوتی ہے۔وہ کسی کانٹے کی ہلکی سی چبھن کو بہانہ بنا کر بھری بہارکی رعنائیوں کو کوسنے لگتے ہیں۔مگر رانا ثناء اللہ کا معاملہ الگ ہے۔ خالصتاًالگ ۔ انہیں یقین ہے کہ شفاف الیکشن میں جیت اک خواب بن جائے گی۔ان کے حلقے میں اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد ہے جو موصوف کے کردار سے واقف ہیں۔باور یہ کروایا جا رہا ہے ۔ہوا ایسی چل پڑی ہے کہ موجودہ سسٹم کی کوکھ سے مثبت نتائج جنم نہیں لے سکتے مگرچرب زبان لیڈران اس موضوع پر لب کشائی کے لئے تیار نہیں۔جمہوریت سیاستدانوں کے حرم کی کنیز کے سوا کچھ نہیں۔انتخابی عمل کو بے اعتبار اور جمہوریت کو بے وقار بنانے کے لئے طرح طرح کی آندھیاں چل رہی ہیں۔عنقریب زلزلے کی کیفیت پیدا ہو گی۔ سانحہ ماڈل ٹائون کسی کو نہیں بھولا۔شہداء کے لواحقین بہت روئے‘ کلبلائے‘ سردیوں کی لمبی راتوں میں دعائوں کے دئیے فروزاں کیے بیٹھے ہیں۔ان کی آہوں سسکیوں نے ان کی دیوار جان تک ہلا ڈالی۔ سانحہ ماڈل ٹائون پر جب حکومتی بے چارگی کی خبریں آتی ہیں تو یہ لوگ دہکتے انگاروں پر لوٹتے ہیں۔ اعصاب کشن دکھ، اذیت ناک اضطراب ، بے پناہ مایوسی ، بددلی،سلگتے آنسو، جاگتی آنکھیں اور کرچی بنے خوابوں کو کبھی تعبیر ملے گی۔ جب اعمال تولے جائیں گے۔تب زبان خاموش‘ اعضا بولیں گے۔ جس طرح زمانہ بدلا‘اتنی تیزی سے بدلا کہ لوگ ادراک نہیں کر سکے مگر کعبہ کی بلند و بالا چھت پر بلال کے قدموں کا لمس ابھی باقی ہے۔ابھی تک عرب کی فضائوں کو ان کی آواز کے سحر نے جکڑ رکھا ہے۔ ایسے ہی سانحہ ماڈل ٹائون کے مظلومین کی آہیں ‘سسکیاں ہوا میں موجود ہیں۔مظلوم کی بد دعا‘سیدھی عرش پر پہنچتی ہے۔سورۃ ابراہیم میں ارشاد فرمایا: ہرگز اللہ کو بے خبر نہ سمجھنا،جو ظالم کر رہے ہیں۔یہاں مظلوم کے لئے تسلی اور ظالم کے لئے وعید ہے۔سوال وہی ہے، کیا ابھی گریباں میں جھانکنے کا وقت نہیں آیا؟