اسلام آباد سے پہلے یہاں کی دنیا کیسی تھی ، اس کے کچھ نقوش ابھی بھی اسلام آباد کے نواح میں موجود ہیں۔ نواح شہر میں چند ایسے گائوں موجود ہیں جو عشروں سے سی ڈی اے ایکوائر کر چکا ہے اور اب یہ گائوں سی ڈی اے کے رحم و کرم پر ہیں کب وہ آ کر انہیں روند دے اور یہاں نئے سیکٹر اور نئی بستیاں آباد ہو جائیں۔ چک شہزاد اور بحریہ انکلیو کے درمیان ایسا ہی ایک قدیم گائوں آباد ہے جسے کری کہتے ہیں۔ کچھ کہنا مشکل ہے کہ یہ گائوں کتنا پرانا ہے ۔ اس گائوں کی جامع مسجد البتہ 198 ہجری میں تعمیر ہوئی تھی ۔جس گائوں کی جامع مسجد 1200 سال پرانی ہو ، آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہ گائوں کتنا قدیم ہو گا۔ پچیس سال سے میں اسلام آباد میں ہوں لیکن اس گائوں کی تہذیب سے لا علم تھا۔ شہر آباد ہو جائیں تو نواح میں بکھری اداس بستیوں کو جانتا ہی کون ہے۔گذشتہ ایک کالم میں کری گائوں زیر بحث آیا تو ایک دوست نے بتایا کہ کری کی جامع مسجد بارہ صدیاں پرانی ہے۔میرا تجسس اور اشتیاق میرا ہاتھ تھامے مجھے کری لے گیا۔گا ئوں کی تہذیب میں مروت کی اگلی نشانیاں ابھی باقی ہیں۔ ایک صاحب سے راستہ پوچھا تو وہ اپنی دکان بند کر کے ساتھ ہو لیے۔راستے میں کچھ قدیم عمارتیں دنیا کی بے ثباتی کی کہانی سنا رہی تھیں اور یہ صاحب مجھے ان عمارتوں کی کہانی سنا رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد گائوں کی گلیوں سے گزرتے میں اس مسجد کے سامنے کھڑا تھا۔ بارہ صدیاں میرے سامنے کھڑی تھیں ، بلکہ یوں کہیے میں بارہ صدیوں کے سامنے حاضر تھا۔ مسجد کا مرکزی دروازہ جدید طرز تعمیر کا نمونہ تھا ۔اندر قدم رکھتے ہی مگرآپ جیسے صدیوں پیچھے چلے جاتے ہیں۔ پانچ چھ فٹ چوڑے ستونوں میں بنی محرابوں سے گزر میں مسجد میں داخل ہو گیا۔ مسجد واضح طور پر دو حصوں میں منقسم تھی۔ داخلی محرابوں کا حصہ الگ سے کھڑا تھا اور منبر والی عمارت جہاں امام صاحب نماز پڑھاتے ہیں الگ تھی۔ دونوں کو ایک عارضی چھت کے ذریعے ملا کر ایک ہی عمارت بنا لیا گیا ہے۔پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ وقت کے ہاتھوں مسجد کا کچھ حصہ شہید ہو گیا ہو گا اور بچ جانے والے ان دو حصوں کو ملا دیا گیا ہے۔ اس حصے سے گزر کر میں اور سجاد اظہر مسجد کے مرکزی حصے میں داخل ہو گئے۔ حسن و پاکیزگی کا یہ شاہکار تھا۔اب تو مساجد میں دیے نہیں ہوتے برقی قمقمے جگمگا رہے ہوتے ہیں لیکن اس حصے کی محراب میں دیے رکھنے کی جگہ موجود تھی ۔ دائیں بائیں کا حصہ نیا تعمیر شدہ تھا البتہ اس کا مرکزی گنبد اپنی قدیم شکل میں موجود تھا۔ یہ بالکل وہی منظر ہے جو آپ کو شاہی مسجد لاہور کے منبر کے ساتھ کھڑے ہو کر چھت کی طرف دیکھنے سے ملتا ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ شاہی مسجد کو اس کی اصل شکل میں محفوظ رکھا گیا ہے لیکن یہاں کسی نے ایسا تکلف نہیں کیا۔ جہاں جی چاہا پلستر مار دیا ، جہاں جی چاہا چونا اور پینٹ کر دیا۔ قدیم طرز تعمیر کی ساری نفاست اور نزاکت چھپ چکی تھی بس ڈھانچہ باقی تھا۔ دائیں بائیں سے دو تنگ راستے مسجد میں داخل ہوتے ہیں ۔ جن میں سے ایک وقت میں ایک ہی آدمی گزر سکتا ہے۔ مسجد کا جو درمیانی حصہ شہید ہو چکا ہے وہ موجود ہوتا تو اندازہ ہوتا باہر کی محرابوں اور ان دروازوں کے بیچ میں کیا تھا۔ اب صرف چشم تخیل سے ہی دیکھا جا سکتا تھا کہ یہاں کیا حسن تعمیر ہوتا ہو گا۔ ایک بڑے سے ستون کو جس کی چوڑائی چار پانچ فٹ ہو گی غور سے دیکھا تو اس پر سفید پینٹ کہیں کہین سے اکھڑا ہوا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جہاں جہاں سے یہ پینٹ اکھرا ہوا تھا وہاں نیچے سے نیلے اور سرخ رنگ کے قدیم زمانوں کی آرائش آج بھی نظر آ رہی تھی۔ اس منظر نے دکھی کر دیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا انہی آرائشی رنگوں کو بحال کیا جاتا تا کہ مسجد کی خوبصورتی کی قدیم رنگ برقرار رہ پاتے۔جس انداز سے یہاں رنگ کر کے قدیم آرائش اور نقش و نگار کو چھپا دیا گیا تھا یہ اچھے ذوق کی علامت نہیں تھی۔گائوں کے لوگوں نے محبت سے اس قدیم مسجد کو آباد رکھا ہے ۔ یہ ان سے ہوا ہوتا تو نظر انداز کیا جا سکتا تھا لیکن بتایا گیا کہ یہ ضروری مرمت سی ڈی اے نے کی۔ تو کیا سی ڈی اے کو احساس نہیں تھا وہ کتنے قیمتی اثاثے کی مرمت کر رہے ہیں اور ایسی قدیم مسجد کی مرمت میں اس کے اصل نقش اور طرز تعمیر کو برقرار رکھنا کتنا ضروری ہوتا ہے۔کاش اسلام آباد کے بابو لوگوں میں تھوڑی سی حس لطیف بھی موجود ہوتی ۔ یہاں اعلی شخصیات کے گھروں کی تزئین و آرائش پر کروڑوں برباد کر دیے جاتے ہیں کسی کو خیال نہیں کہ بارہ صدیاں قدیم مسجد کو اس کی اصل میں برقرار رکھنا کتنا ضروری ہے۔یہ مسجد اس تہذیب کا ایک اثاثہ ہے لیکن کسی کو پرواہ نہیں۔ مسجد سے باہر نکلنے لگے تو دائیں جانب ایک تنگ سا راستہ چھت کو جا رہا تھا۔ یہ راستہ قدیم شکل میں موجود ہے اور یہاں کوئی مرمت وغیرہ نہیں ہوئی۔ یقینا اوپر مینار ہوتا ہو گا جہاں یہ راستہ جاتا ہو گا۔ تنگ سا رستہ تھا اور سیڑھیاں سی بنی ہوئی تھیں ۔ مگر ایک دروازہ نصب کر کے اس پر تالا لگا دیا گیا تھا۔مسجد سے متصل ایک قدیم عمارت تھی۔ شاید یہ امام مسجد کا گھر ہوتا ہو۔ سجاد اظہر صاحب کا کہنا تھا مسجد تو دس بارہ سو سال قدیم ہے لیکن یہ گھر اتنا پرانا نہیں۔ گھر کا طرز تعمیر ان کے خیال میں دو سے تین سو سال پرانا تھا۔ بارہ سو سال پرانی اس مسجد میں چند لمحات گزار کر ہم لوٹ آئے لیکن دل ابھی تک وہیں ہے۔ چشم تصور سے میں اب بھی مسجد کی محراب پر لگی وہ طویل تحریر پڑھ رہا ہوں جو بتاتی ہے یہ مسجد 198 ہجری میں بنی اور فلاں فلاں گائوں کے فلاں فلاں ماہرین نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا۔سوال یہ ہے کیا حکومت کو بھی کچھ خبر ہے پارلیمان سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک عظیم تاریخی ورثہ موجود ہے؟کیا اہل اقتدار میں کوئی بازوق ہے جو اس مسجد کے قدیم طرز تعمیر کا حسن اس کے پورے آرائشی ذوق کے ساتھ بحال کر دے؟